ڈائنو سار چڑیا!


ڈائنو سار اور ٹی ریکس کا نام سنتے ہی ہمارے ذہنوں میں جیوراسک پارک فلم میں دکھائے گئے عظیم الجثہ قوی ڈائنو سارز اور ان کی پھیلائی گئی تباہی گھوم جاتی ہے۔ مگر اس وقت آپ کی سوچ کیا ہو کہ جب آپ کو بتایا جائے کہ ایک عام گھریلو چڑیا کے حجم جتنا پرندہ جو آپ کے ہاتھ کی ہتھیلی میں سما ء سکتا تھا، ٹی ریکس جیسی ہی کھوپڑی اور جبڑا رکھتا تھا۔ یہ دعویٰ چینی ماہر قدیم انواع (پیلئنٹالوجسٹ) نے کیا ہے۔ اس چڑیا کا جبڑا ٹائرنوسارس ریکس (المعروف ٹی ریکس) اور تھیرا پوڈ ڈائنوسارز جیسا ہے۔

اس چڑیا ڈائنو سار کی چونچ نہیں ہوتی تھی بلکہ ٹی ریکس ڈائنو سارز اور آج کل کے مگرمچھوں کی طرح کا جبڑا اور دانت ہوتے تھے۔ آج کل آپ کو بھانت بھانت کے پرندے اور چڑیاں نظر آتی ہیں جن میں کچھ بڑے تو کچھ انتہائی چھوٹے ہوتے ہیں مگر ان سب میں مشترکہ چیز ان کی چونچ ہوتی ہے۔ جو کہ حجم میں بڑی یا چھوٹی ہو سکتی ہے لیکن اس کی ساخت اور انداز ایک جیسا ہوتا ہے۔ یہ چھوٹی سی چڑیا جو کہ آپ کے ہاتھ کی ہتھیلی میں باآسانی سما سکتی اور یقیناً اسے کاٹنے اور کھانے کی کوشش کرتی، آج سے بارہ کروڑ سال پہلے زمین پر رہا کرتی تھی۔

اس کے رکاز جنوبی چین کی ایک معدوم جھیل سے دریافت ہوئے ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج چینی اکادمی برائے سائنس کے ذیلی ادارے ”انسٹیٹیوٹ آف ورٹابریٹ پیلئینٹالوجی اینڈ پیلؤ اینتھروپولوجی“ کے محققین نے مشہور جریدے ”نیچر کمیونیکیشنز“ میں شائع کروائے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ ڈائنو سار چڑیا بڑے بڑے جبڑوں اور بھاری بھرکم جسامت والے ڈائنو ساروں اور آج کے دور کے ہلکے پھلکے نرم و ملائم پر رکھنے والے پرندوں کے درمیان کی مخلوق تھی۔

یہ وضاحت اس تحقیق کے محققین من وینگ، تھامس سٹڈھم، زینگ لی، زینگ زو، زوھنگے زھو نے اپنے مقالے میں پیش کی۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ انتہائی قدیم زمانے کے رکازات کا مکمل صحیح حالت میں ملنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ لیکن سائنسدانوں کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں اس چڑیا کے رکاز انتہائی محفوظ شدہ حالت میں مل گئے تھے۔ جس کی کھوپڑی بھی پوری طرح صحیح سلامت تھی جس سے ماہرین یہ اندازہ لگانے کے قابل ہو سکے کہ یہ چڑیا ڈائنو سارز اور موجودہ دور کے پرندوں کے درمیان کی مخلوق ہے۔

اور اس وقت ان ماہرین کی حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی جب انہوں اس ڈھانچے کے کمپیوٹر ماڈل کو بنایا تو انہیں پتا چلا کہ اس پرندے کی کھوپڑی کے خد و خال اور جبڑا ٹی ریکس سے کتنے زیادہ ملتے جلتے تھے۔ یہ پرندہ، پرندوں کے معدوم ہو جانے والے ایک ایسے گروہ سے تعلق رکھتا تھا جسے آج ”اینین ٹی اورنی تھائینس“ (enantiornithines، ) یا متضاد نسل کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ یہ پرندے ڈائنو سارز کے دور عروج میں زمین پر رہا کرتے تھے۔ ویسے تو اس زمانے کے پرندوں کے رکاز ساری دنیا سے ملے ہیں مگر چین کی بعض معدوم شدہ جھیلوں کی تہہ سے ملنے والے رکازات کے ”بہترین حالت“ میں ملنے کی وجہ سے تعریف کی جاتی ہے۔ اس چڑیا ڈائنو سار کی کھوپڑی منگولیا سے ملنے والے ”ڈرومیو سار لن ہیریپٹر“ (dromaeosaur

Linheraptor ) سے انتہائی زیادہ ملتی جلتی تھی۔ سائنسدانوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ یہ ڈائنوسار چڑیا ابھی بچہ یعنی چوزہ ہی تھی کہ اس کی وفات ہو گئی۔ اس بات کی تصدیق یوں ہوئی کہ اس چڑیا کے گھٹنے اور ٹخنے کے جوڑ ابھی مکمل نہ ہوئے تھے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس کا سر اپنے جسم سے زیادہ بڑا دکھائی دیتا تھا۔ کیونکہ آج بھی پرندوں کے چوزوں کے سر بڑے ہوتے ہیں۔

یہ تحقیق بھی سائنسدانوں کے درمیان بڑے عرصے سے تسلیم شدہ اس نظریے کی ایک دفعہ پھر سے تصدیق کرتی ہے کہ ڈائنو سارز زمین سے بالکل ہی معدوم نہیں ہوئے تھے بلکہ وہ حیاتیاتی ارتقاء کی وجہ سے بتدریج آج کے دور کے پرندوں جیسے کہ مرغی، کبوتر، چڑیا، مینا، کوئے وغیرہ میں بدل گئے تھے۔ بڑے ڈائنو سارز سے صرف ڈائنوسار جیسی کھوپڑی اور پر رکھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ڈائنو سارز کی نسل کامیابی سے آج کے دور تک چلی آئی ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ ہم بڑے ڈائنو سارز کے حوالے سے تو بڑے شوق شوق سے معلومات پڑھتے اور فلمیں دیکھتے ہیں لیکن اپنے اردگرد موجود ان ہی ڈائنو سارز کی نسل پر ہماری ایک نگاہ بھی نہیں پڑتی۔ اسی لیے اب آئندہ کسی مرغی یا چڑیا کو پکڑتے یا اپنے صحن میں دانہ چگنے آئی چڑیوں کو اڑاتے ہوئے احتیاط سے کام لیجیے اور ان کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئیے کہ آپ ان کے آبا و اجداد کے ایک حملے کو بھی سہنے کی سکت نہیں رکھتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments