کیا ایران میں بے حجابی جرم ہے؟


بی بی سی پہ ایک ویڈیو بلاگ نشر کیا گیا ہے، جس میں شاہ پاریک شجری زادہ نامی ایرانی خاتون کہتی ہیں کہ وہ ایک عام سی گھریلو خاتون تھیں۔ پھر ایک دن انہوں نے عورتوں کی اس تحریک میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، جنھوں نے سوشل میڈیا پر بغیر حجاب کے اپنی تصویریں پوسٹ کیں تھیں۔ اس تحریک میں شامل ہونے کے بعد شاہ پاریک نے آزادی محسوس کی، لیکن اس تحریک کی وجہ سے ان کو گرفتار کر لیا گیا۔ تاہم انہوں نے اپنا سرکش رویہ نہیں بدلا۔ آخر میں انہیں اپنی زندگی کے لئے اپنے شوہر اور بچے کو چھوڑ کر ملک سے فرار ہونا پڑا۔ یہ سب بی بی سی لندن نے پہلی بار نشر نہیں کیا بلکہ متواتر خواتین کی آزادی کے حوالے سے پہلے بھی ایسے ویڈیوز اور آرٹیکل نشر کرتی رہتی ہے۔

میں نے گذشتہ ماہ چند روز ایران میں گزارے ہیں اور مجھے ایران میں زندگی بسر کرنے والے افراد کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا، اپنے مشاہدات کو سفرنامہ کی شکل میں قسط وار شائع بھی کیا ہے۔ ایران میں سفر کے پہلے روز ہی ہم ٹرین سے تہران سے مشہد جا رہے تھے کہ ٹرین میں میرے ایک دوست کی نشست ایک خاتون کے ساتھ تھی، پہلے تو ہمیں عجیب لگا کہ یہ کیا ہے، ایران ایک اسلامی ملک ہے اور یہاں ٹرین میں آٹھ گھنٹے کا سفر ایک خاتون کے ساتھ بیٹھ کر کرنا پڑے گا (واپسی جب بائی ائیر تہران سے لاہور آئے، تب بھی مرد و خواتین جہاز میں ایک ساتھ بیٹھے تھے ) ۔

ٹرین کا سفر جاری تھا کہ میں نے سوچا کہ موبائل چارج کرنا چاہیے، لیکن باقی ٹرینوں کی طرح اس ٹرین میں کوئی چارجنگ کی سہولت نہیں تھی تو اس خاتون نے میری پریشانی دیکھ کر کہا، کیا آپ کو موبائل چارج کرنا ہے، یہاں مدد سے زیادہ اس خاتون کا انگریزی میں بات کرنا اہم تھا، کیونکہ ایران میں 100 میں ایک یا دو افراد ہی انگریزی بول پاتے ہیں۔ میں نے ہاں میں جواب دیا تو مجھے پاور بنک دیا گیا۔ اس خاتون نے بتایا کہ وہ سوئٹزر لینڈ میں رہتی ہے اور یہاں مشہد میں اس کے والدین مقیم ہیں، وہ ایک ایرانی شیعہ خاتون ہے۔ اس خاتون کے مطابق یہاں پر بہت سی پابندیاں ہیں، اس لئے اسے یورپ ہی رہنے کے لئے پسند ہے، کیونکہ وہاں حجاب نہیں کرنا پڑتا اور آزادی محسوس ہوتی ہے۔

ہماری گفتگو جاری تھی کہ اگلی نشستوں پر بیٹھی ایک اور ایرانی فیملی بھی ہماری باتیں بغور سن رہی تھی۔ دو بچوں کا باپ مجھ سے مخاطب ہوا کہ میری یہ بیٹی بھی انگریزی جانتی ہے، آپ صحافی ہیں تو میری بیٹی سے بھی ایران میں رہنے والوں کے بارے پوچھ سکتے ہیں۔ میں نے اس طالبہ سے دریافت کیا کہ کیا واقعی حقیقی آزادی یہ ہے کہ آپ لوگ حجاب نہ پہنیں اور یورپ میں آزادی کے ساتھ رہنا پسند کریں۔ طالبہ نے کہا ہم یہاں آزادی کے ساتھ رہتی ہیں، خواتین مردوں کے شانہ بشانہ نوکریاں بھی کرتی ہیں اور ہر میدان عمل میں آگے ہیں۔ حجاب میں رہ کر وہ سب کیا جاسکتا ہے، جو بغیر حجاب کے۔ یہ آزادی نہیں ہے کہ آپ حجاب نہ پہنیں اور آزادی کا نعرہ لگائیں۔

میرا اگلا سوال تھا کہ ایران میں جو خواتین حجاب نہیں لیتیں، کیا ان کو پولیس سزا دیتی ہے یا جرمانہ ہوتا ہے تو جواب ملا یہ برطانوی میڈیا کا پروپیگنڈہ ہے، یہاں انقلاب کے بعد ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ خواتین اب حجاب کرنا ہی پسند کرتی ہیں۔ بازار اور عوامی جگہوں پہ جو خواتین آتی ہیں، آپ دیکھیں گے کہ وہ جینز اور سکن ٹائٹ کپڑے پہنتی ہیں، اگرچہ وہ انقلاب کو قبول نہیں کرتی ہوں گی، لیکن اس ملک کے قانون کو قبول کرتی ہیں۔ ایسی خواتین جو حجاب نہیں کرتیں، ان کے لئے کوئی مشکلات نہیں ہوتی، لیکن جو اس کو تحریک بنا کر سول نافرمانی جیسا ماحول بناتی ہیں، انہیں قانون کی خلاف ورزی کے جرم میں ضرور سزا ہوتی ہے، حجاب نہ کرنا قابل اعتراض نہیں بلکہ اس کو تحریک بنانا جرم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).