ملانیہ ٹرمپ کو کسی کی پروا نہیں، آخر کیوں؟


پاکستان کے کسی بھی ٹیلیوژن چینل کے سیاسی پروگرام کو دیکھیں تو پینلز کے ممبران میں، جن کو اگر عقل کل ہونے کا دعوی نہ بھی ہو غلط فہمی ضرور ہوتی ہے، بہت کم اتفاق رائے دیکھنے یا سننے میں آتا ہے۔ لیکن ایک فقرہ جس کے بغیر کوئی پروگرام مکمل نہیں ہوتا اور جسے ہر کوئی بار بار ایسے دہراتا ہے جیسے صرف انہیں اندر کی کوی خاص خبر معلوم ہے۔ وہ فقرہ ہے کہ ’دیکھیں جی، در اصل بات یہ ہے کہ‘۔

آج کل ایک ییچیدہ مسٔلہ امریکی میڈیا کو پیش أیا ہو ا ہے جس کا تعلق ملانیہ ٹرمپ کی جیکٹ اور اس پر چھپے ہوئے کھلم کھللا پوشیدہ پیغام سےہے۔ انہیں یہ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ در اصل بات کیا ہے۔

پچھلے چند دن سے امریکہ کے تجزیہ نگار اس شدت سے اپنے سروں کہ کھجانے میں مصروف ہیں کہ شبہ ہونے لگتا ہے کہیں امریکی صحافتی حلقوں میں خارش کی وبہ تو نہیں پھیل گئی۔ ان ممتاز تجزیہ نگاروں کے لئے شمالی کوریا کا ایٹم بم ہو یا روس کی امریکی انتخابات میں مداخلت، فولاد اور المونیم پر ٹیرف ہو یا پنجروں میں مقید لاطینی بچوں کی چیخیں۔ یا ان سے بھی کہیں پیچیدہ مسائیل، وہ ان تمام باتوں پرحتمی تبصرے کرنے میں کسی قسم کی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ ان کی مہارت اور علمیت کے سامنے مشکل سے مشکل مسٔلہ دو اور دو چار سے زیادہ پیچیدگی نہیں رکھتا۔

لیکن پچھلی جمعرات سے امریکہ کا تمام میڈیا صرف یہ جاننے کے لئے تڑپ رہا ہے کہ ملانیہ ٹرمپ، جس کے بدن پر چھوٹے سے چھوٹا کپڑا بھی ہزار ڈالر سے کم نہیں ہوتا اس انتالیس ڈالر کی جیکٹ میں کیا کر رہی تھی۔ خیر جیکٹ کی قیمت بھی ایک ضمنی معاملہ ہے، جیکٹ پر جو پیغام تھا اس نے سب تجزیہ نگاروں کی سٹی گم کی ہوئی ہے۔ ہر نیٹ ورک اور کیبل ٹیلیویژن چینل پر تھنک ٹینکس کے مفکرین ایک ہی گانے کے بول گا رہے ہیں

جیکٹ کے پیچھے کیا ہے؟ یہ پیغام ایک ایسا راز بن گیا ہے جس میں پوشیدہ معنی کی گتھیاں سلجھانے میں ساری امریکی قوم الجھی ہوئی ہے۔
جیکٹ کی پشت پر چھپا ہوا پیغام یہ تھا، ”مجھے واقعی پرواہ نہیں، تمھیں ہے؟ “

موقع محل کے اعتبار سے پیغام کی موزونی کے بارے میں ہر کوئی سوال کر رہا ہے۔ ملانیہ تو ان تارک وطن بچوں کو تسلی دینے جا رہی تھی۔ جو لوہے کے پنجروں میں بند، اپنے ماں با پ سے بچھڑے ہوئے اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ راستے میں کیا ہو گیا؟ ٹرمپ خاندان کی طرف سے رحم دلی کا یہ مظاہرہ فیشن کی بد ذوقی کا شکار ہوا یا فیشن کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا؟

اتنی بات تو طے تھی کہ یہ پیغام ان بچوں سے ہمدردی کے اظہار کے لیے نہیں تھا جن سے ملنے ملانیہ ٹیکساس جا رہی تھی۔ میڈیا پنڈتوں کی یہ مشکل ملانیہ کے میاں صاحب، ڈونالڈ ٹرمپ، نے حل کرنے کی کوشش کی اور ٹویٹ کیا کہ اصل میں ملانیہ کے پیغام کے مخاطب فیک نیوز میڈیا اور صحافی حضرات ہیں جو کبھی سچی خبر نہیں دیتے۔

خاتون اول کی ترجمان نے تو مسٔلہ ایک ہی فقرے میں حل کر دیا اور صاف صاف کہ دیا کہ اتنی پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟ اس میں پوشیدہ معنی ڈھونڈنا اور کہنا کہ یہ جیکٹ ’اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘ بلکل تضیع اوقات ہے،

یہ جیکٹ تو بس جیکٹ ہے۔ اس میں معنی ڈھونڈنا کیا؟

ہر طرح کی قیاس آریاں ہو رہی ہیں۔ کچھ دانشور کہتے ہیں ملانیہ نے سلیقہ شعاری شروع کر دی ہے۔ اب وہ صرف سیل پر بکنے والے کپڑے خریدا کرے گی اور جو پیسے بچیں گے وہ ڈونالڈ ٹرمپ کا صدقہ سمجھ کر لاطینی بچوں کے امدادی فنڈ میں دے دے گی۔

کچھ نے اس رائے کا اظہار کیا کہ ملانیہ نے موسم کی پیشین گوئی غلط پڑھ لی تھی اور ٹکساس کی بجائے اپنی سہیلی سارہ پیلن کے الاسکا کے موسم کا حال پڑھ لیا تھا۔ حالانکہ ٹیکساس میں درجہ حرارت اسی ڈگری تھا اس کے باوجود ایک سگھڑ گھر گھرستی کا خیال رکھنے والی خاتون کی طرح، چونکہ پیسے خرچ ہو چکے تھے اس لیے مزید ضایع کرنے سے بچنے کے لیے جیکٹ پہننی پڑی۔

کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال تھا چونکہ ڈونالڈ ٹرمپ معصوم بچوں کے ساتھ نرمی برتنے کا تاثر نہیں دینا چاہتے اس لیے ملانیہ نے لاطینی تارکین وطن بچوں سے ملنے سے پہلے اپنے میاں کو خوش کرنے کے لیے یہ جیکٹ پہنی تاکہ فاکس ٹیلیوژن کے انٹرویو میں کہ سکے کہ اس کا دل بھی اتنا ہی سخت ہے جتنا ڈونالڈ ٹرمپ کا۔ غرض جتنے صحافی اتنی باتیں۔ قارئین اور ناظرین سخت الجھن میں مبتلا ہیں۔ کس پر یقین کریں کس پر نہیں۔ لگتا ہے اندر کی بات کا کسی کو علم نہیں۔

لیکن دیکھیں جی، ہم آپ کو اندر کی بات بتاتے ہیں۔ در اصل بات یہ ہے کہ ملانیہ نے اس پیغام میں ڈونالڈ ٹرمپ کو مخاطب کیا ہے چونکہ اگر ڈونالڈ ٹرمپ کو کوئی پیغام پہنچانا ہو تو ڈاریکٹ گفتگو میں تکلیف دہ سچ بیانی سے زیادو موثر طریقہ یہ ہے کہ وہی یغام آپ کسی طرح ٹیلیوژن کی خبروں میں نشر کروا دیں۔
ملانیہ ایک کامیاب ماڈل رہ چکی ہے۔ اسے معلوم ہے فیشن سے خبر کیسے بنتی ہے اور پھر وہ کیسے نشر ہو کر ڈونالڈ ٹرمپ تک پہنچتی ہے۔

ڈونالڈ ٹرمپ کو ٹیلیوژن پر خبریں سننے کا نشہ ہے۔ اس کے ٹویٹ خبریں دیکھنے کے بعد پالیسی کی صورت میں پوسٹ ہوتے ہیں۔ نیو یارک میگیزین کے مطابق ٹرمپ کے شبینہ وظیفوں میں سونے سے پہلے فاکس نیوز کے اینکر شان ہیناٹی سے طویل گفتگو بھی شامل ہے۔

چنانچہ ملانیہ نے بھی ذاتی گفتگو کی ناخوشگوار تکلیف سے بچنے کے لئے صحیح پیغام والی جیکٹ خریدی۔ اس بات میں تو شبہ کی گنجائیش ہی نہیں تھی کہ ملانیہ کی ایک ایک حرکت اور اس کے وارڈ روب کی ایک ایک تفصیل خبروں میں اچھالی جایے گی۔ خاص طور پر اگر جیکٹ انتالیس ڈالر کی ہو۔

اور یہی ہوا، ملانیہ نے اپنا ذاتی پیغام ٹیلیوژن کی فیک نیوز کی وساطت سے پہنچایا اور اپنی نازک پیٹھ پر اتنی سستی پرولتاری جیکٹ پر اتنا بھاری پیغام لکھوا کر اور امریکی فیک میڈیا سے نشر کروا کر اپنے میاں کو پہنچایا کہ‘ ڈونالڈ میں تم سے تنگ آ جکی ہوں اور تمھارے بارے میں ’مجھے واقعی پرواہ نہیں۔ اور پھر پوری امریکی قوم سے ہی نہیں، دنیا بھر سے پوچھا، بتاؤ ’ تمھیں ہے؟ ‘
ملانیہ ابھی تک آپ کے جواب کا انتظار کر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).