وہ بنیادی سوال جن کے جواب موجود نہیں


تحریک لبیک کے لیڈروں نے اس ماہ کے شروع میں ہونے والے احتجاج کے دوران فوج کو بغاوت پر اکسانے کے علاوہ آسیہ کیس میں فیصلہ کرنے والے ججوں کو قتل کرنے کا فتویٰ بھی جاری کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جو کل ہی دو اخباروں کے خلاف غلط رپورٹنگ کے الزام میں سو موٹو نوٹس لے کر سخت انتباہ دے چکے ہیں، ان فتویٰ سازوں اور دشنام طرازی کرنے والو ں کے بارے میں مسلسل خاموش ہیں۔ اس لئے جسٹس فائز عیسی کو ملک میں حکمرانی کے اصول کو طے کروانے کے لئے اٹارنی جنرل کی غیرحاضری پر برہم ہونے اور حکومت سے 2017 کے دھرنے کے بارے میں استفسار کرنے کی بجائے، پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے پوچھ لینا چاہیے کہ وہ اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔

اگر جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ 2008 کے دھرنا کے بارے میں عفو اور نظرانداز کرنے کے رویہ کا مظاہرہ درست سمجھتی ہے اور اس سے ’قانون کی حکمرانی کا اصول‘ بھی متاثر نہیں ہوتا تو جسٹس فائز عیسیٰ کو 2017 کے دھرنا کے بارے میں اٹارنی جنرل اور حکومت سے سوال کرنے پر کوئی معقول جواب موصول نہیں ہو سکتا۔

ملک میں قانون کی حکمرانی کا اصول متعین کرنے کے لئے اہم اداروں کے کردار کا تعین ضروری ہے۔ اس لئے یہ پوچھنے سے پہلے کہ ملک پر چند سو یا ہزار لوگوں کے ذریعے امن و مان کامسئلہ پیدا کرنے والوں کا اختیار چلے گا یا کروڑوں لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت فیصلے کرنے کی مجاز ہوگی۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنا مناسب ہوگا کہ ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کا مینڈیٹ کیا ہے۔ یہ ایجنسی متعینہ آئینی پوزیشن کے مطابق منتخب وزیراعظم کی ہدایا ت کی پابند ہے یا وہ بدستور عسکری قیادت کے مقرر کردہ سیاسی و انتظامی اہداف کے مطابق کام کرنا ضروری خیال کرتی ہے۔ جب تک آئی ایس آئی کی جوابدہی کا معاملہ طے نہیں ہو گا اس کے دائرہ کار کے بارے میں سوال کا جواب ملنا مشکل ہے۔ آئی ایس آئی کے مینڈیٹ کے حوالے سے سوال کا تعلق ان امور سے بھی ہے جن پر آج کی سماعت کے دوران بھی گفتگو کی گئی ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے پیمرا کے سربراہ سلیم بیگ سے استفسار کیا کہ گزشتہ سال دھرنے کے دوران مختلف ٹی وی چینلز کی نشریات بند ہونے کی بھی شکایات ملی ہیں اور کیا مجاز حکام نے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی ہے جس پر پیمرا کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ ان کو جرمانے کیے گئے ہیں۔ جس پر عدالت نے جرمانوں کی رسیدیں طلب کیں۔ عدالت نے پیمرا کے چیئرمین سے پوچھا کہ کیا میڈیا کو پیمرا کے علاوہ کوئی اور بھی ہدایات دیتا ہے جس کا پیمرا کے چییرمین نے نفی میں جواب دیا۔

تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پیمرا کے سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ ان کے نام بتانے سے کیوں ڈرتے ہیں۔ عدالت کو بتایا جائے کہ کیا کوئی خفیہ طاقت چینلز کو ہدایات دیتی ہے‘ ۔ اس سوال کا چیئرمین پیمرا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ جس پر جسٹس فائز عیسٰی نے کہا کہ ’آپ کو پتہ ہی نہیں کہ نجی ٹی وی چینلز کو خفیہ ہدایات آ رہی ہیں‘ ۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے ان سوالات کا سرا بھی اسی بنیادی سوال سے جڑتا ہے کہ ملک کے مختلف اداروں کے کیا حقوق و فرائض ہیں اور وہ کس کو جوابدہ ہیں۔ یہ طے کرتے ہوئے سول ملٹری تعلقات جیسے نازک، پیچیدہ اور انتہائی مشکل سوال کا جواب تلاش کرنا اور اختیارات کو درست اتھارٹی کو تفویض کرنا ضروری ہوگا۔ یہ معاملہ طے کیے بغیر نہ جسٹس فائز عیسیٰ کے سوالوں کا جواب مل سکے گا، نہ 2017 کے دھرنا کے مقاصد و ذمہ داران کا تعین ہو سکے گا اور نہ اس حوالے سے تحریک لبیک اور اس کی قیادت کے بارے میں اٹھائے گئے سوالوں کے جوابات فراہم ہوسکیں گے۔

کیوں کہ یہ ادارے پیمرا ہو یا الیکشن کمیشن اور آئی ایس آئی، دراصل اسی اتھارٹی کی طرف دیکھتے ہیں جس سے حکومت بھی اقتدار قائم رکھنے کے لئے دست تعاون کی خواستگار رہتی ہے۔ اختیار کے پیچیدہ کیے گئے اس کھیل کے اصول و ضوابط واضح اور عام کیے بغیر ملک میں حکمرانی اور فیصلوں کے حوالوں سے بنیادی سوالات کے جوابات نہیں مل سکتے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے آج وزیر اعظم عمران خان کے خصوصی معاون سید ذوالفقار بخاری کی تقرری کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ’وزیر اعظم کو لامحدود اختیارات حاصل نہیں ہیں‘ ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اگر یہ واضح کرسکیں کہ اس ملک میں لامحدود اختیارات کا مالک کون ہے اور احتساب سے استثنیٰ کس اتھارٹی، عہدیدار یا ادارے کو حاصل ہے تو ملک میں قانون کی بالادستی کا معاملہ بھی طے ہو سکتا ہے اور جسٹس فائز عیسیٰ کے سوالوں کا جواب بھی مل جائے گا۔ بصورت دیگر اٹارنی جنرل اور حکومت جیسی ’پتھر کی دیواروں‘ سے سوال کرنے پر تو جواب ملنے سے رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali