کشمیر کے خانہ بدوش قبائل: آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد مسلمان قبائلی خاندانوں کے کوٹھے کیوں گرائے جا رہے ہیں؟

ریاض مسرور - بی بی سی اُردو، پہلگام، کشمیر


یوسف

’کل رات ریچھ خیمے کے پاس آ گیا تھا۔۔۔ میں نے زید کو زور سے اپنے سینے سے لگایا اور سانس روک کر کھڑی ہو گئی، کل تو ریچھ چلا گیا، معلوم نہیں اگلی بار کیا ہو گا۔‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں روبینہ اپنے خاوند، ساس سُسر اور چار سالہ بچے زید کے ساتھ ایک عارضی خیمے میں رہتی ہیں، جہاں وہ انتہائی غیر محفوظ محسوس کر رہی ہیں۔

اسی خیمے کے پاس ان کے اُس مضبوط اور محفوظ گھر کا ملبہ بکھرا پڑا ہے جسے حال ہی میں محکمہ جنگلات کے اہلکاروں نے ’ناجائز تعمیر‘ قرار دے کر گرا دیا ہے اور اب وہ عارضی خیمے میں رہنے پر مجبور ہیں۔

ایسے درجنوں عارضی خیمے سرینگر سے جنوب کی جانب 120 کلومیٹر دور پہلگام کے لِدرو جنگلات میں موجود ہیں جہاں بہت سے ایسے خانہ بدوش خاندان رہائش پذیر ہیں جن کے پتھروں، گارے اور گھاس پھوس سے بنے مکانات (کوٹھے) ناجائز قرار دے کر گرا دیے گئے ہیں۔

جموں کشمیر کے بیشتر خطوں میں جنگلات کی زمین پر کئی نسلوں سے رہنے والے یہ لوگ حیران ہیں کہ حکومت نے اچانک ایسا اقدام کیوں اٹھایا جس نے انھیں بے گھر کر دیا۔

روبینہ کے خاوند اسلم کھٹانہ مزدوری کرتے ہیں لیکن اُن کے سسر محمد یوسف کھٹانہ گھر پر ہی رہتے ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’یہاں ہر کنبے کا یہی حال ہے۔ گھر میں دو مرد ہوں تو ایک کو رکھوالی کے لیے گھر پر رہنا پڑتا ہے۔ پچھلے دنوں پڑوس میں ایک چار سالہ بچی پر شیر نے حملہ کر دیا تھا، چند ماہ میں ایسے کئی حادثے ہوئے ہیں۔ بارش ہوتی ہے تو بستر بھیگ جاتا ہے، ہم رات بھر کھڑے رہتے ہیں اور دن میں جب بارش تھم جائے تو سو جاتے ہیں۔ اب تو ہم کہتے ہیں اس زندگی سے بہتر موت ہی ہے۔‘

روبینہ

یوسف کہتے ہیں کہ گذشتہ مہینے جب وہ اپنے ہی بیٹے کے ساتھ مزدوری کے لیے قصبے کی طرف گئے تھے تو سرکاری اہلکاروں نے اُن کی بیوی، بہنوں اور کم سن پوتے کے سامنے 70 سال قبل تعمیر کیے گئے ان کے کوٹھے کو گرا دیا تھا۔

’کوئی اطلاع نہیں۔۔۔ کچھ نہیں۔۔۔ اچانک سب کچھ ختم کر دیا۔ ہماری گائے کے لیے بھی کوٹھے میں جگہ تھی، برسات میں ہم کہاں جائیں، اور کل کو جب سردیوں میں برفباری ہو گی تو ہمارا کیا ہو گا، کیا ہم انسان نہیں ہیں؟‘

نئی دلی میں حکمران جماعت بی جے پی نے چند سال قبل دعویٰ کیا تھا کہ آرٹیکل 370 کشمیر میں بسنے والے قبائلی باشندوں کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔

واضح رہے سنہ 2019 سے قبل انڈیا کی حکومت نے جنگلاتی حقوق کے قانون یعنی فاریسٹ رائٹس ایکٹ کو نافذ کرنے سے انکار کیا تھا، پورے ملک میں یہ قانون پچھلے کئی سال سے نافذ ہے۔ اس قانون کی رُو سے جنگلاتی اراضی میں آباد خانہ بدوش گجر اور بکروال طبقوں کے زیرتصرف زمین پر اُن کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کو قبائلی خاندانوں کے لیے ایک بڑی خوش خبری کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ لیکن جموں میں بعض بی جے پی رہنماؤں نے جنگلوں میں آباد مسلمان قبائل کو کھدیڑنے کی کاروائیوں کو ’لینڈ جہاد‘ کا نام بھی دیا۔

متاثرہ مکان

لِدرو کے ہی نوجوان رہائشی چوہدری منظور پوسوال کی پیدائش بھی ایک کوٹھے میں ہی ہوئی ہے۔ وہ آج کل پہلگام اور اس کے گرد و نواح میں جنگلاتی اراضی پر صدیوں سے رہنے والے قبائلی خاندانوں کے حقوق کی خاطر سرگرم ہیں۔

منظور پوسوال کہتے ہیں کہ ’ہمیں بتایا گیا کہ دفعہ 370 ہٹنے سے ہماری زندگی بدل جائے گی۔ یہاں ہمارے گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے، کیا یہی تبدیلی تھی جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے سرکاری افسروں سے بھی پوچھا کہ کس قانون کے تحت گھروں کو مسمار کیا گیا، وہ صرف اتنا کہتے ہیں کہ اوپر سے حکم ہے، سمجھ نہیں آتا کہ یہ اوپر کہاں پر ہے۔‘

محکمہ برائے قبائلی امور کے سربراہ شاہد اقبال چوہدری کہتے ہیں کہ انھیں خود اس بات پر حیرانی ہے کہ یہ کوٹھے مکینوں کی آبادکاری کے بغیر کیسے گرائے جا رہے ہیں۔

بکروال خواتین

جموں کشمیر پر اب جس فاریسٹ ایکٹ کا اطلاق ہوا ہے اُس میں باقاعدہ اصول موجود ہے جس کے مطابق اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی نے ناجائز ذریعے سے کوئی تعمیر کی تو اُس صورت میں بھی تب تک کسی خاندان کا مکان نہیں گرایا جائے گا جب تک اسے متبادل جگہ پر آباد نہیں کیا جاتا۔

شاہد اقبال کہتے ہیں کہ مرکزی حکومت کی جانب سے حالیہ دنوں 15 کروڑ روپے کی رقم مختص ہوئی ہے جو قبائلی خانہ بدوشوں کی بہبود کے لیے استعمال ہونی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکریت پسندی میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

’اب کشمیریوں کا انڈیا سے اعتبار اٹھ گیا ہے‘

کشمیر میں زمین خریدنے کی اجازت: ’دلی نے کشمیر کو برائے فروخت رکھ دیا‘

کشمیر: جنگلات میں نسل در نسل آباد قبائلیوں کے گھر کیوں مسمار کیے جا رہے ہیں؟

شاہد اقبال کا کہنا ہے کہ حکومت نے جموں و کشمیر میں قبائلی خانہ بدوشوں کی علیحدہ سے مردم شماری کا سروے بھی کیا، جس کے مطابق ایسے لوگوں کی کل آبادی 18 لاکھ ہے جن میں سے بیشتر جنگلوں کے بیچ کوٹھوں میں رہتے ہیں۔

کوٹھوں کے انہدام کا سلسلہ کئی ماہ سے جاری ہے لیکن اس سال ان کوٹھوں کے اردگرد موجود اخروٹ کے درختوں پر بھی حکومت نے نشان لگا کر فصل کو خانہ بدوشوں کے لیے ممنوع قرار دیا ہے۔

پی ڈی اے

دو کمروں کے کوٹھے میں چودہ اہل خانہ کے ہمراہ رہنے والے محمد یوسف چوہان کا کہنا ہے کہ ’سرکاری اہلکار کوٹھا گراتے ہیں، پھر مسئلہ یہ ہے کہ خیمہ بھی لگانے نہیں دیتے۔ ایک ہی خیمے میں چار یا پانچ خاندان رہتے ہیں، جنگلی جانوروں کا خطرہ ہے، موسم کے مسئلے ہیں، ہم جائیں گے کہاں، 80 سال سے جن درختوں کی فصل پر ہم تھوڑا بہت گزارا کرتے تھے، کیا اُس پر ہمارا حق نہیں ہے۔‘

کچھ کوٹھے ایسے بھی ہیں جن کو گرانے کی باری نہیں آئی ہے، لیکن ایسے لوگوں کے سر پہ بھی خوف کی تلوار لٹک رہی ہے۔ بشیر مغل ایسے ہی قبائلی کشمیری ہیں جو لِدر کے پہاڑ پر ایک کوٹھے میں دس افرادِ خانہ کے ساتھ رہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کوٹھے کے صرف دو کمرے ہیں، ’میرے ماں باپ، بیوی بچے اور بہن بھائی ملا کر ہم دس افراد ہیں۔ اسی کوٹھے میں ہمیں بھیڑ بکریاں بھی رکھنی ہیں۔ یہ کوٹھا ویسے بھی بوسیدہ ہے، کبھی بھی گر سکتا ہے، لیکن روز سرکاری افسر ہمیں دھمکی دیتے ہیں کہ اس کو گرایا جائے گا، ہم کہاں جائیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp