ایک حادثاتی وزیراعظم


میرا نام شاہد خاقان عباسی ہے۔ میری عمر 62 سال ہے اور میں ان پہاڑوں کا رہنے والا ہوں۔ میں ان تمام افراد کو جواب یہاں سے بھاگ گئے ہیں کو چیلنج کرتا ہوں کہ واپس آئیں اور میرا مقابلہ کریں میرا دعوی ہے کہ وہ یہاں سے سٹریچر پر سیدھے ہسپتال جائیں گے۔

قارئین کرام اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ مندرجہ بالا الفاظ کسی پاکستانی فلم یا ڈرامے کے ڈائیلاگ ہیں تو معاف کیجیے گا آپ سراسر غلطی پر ہیں۔

درحقیقت یہ الفاظ 7 دفعہ کے ممبر قومی اسمبلی اور پاکستان کی حالیہ دس سالہ سیاسی تاریخ کے دوسرے حادثاتی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ہیں جو کہ انہوں نے پارلیمنٹ لاجز کے باہر عین اس وقت فرمائے جب وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے رہے تھے۔

عباسی صاحب کے سیاسی سفر کا آغاز بھی حادثاتی تھا جو کہ ان کے والد خاقان عباسی کی المناک رحلت کے بعد 1988 میں شروع ہوا۔ جب انہوں نے اپنے والد کی آبائی نشست بحیثیت آزاد امیدوار جیت کر IJI میں شمولیت اختیار کی۔ موصوف نے اس کے بعد 1990، 1993 اور 1997 میں مسلم لیگ کے جھنڈے تلے عام انتخابات میں اپنی نشست کو برقرار رکھا۔ عباسی صاحب کی اقتدار میں آنے کی دلی خواہش 1997 میں اس وقت پوری ہوئی جب نواز شریف نے انہیں پی آئی اے کے چیئرمین کی حیثیت سے تعینات کر دیا جو کہ عوامی توقعات کے برعکس انہوں نے دل و جان سے قبول کر لیا۔

ان کا یہ طرزعمل ان کے اپنے حامی تو دور بلکہ سیاسی مخالفین کے لئے بھی ایک اچنبھے سے کم نہ تھا کیونکہ کوئی بھی ابھرتا ہوا نوجوان سیاستدان کسی سرکاری ملازمت کو قبول کرنا گوارا نہیں کرتا۔ لیکن ”بنیے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے“ محاورے کے عین مصداق عباسی صاحب نے اس عہدے کو قبول کر لیا کیونکہ موصوف پی آئی اے جیسے بڑے قومی ادارے سے حاصل کردہ تجربے کو اپنے آنے والے کاروباری اور معاشی منصوبوں میں بروئے کار لانا چاہتے تھے۔ چنانچہ پی آئی اے میں اپنی دو سالہ رفاقت کو انہوں نے محض ذاتی تجربہ حاصل کرنے تک ہی محدود رکھا اور اس دوران پی آئی اے کی انتظامی اور مالی کارکردگی کو تاریخ کی بد ترین سطح تک پہنچا دیا۔

بدقسمتی سے عباسی صاحب جیسے حادثاتی سیاست دان کو اس بات کا کوئی ملال نہ تھا کیونکہ وہ دور بہت دور اپنے لئے ایک تابناک معاشی مستقبل بخوبی دیکھ رہے تھے 2002 کے عام انتخابات میں عبرتناک شکست کے بعد انہوں نے پہلے سے ڈوبتی پی آئی اے کے مقابلے میں ایک نئی ائر لائن Air Blue کے نام سے قائم کردی۔ موصوف اس کے پہلے چیئرمین اور بعد ازاں 2007 میں اس کے چیف آپریٹنگ افسر کے پرکشش اور انتہائی منفعت بخش عہدے پر براجمان ہو گئے جو کہ ان کے پی آئی اے سے حاصل کردہ تجربے کا نقط عروج تھا۔

قارئین کرام اگر آپ کو لفظ دوراندیشی کے حقیقی معنی سمجھنے میں کبھی بھی کوئی دقت پیش آتی ہے تو عباسی صاحب کے پی آئی اے سے Air Blue کے سفر نے آپ کی ممکنہ مشکل کو یقیناً حل کر دیا ہوگا۔

عباسی صاحب کی کاروباری دوراندیشی سال 2016 میں بھی رنگ لائی جب انہوں نے بحیثیت وزیر پیٹرولیم حکومت قطر سے 16 ارب ڈالر سے زائد LNG کی خریداری کا 15 سالہ معاہدہ کر ڈالا جس کے مضمرات پاکستانی قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ مرتے کو مارے شاہ مدار کے عین مصداق موصوف نے پورٹ قاسم میں پہلے LNG ٹرمینل لگانے کا معاہدہ بھی کر ڈالا۔ جو کہ ہر لحاظ سے LNG ٹرمنل لگانے والے ادارے کے لیے انتہائی منفعت بخش تھا۔ کیوں کہ پاکستان میں گیس کی مقامی پیداوار ہر آنے والے دن تیزی سے کم ہو رہی تھی اور اس کو آنے والے کئی سالوں تک LNG کی بلاتعطل ضرورت تھی۔

لیکن عباسی صاحب نے حلوائی کی دکان پر دادا جی کا فاتحہ کے عین مطابق ٹرمنل آپریٹر کو کپیسیٹی پیمنٹ کی مد میں یومیہ 150000 امریکی ڈالر کی ادائیگی بھی کمال مہربانی سے منظور کر ڈالی۔ جس کے نتیجے میں موصوف آج کل NAB کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ عباسی صاحب کی مندرجہ بالا گرانقدر خدمات سے حاصل کردہ مالی منفعت کے ڈانڈے یقیناً رائیونڈ سے جا ملتے ہیں۔

عباسی صاحب کی سیاسی کامیابیوں کا سورج اس وقت نصف النہار پر پہنچ گیا جب سابق وزیراعظم نواز شریف کی عدالتی نا اہلی کے فیصلے کے بعد انہیں ملک کا وزیراعظم مقرر کر دیا گیا۔ عباسی صاحب نے اپنے وزارت عظمی کا دور تقریباً ہر روز اعلی عدالتوں اور دیگر حساس حکومتی اداروں کو مطعون کرنے اور نواز شریف میرا وزیراعظم ہے کی گردان کرتے ہوئے گزارا۔ ایوان وزیراعظم کی شان و شوکت اور اقتدار کی بھول بھلیوں میں عباسی صاحب کچھ اس طرح بھٹکے کہ انہوں نے عوام سے اپنا بچا کھچا تعلق بھی توڑ ڈالا جو کہ 2018 کے عام انتخابات میں ان کی بدترین شکست پر اختتام پذیر ہوا جب موصوف پی ٹی آئی کے ایک غیر معروف سیاسی کارکن سے دس ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست کے دو چار ہوئے۔ عباسی صاحب نے حلقہ 53 اسلام آباد سے عمران خان کا بھی مقابلہ کیا لیکن عوام الناس میں ان کی اور ان کی جماعت کے لئے پائی جانے والی نفرت نے انہیں چالیس ہزار سے زائد ووٹوں سے ہرا دیا۔

عباسی صاحب جو کہ ٹی وی پروگراموں پر سرشام گزشتہ انتخابات میں دھاندلی اور سلیکٹر اور سلیکٹڈ کی گردان کرتے نہیں تھکتے آج تک کسی قسم کی انتخابی عذرداری دائر کرنے سے قاصر نظر آئے ہیں۔ جو کہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ان کے اس دعوے میں درحقیقت کوئی وزن نہیں۔

عباسی صاحب نے ”مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے کہ دانہ خاک میں مل کر گل گلزار بنتا ہے“ کے عین مطابق 1988 سے 2018 تک آل شریف کی اس قدر خدمت کی کہ انہوں نے کمال مہربانی سے میاں حمزہ شہباز کی لاہور سے خالی کردہ نشست پر انہیں ایک بار پھر قومی اسمبلی کا ممبر منتخب کرا دیا جو کہ ایک سابقہ وزیراعظم کے لئے ایک بد نما داغ سے کم نہیں تھا۔ لیکن عباسی صاحب نے جن کا پورا سیاسی سفر محض شریف خاندان کی چاپلوسی اور خوشامد میں گزرا تھا اس نشست کو حاصل کرنے میں کسی تعمل کا اظہار نہ کیا۔ موصوف جو کہ اپنا آبائی حلقہ انتخاب باوجود سابقہ وزیراعظم کے ہار چکے تھے آج کل انتہائی ڈھٹائی سے عوام کے منتخب نمائندہ ہونے کا دعوی کرتے نظر آ رہے ہیں جبکہ درحقیقت اس مانگے تانگے کی نشست کے 90 فیصد سے زائد عوام ان کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں۔

عباسی صاحب کی خوش آمد اور ذاتی مفادات پر مبنی سیاست کا سفر آج بھی زور و شور سے جاری ہے اور آل شریف کی تابعداری میں وہ آج کل مریم نواز کے عین پیچھے ہاتھ باندھے نظر آتے ہیں جو کہ پاکستانی عوام کے لئے بالعموم اور ان کے آبائی حلقے کی عوام کے لیے بالخصوص شدید شرمندگی کا باعث ہے۔

عباسی صاحب کی سیاسی گھٹن اور مایوسی آج کل عروج پر ہے نتیجتاً تمام اعلی عدالتیں اور حساس قومی ادارے ان کی دشنام درازی سے محفوظ نہیں ہیں۔ عباسی صاحب قومی اسمبلی کے حالیہ بجٹ اجلاسوں میں ہونے والی شدید ہنگامہ آرائی اور اخلاق باختہ زبان کے استعمال میں بھی پیش پیش رہے۔ مزید برآں انہوں نے اسمبلی کے فلور سے سپیکر قومی اسمبلی کو براہ راست جوتا مارنے کی دھمکی بھی دے ڈالی جو کہ کہ ملک کے پارلیمانی اور عوامی حلقوں میں شدید ترین تنقید کا تا دیر موضوع سخن رہی۔ موصوف گزشتہ کئی انتخابات میں اپنی ہی جماعت کی انتخابی دھاندلیوں کا بار بار اظہار کر چکے ہیں۔ جو کہ ان کی جماعت اور لندن میں براجمان اعلی قیادت کے لیے انتہائی شرمندگی کا باعث بن رہا ہے۔

عباسی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اپنی خوشامد اور ذاتی منفعت پر مبنی سیاست کو جلد از جلد خیرآباد کہہ کر ایک روشن خیال حقیقت پسند سیاستدان کا کردار ادا کریں۔ وگرنہ ان کی حادثاتی سیاست اور حادثاتی وزیراعظم ہونے کا انجام ممکنہ طور پر برطانیہ یا امریکہ کے کسی پرتعیش اور بیش قیمت ولا میں محض تنہائی اور سیاسی رسوائی پر اختتام پذیر ہوتا نظر آ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments