مارکسزم، فیمنزم، اور مارکسسٹ فیمنزم: چند سیاسی اور نظریاتی نکات


آخر میں۔
کسی بھی زندہ مارکسی سیاست کو طبقاتی سوال اور صنفی سوال کو ایک جدلیاتی مجموعہ یعنی کے مماثلت۔ بمع۔ تفریق کے طور پر دیکھنا ہو گا۔ یعنی کے نہ ہی صنفی جبر کو مکمل طور پر طبقاتی سوال میں ضم کرا جا سکتا ہے، اور نہ ہی صنفی جبر کو طبقاتی استحصال اور وسیع تر پیداواری رشتوں سے الگ کر کے سمجھا جا سکتا ہے۔ جدھر صنفی سوال کو مکمل طور پر طبقاتی سوال میں ضم کر دیا جائے، ادھر ہم صنفی جبر کی خصوصیت کو سمجھنے سے قاصر ہوں گے اور میکانکی اور غیرجدلیاتی ”مارکسزم“ کی طرف بڑھیں گے۔ دوسری طرف اگر صنفی سوال کو مکمل طور پر طبقاتی سوال اور پیداواری نظام کے محرکات سے الگ دیکھا جائے تو نا صرف ہم صنف کے تاریخی ارتقا کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے، بلکہ سیاسی طور پر ہم ایسی لبرل فیمنزم کی طرف بڑھیں گے جو محض سرمایہ کے جبر کا ”ترقی پسندانہ“ چہرہ ہو گی۔

سیاست معیشت اور ثقافت کے آپس میں رشتے پر تبصرہ کرتے ہوئے (جس کو مارکسی تھیوری میں اکثر سٹرکچر۔ سوپر سٹرکچر کی بحث بھی کہا جاتا ہے) مایہ ناز مارکسی مورخ ای پی تھامپسن لکھتے ہیں کہ وہ تھیوری جو کسی بھی پیداواری نظام کو محض ”معاشی“ لحاظ سے سمجھنے کی کوشش کرے یہ سمجھے بغیر کے وہ کون سے روز مرہ کے اظہار، معیار و اقدار تھے جن کے ذریعے عام لوگ اس پیداواری نظام کو جیتے تھے، ایسی تھیوری کاغز پر تو اچھی لگ سکتی ہے، لیکن حتمی طور پر یہ معیشت ثقافت وغیرہ کے درمیان من مانی تفریق ”محض آپ کے تصورات میں ہی ایک دلیل ہے“ (تھامپسن، 1978: 18)ْ۔ اسی طرح وہ مارکسزم اور طبقاتی سیاست جو کے صنفی سوال کو ایک ”مماثلت۔ بمع۔ تفریق“ کے طور پر نہ اٹھائے، وہ محض ایک تصوراتی ”مارکسزم“ اور تصوراتی طبقاتی سیاست ہے۔ ایک جدلیاتی عمل و تصور کے لئے یہ ضروری ہے کے ہم معروض اور موضوع، مظہر اور جوہر کے درمیان رشتے کو ٹھوس جدلیاتی طور پر دیکھیں، کیوں کے اظہار اور مظہر وہ مخصوص شکل ہیں جن کے ذریعے ہم معروض اور سماجی ڈھانچے تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ جبر و استحصال کی موضوعی اشکال و تجربات ”غیر سائنسی“ ہونے کے برعکس وسیع تر سماجی حقیقت میں ہمارے داخلے کا رستہ ہیں، یعنی ان کو سمجھنا اور ان سے ابھرنے والے شعور پر سنجیدگی سے عملی غور و فکر کرنا ہی سماجی سائنس اور اس کی انقلابی تبدیلی کی طرف ہمارا پہلے قدم ہے۔ مماثلت اور تفریق کی یہ ہی کشیدگی اور ٹینشن ہماری سیاست کو وہ لچک اور تخلیقی روح بخش سکتی ہے جو اس سماج اور نظام کے بدلتے محرکات اور اظہارات میں سے دور رس انقلابی سٹریٹجی کا احاطہ کر سکے۔ مارکسزم کے بغیر فیمنزم وسیع تر استحصالی نظام کے ساتھ محض ایک سمجھوتہ ہے۔ لیکن فیمنزم کے بغیر مارکسزم بھی محض ایک خیالی مارکسزم ہی ہے۔

ایاز ملک حبیب یونیرسٹی کراچی میں وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر سیاسیات اور عمرانیات پڑھاتے ہیں۔

حوالہ جات:

Brohi, Nazish. (2000). Summary Report on Harassment of Women at the Workplace. For Working Women Support Center (WWSC), part of Lawyers for Human Rights and Legal Aid (LHRLA). Karachi, Pakistan.
Engels, Friedrich. (1884) [1962]. Origin of the Family, Private Property, and the State. [PDF version on www.marxists.org].
Federici, Silvia. (2004). Caliban and the Witch: Women, Capitalism and Primitive Accumulation. New York, NY: Autonomedia.
Hall, Stuart. (1986). “Gramsci’s relevance for the study of race and ethnicity”. In Stuart Hall: Critical Dialogues in Cultural Studies, edited by D. Morely and K. Chen, 411-441. London: Routledge, 1996.
Leibowitz, Michael. (2003). Beyond Capital: Marx’s Political Economy of the Working Class. Palgrave Macmillan UK.
Marx, Karl. (1845). Theses on Feuerbach. [PDF version on www.marxists.org].
Marx, Karl. (1973). Grundrisse: Foundations of the Critique of Political Economy. [Page number given from PDF version on www.marxists.org].
Mies, Maria. (1986). Patriarchy and Accumulation on a World Scale: Women in the International Division of Labour. London: Zed Books, 1994.
Thompson, Edward Palmer. (1978). Folklore, Anthropology and Social History. The Indian Historical Review, 3(2): 247-266. [Journal out of print; page number given from British Library copy]


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3