کیا عمران خان جانتے ہیں کہ وہ منتخب لیڈر ہیں؟


یا یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ملک کے عمومی مالی حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ کوئی بھی حکومت قرض لئے بغیر کام نہیں چلا سکتی لیکن سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے معاشی ترجیحات درست کرنے کا حوصلہ بھی نہیں کرتی۔ اس کی واضح مثال نواز شریف کے سابقہ دور میں انرجی سیکٹر کا پانچ سو ارب روپے گردشی قرضہ واپس کرنے کا اعلان تھا۔ حالانکہ حکومت کے پاس اس مقصد کے لئے مالی بنیاد موجود نہیں تھی۔ اس لئے جب اس پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو یہ قرضہ ایک ہزار ارب روپے کی حد بھی عبور کرچکا تھا۔

اب عمران حکومت بھی ایسے ہی مقبول فیصلے کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس نے نعرے بازی کی سیاست اور ٹھوس حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے فیصلے کیے ہیں جن کا براہ راست بوجھ عام آدمی پر پڑ رہا ہے اور منڈی میں بے یقینی پیدا ہوئی ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ پاکستان کو اس وقت جس مالی بحران کا سامنا ہے وہ ماضی کی غلطیوں سے زیادہ گزشتہ آٹھ ماہ کی بے اعتدالی اور بدانتظامی ہے۔ لیکن اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی جا رہی۔

کابینہ میں تبدیلیوں کے فیصلہ پر اٹھنے والے سوالوں کا جواب دینے کی بجائے سوال کرنے والوں کو کرپشن کے حامی اور ملک دشمن قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ عمران خان کو یہ بتانا چاہیے کہ ان کی پارٹی میں دھڑے بندی پر ان کا کتنا کنٹرول ہے یا یہ کہ انہیں بحران پر قابو پانے کے لئے ایسے غیر منتخب لوگوں پر کیوں بھروسہ کرنا پڑا جن کی تحریک انصاف کے ساتھ کوئی جذباتی یا اصولی وابستگی نہیں ہے۔ یہ لوگ عام طور سے اسٹبلشمنٹ کے قریب رہے ہیں۔

جب عمران خان ایسے عناصر پر بھروسہ کریں گے تو یہ افواہیں بھی عام ہوں گی کہ حکومت پر عمران خان کا نہیں اس مقتدرہ کا کنٹرول ہے جو اس حکومت کو پہلے بالواسطہ طور سے چلارہی تھی لیکن آٹھ ماہ کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اب اس نے اپنے ہرکاروں کے ذریعے معاملات کو براہ راست سنبھال لیا ہے۔ اور عمران خان بے اختیار وزیر اعظم بن چکے ہیں۔

ان سوالوں پر ناراض ہونے یا اپنے فیصلوں کی ماضی کے حکمرانوں کے اقدامات سے دلیل لانے کی بجائے یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ قیاس آرائیاں غلط ہیں۔ اس مقصد کے لئے قبائلی علاقے کا جلسہ نہیں پارلیمنٹ کا فلور سب سے مناسب پلیٹ فارم ہے۔ البتہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے آئینی انتظام اور طریقہ کار کے بارے میں جو طرز عمل اختیار کیا ہے اس سے یہ یقین پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ حکمران ٹولہ آئین کی موجودہ شکل کو قبول نہیں کرتا۔ اور نہ ہی پارلیمنٹ کا احترام مقصود ہے۔ بلکہ اسے اقتدار سے چمٹے رہنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

تحریک انصاف شریف اور زرادری خاندان پر الزامات کی توپیں کھولتے ہوئے ماضی قریب میں آئین شکنی کے مرتکب اور سیاسی و مالی بدعنوانی کا سبب بننے والے پرویز مشرف کے بارے میں پراسرار انداز میں خاموش ہے۔ اصغر خان کیس کو انجام تک پہنچانے اور اس میں ملوث فوجی افسروں کو سزا دلوانے میں بھی فوج کی عزت اور طریقہ کو ڈھال بنا لیا جاتا ہے۔ اور اب حال ہی میں فیض آباد کیس کے خلاف اپیل دائر کرتے ہوئے جس طرح جسٹس قاضی فائز عیسی کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس سے بھی حکمران پارٹی کے جمہوری روایت پر یقین کے بارے سنگین شبہات پیدا ہوئے ہیں۔

ان کمزوریوں کی نشان دہی کرنے والے اس ملک کی منتخب حکومت کو با اختیار دیکھنا چاہتے ہیں۔ ملک کے آئین کی سربلندی کی بات کرتے ہوئے غیر منتخب اداروں کی حکومت پر بالادستی کے خلاف آواز اٹھانے والے تحریک انصاف کے حق حکمرانی کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ عناصر چاہتے ہیں کہ آئینی و جمہوری طور سے منتخب حکومت کو کوئی ادارہ کنٹرول کرنے کا حوصلہ نہ کرے۔ نواز شریف کے خلاف ڈان لیکس یا پاناما کیس کے پنڈورا بکس کی مخالفت میں بھی یہی اصول کارفرما تھا۔ اب بھی جب منتخب حکومت کا بازو مروڑا جارہا ہے تو وہی عناصر متنبہ کررہے ہیں۔

نواز شریف نے بھی اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ووٹ کو عزت دینے اور اداروں کی مداخلت کے خلاف بات کی تھی۔ کیا عمران خان بھی اس وقت کا انتظار کریں گے۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ ملک اب بار بار ایک ہی قسم کے تجربات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اگر عمران خان یہ بات سمجھ لیں تو ان کی حکومت مضبوط بھی ہو سکتی ہے اور وہ واقعی ایک بڑے لیڈر کے طور پر تاریخ میں اپنا نام بھی رقم کروا سکتے ہیں۔ اگر وہ اور ان کے حامی حکومت کی کمزوریوں پر نکتہ چینی کرنے والوں کو اپنا دشمن سمجھتے رہیں گے تو وہ اس بصیرت سے محروم رہیں گے جو ملک کو جمہوریت کے راستے پر گامزن کرنے کے لئے درکار ہے۔

ایک بات البتہ واضح ہے کل جو لوگ نواز شریف کے خلاف ریاستی سازشوں پر سینہ کوبی کرتے تھے، عمران خان کی حکومت کو کمزور کرنے کے خلاف بھی وہی بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ نواز شریف تین دہائیاں اقتدار میں رہ کر ان قوتوں کی ہلاکت خیزی کا اندازہ کرچکے تھے۔ عمران خان اس کوچہ کے نووارد ہیں، اس لئے جمہوریت کی باتوں میں انہیں اپنی نجات نہیں، بدعنوانی کی فتح دکھائی دیتی ہے۔

یہی تحریک انصاف اور عمران خان کا المیہ ہے۔ اور اگر وہ نوشتہ دیوار پڑھ کراصلاح احوال نہیں کریں گے تو اپنے علاوہ ملک و قوم کو بھی نقصان پہنچانے کا باعث ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali