آسیہ بی بی کی حفاظت، ریاست کی فراخدلی اور توہین مذہب کا قانون


ایسے وقت میں جبکہ حکومت آسیہ بی بی کو ملک سے باہر بھجوانے کے لئے متعدد ملکوں سے بات چیت میں مصروف ہے ، پیر نور الحق قادری یہ اعلان بھی کررہے ہیں کہ آسیہ بی بی کو سپریم کورٹ کی طرف سے نظرثانی کی درخواست پر فیصلہ آنے سے پہلے کسی صورت ملک سے باہر نہیں جانے دیا جائے گا۔ وزیر موصوف سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ان کی حکومت نے ابھی تک نہ تو تحریک لبیک کے ساتھ ’معاہدہ‘ کے مطابق آسیہ کا نام ای سی ایل میں ڈالا ہے اور نہ عدالت کی اجازت لینے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔ ملک کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہو گا کہ سپریم کورٹ سے بے گناہ قرار پانے والے کسی شہری کو مسلسل قصوروار سمجھا جارہا ہے اور حکومت کا وزیر یہ دعویٰ کررہا ہے کہ اسے کسی صورت ملک سے جانے نہیں دیاجائے گا۔ شدت پسندوں کو خوش کرنے کے لئے ایسی بھونڈی حرکتیں کرتے ہوئے حکومت کے وزیروں کو ماضی قریب کی تاریخ پر نگاہ ڈال لینی چاہئے کہ انتہا پسند عناصر ایک مطالبہ پورا ہونے کے بعد دوسرا بڑا اور سنگین تقاضہ لے کر سامنے آجاتے ہیں۔ کوئی حکومت پسپائی اختیار کرتے ہوئے شہریوں کے حقوق کی حفاظت نہیں کرسکتی بلکہ اس مقصد کے لئے اسے اصولوں پر اصرار کرنا پڑتا ہے اور قانون شکنوں کے سامنے دیوار بننا پڑتا ہے۔

وزیر مذہبی امور نے ملک میں عقیدہ کے نام پر شہریوں کی زندگیاں حرام کردینے والے عناصر کی تالیف قلب کے لئے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ حکومت توہین مذہب کے قوانین کا ہر فورم پر دفاع کرے گی اور ان میں کسی قسم کی ترمیم کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ گویا موجودہ حکومت ان تمام مظالم اور زیادتیوں کو قبول کرنے کا اعلان کررہی ہے جو توہین مذہب کے تدارک اور ناموس رسولﷺ کی حفاظت کے نام پر گزشتہ تین دہائیوں سے اس ملک میں روا رکھی گئی ہیں۔ ملک کا ہر باشعور شہری جانتا ہے کہ جب تک ملک کے موجودہ سخت گیر بلاسفیمی قوانین کو تبدیل نہیں کیا جائے گا اور خاص طور سے شق 295 سی میں ترمیم نہیں کی ہوگی جس میں سابق فوجی آمر جنرل ضیا الحق کی نام نہاد اسلام پسندی کی وجہ سے موت کی سزا کو شامل کیا گیا تھا، اس وقت تک مذہبی رواداری اور قوت برداشت کا ماحول پیدا ہونا ممکن نہیں ہے۔

اسی طرح جب تک حکومت اور عدلیہ یہ طے نہیں کریں گے کہ توہین مذہب سے متعلق قانون کا غلط استعمال کرنے والوں اور جھوٹے الزام میں لوگوں کو قید یا ہلاک کروانے والوں کے خلاف سخت ترین قانونی کارروائی کی جائے گی ، آسیہ جیسے لوگ اپنی بے گناہی کی سزا بھگتتے رہیں گے۔ آسیہ کے خلاف توہین رسالت کے الزام مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ گواہوں اور مدعی کو جھوٹا اور دروغ گو قرار دے چکی ہے لیکن یہ تاریخ ساز فیصلہ بھی ایسے مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا اشارہ دینے میں ناکام رہا ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ حکومت شرپسندوں کو معاف کردینے کا یک طرفہ اعلان کررہی ہے جبکہ ادارے اور عدالتیں اس کی آواز میں آواز ملا رہی ہیں۔ یہ رویہ فوج، عدلیہ یا حکومت کے عمومی مزاج اور کردار سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ادارے بدستور ’قومی مفاد کے خلاف سرگرم ‘ افراد کو لاپتہ کرنے میں مصروف ہیں، عدالتیں ذرا ذرا بات پر توہین عدالت کا نوٹس لینے پر آمادہ ہیں اور حکومت انصاف عام کرنے اور سب کو قانون کے سامنے جوابدہ بنانے کا اعلان کررہی ہے لیکن ایک وزیر ایسے عناصر کو معاف کرنے کا فیصلہ سنا رہے ہیں جو حکومت کے علاوہ ان لوگوں کے بھی مجرم ہیں جن کی املاک کو ان دھرنوں اور شر انگیز کارروائیوں میں نقصان پہنچایا گیا تھا۔

حکومت کو یہ جواب بھی دینا چاہئے کہ وہ ریاستی تنصیبات کو نقصان پہنچانے والوں کو کیسے معاف کرسکتی ہے۔ حکومت کو تو ان اثاثوں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اور جو بھی انہیں تلف کرتا ہے یا نقصان پہنچاتا ہے ، اس کی گرفت کرنا اور اس نقصان کی تلافی کروانا حکومت کے فرائض میں شامل ہے۔ عمران خان تو عوام کو ان کے وسائل کا محافظ بننے کے وعدے کرتے ہوئے اقتدار میں آئے ہیں۔ یہ کیسی امانت داری ہے کہ جن عناصر نے سب کے سامنے للکار کر ریاست کے اختیار ہی کو نہیں بلکہ اس کے اثاثوں کو بھی تباہ کیا ہے انہیں معاف کر کے فخر محسوس کیا جا رہا ہے اور اسے حکومت کی کامیاب حکمت عملی قرار دینے پر اصرار ہے۔

اسی تصویر کا یک پہلو یہ بھی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے ایک شہری کی طرف سے علامہ خادم رضوی اور مولانا فضل الرحمان کی فوج اور عدلیہ کے خلاف نفرت انگیز تقریروں کو ’غداری‘ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانے کی درخواست کو مسترد کردیا ہے۔ ہائی کورٹ کا مؤقف ہے کہ بغاوت کے الزام میں مقدمہ قائم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اس لئے کسی شہری کی طرف سے ایسی درخواست پر کارروائی نہیں ہو سکتی۔ لیکن اسی لاہور ہائی کورٹ کا ایک سہ رکنی بنچ ایک صحافی سیرل المیڈا، اور سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایک اخباری انٹرویو کے الزام میں آئین سے غداری کے مقدمہ کی سماعت کر رہا ہے۔ یہ درخواست بھی ایک شہری نے ہی دائر کی ہے۔

خوف کی کیفیت میں مبتلا نظام میں ایک آسیہ ہی نہیں حکومت کسی بھی شہری کے قانونی حقوق کی حفاظت نہیں کرسکتی۔ اس ملک میں قانون کے مطابق رائے ظاہر کرنے ، عقیدہ اختیار کرنے اور زندگی گزارنے کا حق مسلسل مسترد کیا جارہا ہے۔حکومت ان حقوق کو پامال کرنے والوں کو معاف کرکے ان سے مصالحت کا ارادہ رکھتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2770 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali