ہجرتی پرندوں کی تیسری نسل اور متروکہ چابیاں


مگر شرمندہ تو ہم سب برطانوی اس خُرافات سے ہوئے۔ خطیب فلسطین کی بربادی کے لیے ہمیں ذمہ دار ٹہراتا ہے اور چابیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ’’یہ تم نے کیا‘‘ وہ کہتا ہے، اور ہمارے اس طرح ملوث ہونے پر مسکراتا ہے اس لیے کہ ہم سب کو 101 سال پرانے بالفور اعلان کی تاریخ معلوم ہے جس نے فلسطین میں یہودی وطن کے لیے برطانیہ کی حمایت کا اعلان کیا تھا مگر وہاں کی آبادی کی عرب اکثریت کو ’’موجود غیر یہودی برادریاں‘‘ کا نام دیا تھا۔

مگر میں نے جب خطیب سے پوچھا کہ کیا وہ کبھی اپنے فلسطین واپس جائے گا – ایسی تکمیل جس کی امید بہت سے فلسطینیوں نے درحقیقت ترک کر دی ہے – تو وہ اصرار کرتا ہے کہ ضرور جائے گا اور اپنے یقین کو ایک طویل، پریشان کن اور سرد مہر کر دینے والی دلیل سے ثابت کرتا ہے: اسرائیل اس پورے علاقے میں ’’غیر‘‘ ہے جو باقی نہیں رہ سکتا، جسے بیرونی مدد کے ذریعے وہاں داخل کیا گیا۔

اس کے دلائل، میں اس سے کہتا ہوں کہ ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد کی طرح معلوم ہوتے ہیں اور پھر دو ریاستی حل کو الوداع کہنا پڑے گا اگر عرب لوگ اپنے آئندہ پڑوسیوں کے لیے ایسی سوچ رکھتے ہیں، مگر خطیب کہتا ہے – اور مجھے اندیشہ ہے کہ ٹھیک کہتا ہے – کہ ایسے حل کے لیے فلسطینیوں کی جو خواہش پہلے موجود تھی وہ اسرائیل کی جارحیت کی وجہ سے ختم ہوگئی ہے۔

تو پھر، میں پوچھتا ہوں، فلسطینیوں نے اتنے برسوں کے عرصے میں کیا غلط کیا؟ کیا انھوں نے کوئی غلطی نہیں کی؟ ’’غلطی کی‘‘ وہ مجھ سے کہتا ہے: ’’ان کی غلطی یہ تھی کہ چھوڑ گئے، فلسطین سے باہر چلے گئے۔ ان کو یہیں رہنا چاہیے تھا (1947ء اور 1967ء میں۔) ہمارے ماں باپ اور نانا دادا کو یہیں رہنا چاہیے تھا، چاہے وہ اپنی جان کے لیے خطرہ محسوس کررہے تھے۔ ان کو اپنی زمین پر رہناچاہیے تھا چاہے ان کو مار ڈالا جاتا۔ میری ماں نے ایک مرتبہ مجھ سے کہاتھا۔ ’’ہم کیوں چھوڑ کر آگئے؟ مجھے وہاں تم کو اپنے ساتھ رکھنا چاہیے تھا اور تمہارے ساتھ وہیں پر رہنا چاہیے تھا۔‘‘

وہ کتنے تلخ نتیجے پر پہنچے ہیں۔ بہت سے فلسطینی وہاں رہ گئے۔ مگر بہت سے وہاں رہ گئے اور مارے گئے – دیر یاسین کو یاد کیجیے – ایسے دورمیں جب دوسری جنگ عظیم کے بعد مغرب کی حساسیت بھی تصادم کی وجہ سے کُند پڑ گئی تھی اور یہ فکر نہیں تھی کہ چند ہزار اور پناہ گزین گھر سے بے گھر ہو جائیں۔ محمد کی بات میری سمجھ میں آتی ہے کہ ماں باپ لامحالہ دانش مندی کے فیصلے نہیں کرتے اور ان کی جگہ میں ہوتا – اپنے صدر دروازے کی چابی ہاتھ میں تھامے – تو شاید میں بھی وہاں نہ ٹہرتا۔ اور پھر میں تو یہ سمجھ رہا ہوتا کہ چند دنوں کی بات ہے۔۔۔۔

 میں اس کے والدین کے ’’فلسطین‘‘ کئی بار گیا ہوں اور چند ایک پرانی چابیاں ساتھ لے کر اسرائیل گیا ہوں – ظاہر ہے کہ بہت سے تالے بدل دیے گئے ہیں – اور میں نے بہت سے ایسے عربوں کے پرانے مکانوں پر دستک دی ہے جو باقی رہ گئے ہیں اوراسرائیلی یہودیوں سے بات چیت کی ہے جو اب ان مکانوں میں رہ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک نے مکان کے فلسطینی سابق مالک کے لیے دکھ کا اظہار کیا اور مجھ سے کہا کہ اس کے جذبات آگے پہنچا دیں اور میں نے ایسا ہی کیا۔

ایک اور شخص، ایک بوڑھا یہودی جو اصل میں جنوبی پولینڈ کا رہنے والا تھا، ناتسی قتل عام میں زندہ بچ جانے والا جسے اپنے گھر سے بے دخل ہونا پڑا، جس کی ماں کو آش وٹز میں ہلاک کر دیا گیا، اس نے میرے لیے اس مقام کا نقشہ بنایا جہاں وہ اور اس کے ماں باپ رہا کرتے تھے۔ میں پولینڈ بھی گیا اور اس کے پرانے گھر کو ڈھونڈ نکالا اور دروازے پر دستک دی اور ایک پولش خاتون نے دستک کا جواب دیا اور پوچھا – بالکل جس طرح اسرائیلی بھی پوچھ سکتے ہیں اگر انھیں خدشہ ہو کہ عرب باشندے واپس آکر اپنی ملکیت پر دوبارہ حق جتائیں گے: ’’کیا وہ واپس آرہے ہیں؟‘‘ پولینڈ کے قانون نے یہودی سابق شہریوں کو یہ حق دے دیا ہے کہ ناتسی جرمنوں کی چھینی ہوئی جائداد واپس حاصل کرلیں۔

میں محمد خطیب کی اس ضرورت کو تسلیم کرتا ہوں کہ دنیا کو دوبارہ یاد دلایا جائے کہ فلسطینیوں کے ساتھ دراصل کیا ہوا تھا۔ وہ مجھ سے پوچھتا ہے کہ میں ’’فلسطینیوں کا حمایتی‘‘ کیوں ہوں اور میں جواب دیتا ہوں کہ میں سچ کا حمایتی ہوں__ فلسطین کا حمایتی نہیں۔ میرا نہیں خیال کہ وہ اس فرق کو سمجھ پایا۔ وہ بتاتا ہے کہ اس کے والدین کے مکان میں تین کمرے تھے اور پاس ہی تالاب تھا۔ اس کے والد برطانوی مینڈیٹ پر مامور پولیس کے سپاہی تھے۔ اس کے باوجود میں اس احساس کے ساتھ رخصت ہوتا ہوں کہ تاریخ ماضی ہی میں نہیں مستقبل تک رسائی رکھتی ہے، یہ کہ واپسی اس لیے ممکن نہیں اور یہ چھوٹا سا عجائب خانہ اور یہ چابیاں اس کے لیے امید سے بڑھ کر پچھتاوے کی علامت ہیں۔

(ترجمہ: آصف فرّخی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2