ٹوکیو اولمپکس: پاکستان کے ارشد ندیم اور انڈیا کے نیرج چوپڑا جیولن تھرو کے فائنل میں


کھیل کے میدان میں پاکستان اور انڈیا کا ٹاکرا عالمی سطح پر سب سے کڑے مقابلوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے یعنی ان میچز میں کھلاڑیوں کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ روایتی حریف سے سامنا ہونے کا دباؤ بھی اپنے عروج پر ہوتا ہے۔

کرکٹ میں تو سیاسی حالات کی وجہ سے انڈیا اور پاکستان کے دو طرفہ مقابلے بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں مگر عالمی مقابلوں میں دونوں ممالک کے شائقین کی دلچسپی بہت زیادہ ہوتی ہے۔

ٹوکیو میں جاری اولمپکس نے دونوں ممالک کی شائقین کو اپنے لہو کو گرمانے کا ایسا ہی ایک موقع فراہم کیا ہے کیونکہ سات اگست (ہفتے کے روز) انڈیا اور پاکستان کے ایتھلیٹس ایک ایسے کھیل کے فائنل راؤنڈ کے مقابلے میں آمنے سامنے ہوں گے جو ایشیا میں زیادہ مقبول نہیں یعنی جیولن تھرو۔

سات اگست کو ٹوکیو اولمپکس میں جیولن تھرو کے فائنل مقابلے میں پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم کا مقابلہ دنیا بھر کے ٹاپ ایتھلیٹس کے ساتھ ساتھ انڈیا کے 23 سالہ نیرج چوپڑا سے بھی ہو گا۔

یہ فائنل مقابلہ پاکستانی وقت کے مطابق شام چار بجے دیکھا جا سکے گا۔

ارشد اور نیرج اپنے اپنے ملکوں کے لیے جیولن تھرو میں میڈل جیتنے کی امید بنے ہوئے ہیں۔

ویسے تو اس فائنل کے لیے کُل 12 کھلاڑیوں نے کوالیفائی کیا ہے مگر 24 سالہ ارشد نے گروپ بی میں بہترین تھرو کی تھی جبکہ انڈین ایتھیلٹ نیرج 86 اعشاریہ 85 میٹر کی تھرو کے ساتھ گروپ اے میں سر فہرست رہے تھے۔

85.16 میٹر کی تھرو کے ساتھ ارشد ندیم گروپ کی سطح پر تیسرے نمبر پر رہے تھے مگر اس مقابلے میں دوسرے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی بھی ہیں جن کے انفرادی ریکارڈ ارشد اور نیرج سے کافی بہتر ہیں۔

’ٹوکیو اولمپکس میں انڈیا، پاکستان مقابلہ دیکھنے کو ملے گا‘

سوشل میڈیا پر بعض صارفین اولمپکس میں جیولن تھرو کے مقابلے کو ’انڈیا پاکستان ٹاکرے‘ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔

ایسے میں ایک تصویر کافی شیئر کی جا رہی ہے جس میں ارشد اور نیرج ایک دوسرے کے احترام میں جھکے ہوئے ہیں اور ہاتھ ملا رہے ہیں۔

یہ تصویر 2018 کی ایشیئن گیمز کی ہے جہاں نیرج نے جیولن تھرو میں سونے کا تمغہ جبکہ ارشد نے کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔

اگرچہ ایتھلیٹکس فیڈریشن آف انڈیا نے اس تصویر کو شیئر کرتے ہوئے یہ مثبت پیغام لکھا کہ ’آئیے جیولن تھرو میں انڈیا اور پاکستان کے قومی چیمپیئنز کی کامیابی کا جشن مناتے ہیں‘ مگر دونوں ممالک کے شائقین کھیل کا کیا کیجیے جو اس مقابلے کو زبردست ٹاکرے سے تشبیہ دیے بیٹھے ہیں۔

صارف عامر رضا نے لکھا ہے کہ ’ٹوکیو اولمپکس میں انڈیا پاکستان رائیولری ایک بار پھر دیکھنے کو ملے گی۔‘

جبکہ امیت رانا کے مطابق ’چلو اسی بہانے اولمپک میں انڈیا اور پاکستان کا مقابلہ تو دیکھنے کو ملے گا۔‘

جواد فرید کہتے ہیں کہ ’نیرج چوپڑا اور ارشد ندیم اس سے پہلے بھی انڈونیشیا میں ایشین گیمز میں مد مقابل ہو چکے ہیں جہاں نیرج نے گولڈ جیتا تھا اور ارشد نے کانسی کا تمغہ۔‘

ٹوکیو اولمپکس میں اب تک کی کارکردگی میں ارشد ندیم تیسرے جبکہ نیرج پہلے نمبر پر ہیں۔ دونوں ملکوں میں اپنے اپنے ایتھلیٹ کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ملک کے ایتھلیٹ کو بھی سراہا جا رہا ہے۔

نیرج چوپڑا: انڈین فوج کا صوبیدار گولڈ میڈل جیتنے کا خواہشمند

اولمپکس گولڈ میڈل کے لیے نیرج چوپڑا کو ایک مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا ہے۔

سنہ 1997 میں ایک کسان کے گھر پیدا ہونے والے نیرج کا تعلق ہریانہ کے ضلع پانی پت سے ہے۔ انجو بوبی جورج کے بعد وہ انڈیا کے دوسرے ایسے ایتھلیٹ ہیں جنھوں نے ورلڈ کلاس ایتھلیٹکس میں گولڈ میڈل جیتا۔

انھوں نے یہ کامیابی سنہ 2016 کے دوران پولینڈ میں انڈر 20 ورلڈ چیمپیئن شپ میں حاصل کی تھی۔

اس بڑی کامیابی کے بعد انھیں انڈین فوج میں صوبیدار کی نوکری مل گئی تھی۔

انڈین ذرائع ابلاغ کے مطابق گاؤں میں ان کے خاندان میں 19 لوگ ہیں اور علاقہ مکینوں کی بڑی تعداد صبح سویرے انھیں ٹی وی پر دیکھ رہی تھی۔

ان کی تھرو کے بعد ان کی رہائش گاہ اور اردگرد کے علاقوں میں مٹھائیاں بانٹی گئیں۔

اُن کے والد ستیش کمار ایک کسان ہیں۔ انڈین میڈیا کو ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ ’مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے۔ ہمیں یقین ہے وہ ملک کے لیے طلائی تمغہ حاصل کر سکتے ہیں۔‘

نیرج چوپڑا

نیرج 2016 میں ریو اولمپکس میں کوالیفائی نہیں کر پائے تھے۔ ان کی تھرو 82.37 میٹر تھی جبکہ کوالیفائی کرنے کے لیے انھیں 83 میٹر کی تھرو کرنا تھی۔

نیرج نے سنہ 2016 میں ساؤتھ ایشین گیمز میں 82.23 میٹر کی تھرو کے ساتھ سونے کا تمغہ جیتا تھا۔

سنہ 2017 میں انھوں نے 85.23 میٹر کی تھرو کے ساتھ ایشین ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ میں سونے کا میڈل جیتا تھا۔ رواں سال جون میں نیرج نے پرتگال کے شہر لزبن میں ہونے والے مقابلوں میں بھی سونے کا میڈل جیتا تھا۔

انڈیا میں رواں سال مارچ کے دوران انڈین گراں پری مقابلوں میں انھوں نے پٹیالہ میں 88.07 میٹر کی تھرو کی تھی۔ یہ ان کی بہترین پرفارمنس سمجھی جاتی ہے۔ خیال ہے کہ اگر وہ یہی کارکردگی دہراتے ہیں تو وہ انڈیا کے لیے میڈل جیت سکیں گے۔

ارشد ندیم: میاں چنوں کا کرکٹر جو ایتھلیٹ بن گیا؟

ارشد ندیم اولمپکس کی تاریخ میں پہلے پاکستانی ایتھلیٹ ہیں جنھوں نے کسی ’انویٹیشن کوٹے‘ یا وائلڈ کارڈ کے بجائے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اولمپکس کے لیے براہ راست کوالیفائی کیا ہے اور انھیں ٹوکیو اولمپکس میں پاکستان کے لیے تمغہ حاصل کرنے کی ’آخری امید‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کا کوئی ایتھلیٹ کسی ٹریک مقابلے کے حتمی مرحلے میں شریک ہو گا۔

ارشد نے کوالیفائنگ راؤنڈ میں جس فاصلے تک نیزہ پھینکا یہ ان کے کریئر کی بہترین کارکردگی نہیں تھی کیونکہ وہ سنہ 2019 میں نیپال کے شہر کٹھمنڈو میں 86.29 میٹر فاصلے تک نیزہ پھینک کر ساؤتھ ایشین گیمز کا نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔

اسی کارکردگی کی بنیاد پر وہ براہ راست ٹوکیو اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرنے میں بھی کامیاب ہوئے تھے۔

ان کا تعلق میاں چنوں کے قریب واقع گاؤں چک نمبر 101-15 ایل سے ہے۔

ان کے والد راج مستری ہیں لیکن اُنھوں نے اپنے بیٹے کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی ہے۔

ارشد ندیم

ان کے کوچ رشید احمد ساقی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’اس بچے کو شروع سے ہی کھیلوں کا شوق تھا۔ اس زمانے میں ان کی توجہ کرکٹ پر زیادہ ہوا کرتی تھی اور وہ کرکٹر بننے کے لیے بہت سنجیدہ بھی تھے لیکن ساتھ ہی وہ ایتھلیٹکس میں بھی دلچسپی سے حصہ لیا کرتے تھے۔ وہ اپنے سکول کے بہترین ایتھلیٹ تھے۔‘

رشید احمد ساقی کہتے ہیں ’مجھے یاد ہے کہ ایک دن ان کے والد میرے پاس آئے اور کہا کہ ارشد ندیم اب آپ کے حوالے ہے، یہ آپ کا بیٹا ہے۔ میں نے ان کی ٹریننگ کی ذمہ داری سنبھالی اور پنجاب کے مختلف ایتھلیٹکس مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے بھیجتا رہا۔ ارشد نے پنجاب یوتھ فیسٹیول اور دیگر صوبائی مقابلوں میں کامیابیاں حاصل کیں۔‘

وہ کہتے ہیں ’یوں تو ارشد ندیم شاٹ پٹ، ڈسکس تھرو اور دوسرے ایونٹس میں بھی حصہ لیتے تھے لیکن میں نے ان کے دراز قد کو دیکھ کر اُنھیں جیولن تھرو کے لیے تیار کیا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp