قومی اتفاق رائے اور دستور زبان بندی 


اس حکمت عملی کی مزید تفصیل قومی اسمبلی کے رکن اور سابق وزیر سعد رفیق نے یوں بیان کی ہے کہ ملک میں گو سول مارشل لا نافذ ہے لیکن اپوزیشن اس موقع پر کوئی احتجاجی سیاست کرنے سے گریز کی حکمت عملی پر گامزن ہے تاکہ موجودہ نظام چلتا رہے۔ نواز شریف کی طرح سعد رفیق بھی یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ وہ کون سے نظام کی بات کررہے ہیں۔ اس نظام کی جہاں بات کرنے کی آزادی مفقود کردی گئی ہے یا جہاں نیب پر سیاسی فیصلے کرنے اور عدالتوں پر آزادیاں اور حقوق سلب ہوتے دیکھ کر بھی خاموش رہنے کا الزام عائد ہو رہا ہے۔ ایک طرف ملک میں سول مارشل لا کی بات کی جاتی ہے اور دوسری طرف اسی سول مارشل لا کو جمہوری نظام قرار دے کر اس کی حفاظت کا قصہ سنایا جاتا ہے۔ یہ بوالعجبی سمجھنے اور سمجھانے سے ماورا ہے۔

شریف خاندان ہو یا آصف زرداری اور ان کے رفقا۔ انہیں کرپشن کے الزامات کا جواب دینے پر لگا دیا گیا ہے۔ یا وہ اس بات کی فکر میں غلطاں ہیں کہ انہیں قید کر کے جیل میں نہ ڈال دیا جائے۔ اس لئے جہاں تک ہو سکے بچ کر چلنا ہی مناسب ہے۔ لیکن بے بسی کے اس عالم میں یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت خود اپنی غلطیوں کے بوجھ تلے دب کر ناکام ہوجائے گی۔ گویا ملک کی سب نمایاں سیاسی طاقتوں کا انحصار اپنی حکمت عملی، فکری شعور، عوامی حمایت یا جمہوری اقدار پر نہیں ہے بلکہ وہ لمحہ بہ لمحہ بدلتے حالات میں اس مرحلے کا انتظار کررہے ہیں جب نظام کے پاسبان موجودہ محافظوں کی صلاحیت سے دل برداشتہ ہو کر ایک بار پھر پرانے کرداروں کی طرف رجوع کریں گے۔

اس صورت حال میں ایک دلچسپ پہلو سوشل میڈیا کے کردار کا بھی ہے۔ سرکاری طور سے منظور شدہ بیانیہ عام کرنے والے گروہ یا افراد پوری دل جمعی سے جھوٹ سچ کو عام کرنے میں آزاد ہیں لیکن اختلافی بات کرنے والوں کو سائبر کرائم لا زکی زد میں آتے دیر نہیں لگتی۔ ملک میں لاپتہ کیے جانے کا کلچر بدستور قومی مفاد کے تحفظ کا محفوظ ترین اور مؤثر ترین ہتھیار ہے۔ سوشل میڈیا کو مکمل آزادی سے اپنی دیانتدارانہ رائے سامنے لانے کا فورم سمجھنے کی غلطی کرنے والوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسے نادان اٹھا لئے جائیں تو لواحقین ان کے چند ماہ یا سالوں بعد بازیابی کو بھی غنیمت جانتے ہیں۔ کہ جان بچی سو لاکھوں پائے۔ شاید یہی نظام بچانے کے لئے سعد رفیق جیسے لیڈر ’خاموشی‘ کو طاقت قرار دے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

ایک طرف مکمل قومی یک جہتی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں تو دوسری طرف مکمل سنّاٹا دل ہولانے کا سبب بنا ہؤا ہے۔ اس سنّاٹے کی تکمیل کے لئے ان چند آوازوں کو پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا سے فارغ کیا جا رہا ہے جو اس کی طرف انگلی اٹھانے کا حوصلہ کرتی ہیں۔ اخبارات میں روزانہ کی بنیاد پر مستقل لکھنے والوں کے کالموں کو ’ناپسندیدہ‘ قرار دیتے ہوئے ناقابل اشاعت سمجھا جاتا ہے۔ بعض ڈھیٹ اور بلند آہنگ لوگوں کو بتا دیا گیا ہے کہ اب اخبار یا ٹی وی کا بجٹ ان کے مصارف برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

ملک میں کوئی سنسر شپ نہیں ہے۔ وزیر اطلاعات آکسفورڈ تک جاکر مکمل آزادی صحافت و آزادی کا ڈھنڈورا پیٹ آئے۔ ملک کے صحافیوں کے پاس اس بیان کی تصدیق کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ عدالت لگی ہے۔ جرم تو وہ ہے جو ثابت ہوجائے۔ باقی سب الزام ہیں جو عائد ہوتے رہتے ہیں۔ میڈیا کے کچھ لوگ کلین حکومت اور دیانتدار وزیر اعظم کے بغض میں ایسا شور مچاتے ہیں تو نقار خانے میں ان کی آواز کون سنے گا۔ اس نقار خانے کا آرکسٹرا ان دھنوں پر استوار ہے جس سے طربیہ موسیقی ہی سماعت کو گل و گلزار کرتی ہے۔

ایسی آئیڈیل صورت حال میں امید تو یہی ہے کہ حکومت سالوں کا کام مہینوں میں کرتے ہوئے ملک کو ایک ایسی ریاست بنا دے گی جس کا ذکر قصوں کہانیوں میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ اگر اس کی بجائے وزارتوں کی چھینا جھپٹی اور حکومتوں کی شکست ریخت کی سرگوشیاں ہونے لگیں تو اسے نا اہلی تو نہیں کہا جاسکتا۔ ہم آہنگی کے فراہم کردہ ماحول اور اس مقصد کے لئے پیداکیے گئے سنّاٹے میں یہ سرگوشیاں بھی کہیں دشمن کی سازش ہی نہ ہوں۔

اتفاق و ہم آہنگی کے منظر نامہ کو تخلیق کرنے والوں کو ایک لمحہ ٹھہر کر سوچ ضرور لینا چاہیے کہ قومی احیا کے جس عظیم منصوبہ کی تکیل کے لئے خوف و ہراس کی یہ فضا پیدا کی گئی ہے، کیا وہ تازہ ہوا کے بغیر پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے۔ کہیں قومی اتفاق رائے کا یہ انوکھا سفر ایک نئے افتراق و انتشار کا نقطہ آغاز ثابت نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali