بلوچستان کے ضلع پنجگور میں تین سالہ بچے کا گھر کے باہر سے اغوا اور قتل کے خلاف احتجاج

محمد کاظم - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


احتجاج

‘میرا بچہ تو صرف تین سال کا تھا۔ نہ اس نے کسی کا کچھ بگاڑا تھا اور نہ ہی ہمارے خاندان کی کسی سے کوئی دشمنی تھی مگر میرے معصوم بچے کو سفاکانہ طریقے سے ہلاک کیا گیا۔’

یہ کہنا تھا ایران سے متصل بلوچستان کے ضلع پنجگور سے تعلق رکھنے والے خلیل احمد کا جن کے تین سالہ بچے کو منگل کے روز گھر کے باہر سے اٹھائے جانے کے تھوڑی دیر بعد کسی دوسرے مقام پر زخمی حالت میں پھینک دیا گیا تھا۔

بچے کو پنجگور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ خلیل احمد کا کہنا تھا کہ انھیں اس بات کا بالکل اندازہ نہیں کہ ان کے بچے کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘جس شخص نے میرے بچے کے ساتھ اس سلوک کا مظاہرہ کیا وہی بتا سکتا ہے کہ بچے کو انھوں نے کس بات کی اتنی بڑی سزا دی۔’

پنجگور پولیس نے اس واقعے کا مقدمہ درج کیا ہے لیکن تاحال واقعے کے محرکات کے علاوہ تحقیقات کے حوالے سے کسی پیش رفت کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی کا کہنا ہے کہ ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ ادھر لواحقین اور دیگر علاقہ مکینوں نے لاش کے ہمراہ پولیس سٹیشن کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔

مظاہرے کے شرکا نے بچے کو ہلاک کرنے کے محرکات معلوم کرنے اور اس کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

احتجاجی مظاہرہ کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے کی مذمت کی گئی اور بچے کے لواحقین کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

تشدد سے پہلے بچے کو کہاں سے اٹھایا گیا؟

بچے کے والد خلیل احمد پنجگور کے علاقے چتکان کے رہائشی ہیں۔ ان کا بنیادی تعلق ضلع خاران سے ہے لیکن محنت مزدوری کے سلسلے میں ان کے خاندان کے افراد 20، 25 سال قبل خاران سے پنجگور منتقل ہوئے تھے۔

خلیل احمد نے بتایا کہ منگل کی صبح سویرے ان کا بیٹا قدیر کھیلنے کے لیے گھر سے باہر نکلا تھا۔

‘میں کسی کام سے باہر نکلا تھا، جب واپس آیا تو وہ گھر کے گیٹ کے پاس کھیل رہا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ اندر آﺅ لیکن وہ نہیں آیا اور باہر کھیلتا رہا۔’

احتجاج

ان کا کہنا تھا کہ قدیر چار بچوں میں تیسرے نمبر پر تھا جو کہ بیمار بھی رہتا تھا اور چند عرصہ قبل اس کو علاج کے لیے خاران بھی لے کر گئے تھے۔

خلیل احمد نے بتایا کہ ’میں اپنے گھر میں بیٹھا تھا کہ میری بیوی نے زور سے آواز دی کہ کوئی قدیر کو اٹھا کر لے گیا‘۔

انھوں نے بتایا کہ ‘بچے کو شاید اٹھانے والے شخص نے ایک ایسے انداز سے اٹھایا کہ تکلیف سے اس کی چیخ نکلی جسے سن کر اس کی والدہ باہر گئی مگر بچے کو باہر نہ پا کر انھوں نے مجھے آواز دی۔’

خلیل احمد کا کہنا تھا کہ یہ اندازاً صبح کے سات بجے کا وقت تھا۔ میں اپنا موٹر سائیکل لے کر باہر نکلا تو باہر اپنی بھتیجی صبرینہ کو دیکھا جس نے بتایا کہ ایک موٹر سائیکل پر کوئی شخص قدیر کو لے کر شمال کی جانب لے جا رہا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے پہلے مختلف گلیوں میں تلاش کیا تو مجھے کوئی نہیں ملا لیکن جب میں اندازاً دو کلومیڑ دور قلم چوک کے علاقے میں پہنچا تو بچے کو راستے میں پڑا دیکھا‘۔

بچہ کس حال میں تھا؟

خلیل احمد نے بتایا کہ انھوں نے جب بچے کو اٹھایا تو وہ شدید زخمی حالت میں تھا اور بولنے کے قابل نہیں تھا تاہم اس کی سانسیں چل رہی تھیں لیکن اس کو ڈھونڈتے ہوئے انھیں پہلے ہی بہت دیر ہو چکی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ بچے کے چہرے پر زخم تھے اور اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ ‘یوں لگتا تھا کہ بچے کو لے جانے والا شخص اکیلا تھا اور موٹر سائیکل پر آگے ایک ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کے دوران بچہ گر کر زخمی ہو گیا تھا یا بچے کو منھ کے بل گھسیٹا تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ‘زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ بچے کے گلے میں رسی بھی تھی۔’

یہ بھی پڑھیے

جب ایک افغان ماں نے اپنا چند ماہ کا بیمار بچہ ٹرک ڈرائیور کے ہمراہ پاکستان روانہ کیا

کیا خاتون کے سر میں لگنے والی گولی نو سالہ بچے نے ہی چلائی؟

’بچے اور بوڑھی والدہ دربدر ہیں اور ہم یہاں پاکستان میں پھنسے ہیں‘

بلوچستان میں بچہ مبینہ زیادتی کے بعد کیمیائی مواد سے زخمی: پولیس

ان کا کہنا تھا کہ ‘انھوں نے فوری طور پر بچے کو ہسپتال پہنچایا جہاں ایک گھنٹے بعد ان کا علاج شروع کیا گیا لیکن وہ جانبر نہیں ہو سکا۔’

فون پر رابطہ کرنے پر ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے میڈیکل سپرانٹینڈنٹ ڈاکٹر انور عزیز نے کہا کہ ہسپتال کے جس ڈاکٹر نے بچے کا معائنہ کیا تھا اس نے بتایا کہ بچے کے جسم پر زخم بھی تھے اور ان کو لٹکانے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔

بلوچستان

ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا گیا

بچے کے والد کا کہنا تھا کہ ’ہم نے کسی کا کچھ بھی نہیں بگاڑا ہے اور نہ ہی ہم نے کسی کو اذیت دی ہے‘۔

انھوں نے کہا کہ ‘پنجگور میں ہم محنت مزدوری کر کے گزر بسر کر رہے ہیں۔ نہ ادھر کسی سے ہمارا جھگڑا ہوا ہے اور نہ ہی خاران میں کسی سے ہمارا کوئی تنازعہ تھا۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘جب ہم نے کسی کو اذیت نہیں دی تو پھر یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہمارے معصوم بچے اور ہمیں کس بات کی سزا دی گئی۔’

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کا بچہ طبعی موت مر جائے یا کسی حادثے کا شکار ہو جائے تو اس کا غم اتنا زیادہ نہیں ہوتا لیکن ’ہمارے معصوم بچے کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کا غم ہم کبھی بھلا نہیں سکیں گے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم یہی چاہتے ہیں کہ انصاف ہو تاکہ کسی اور کا بچہ اس طرح کے ظلم کا شکار نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp