جج، عدالت اور حکومت: غلام دوڑتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر


یہ خواہش اس قدر شدید ہے کہ ملک کے وزیر قانون، جج ارشد ملک کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کی واضح ہدایت اور ان کی کمزور و ناقص وضاحتوں کے باوجود، ارشد ملک کے بیان حلفی کو بنیاد بنا کر نواز شریف کے خاندان کو متعدد جرائم کا مرتکب قرار دینے کی کوشش کر چکے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ جج ارشد ملک کا فیصلہ درست اور میرٹ کے مطابق تھا لیکن مریم نواز اب اس ’ایماندار اور اصول پرست جج‘ کو بدنام کرنے کے لئے گھناؤنا کھیل کھیل رہی ہیں۔

وزیر قانون نے اپنی حکومت کا سیاسی ایجنڈا سامنے لانے کے لئے نہ صرف خفیہ عدالتی دستاویزات میں شامل جج ارشد ملک کے بیان حلفی کے حوالے دیے بلکہ ایک نامور قانون دان کے طور پر وہ یہ تسلیم کرنا بھی بھول گئے کہ ایک تنازع میں یہ ایک فریق کا مؤقف ہے۔ اور یہ کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس فوری طور پر ارشد ملک پر عدم اعتماد کا اظہار کرچکے ہیں۔

آج عمران خان نے عدلیہ کو ترغیب و تحریص دینے والوں کو مافیا قرار دے کر اس بحث میں اپنا وزن معزول جج ارشد ملک کے پلڑے میں ڈالنے کی افسوسناک کوشش کی ہے۔ بجا طور سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ایک زیر غور معاملہ پر وزیر اعظم کا یہ تبصرہ کیا عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہونے کا سبب نہیں بنے گا؟ اور کیا مریم نواز خاص طور سے اور اپوزیشن لیڈر عام طور سے احتساب کو دباؤ کا ذریعہ اور سیاسی ہتھکنڈا قرار دیتے ہوئے حکومت کے اسی طرز عمل کی طرف اشارہ نہیں کرتے؟

اس پس منظر میں اعلیٰ عدالتوں پر خاص طور سے بوجھ میں اضافہ ہؤا ہے۔ اب یہ بات کھل کرسامنے آ رہی ہے کہ احتساب کی آڑ میں صرف جرائم کی نشاندہی کا کام نہیں ہو رہا بلکہ احتساب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ قومی احتساب بیورو کے چئیرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال گزشتہ دنوں ایک کالم نگار کو دیے گئے انٹرویو کے بعد ایک پریس کانفرنس میں اس کا علی الاعلان اظہار کرچکے ہیں۔ جسٹس جاوید اقبال جو ماضی میں سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس بھی رہ چکے ہیں، یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ نیب حکومت میں شامل عناصر کے خلاف کارروائی کرے تو حکومت فوری طور پر ختم ہوسکتی ہے لیکن وہ ملک کے سیاسی استحکام کی خاطر ایسا قدم اٹھانے سے گریز کررہے ہیں۔

 ذاتی تعلی کے ایک خاص لمحہ میں کئے گئے اس دعویٰ پر نہ تو حکومت وقت نے نوٹس لیا اور نہ ہی ملک کی اعلیٰ عدلیہ جو متعدد مقدمات میں تبصرے کرتے ہوئے نیب کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتی رہی ہے، نے کوئی کارروائی کرنا ضروری سمجھا۔ حالانکہ سپریم جوڈیشل کونسل کو ازخود چئیر مین نیب کے ’سیاسی انجینئرنگ‘ کے اس اعتراف کے بعد ان سے جواب طلب کرنا چاہئے تھا۔ تاکہ ملک میں احتساب کے عمل اور نیب پر اٹھنے والے سوالوں اور چہ میگوئیوں کا تدارک ہوسکتا۔

اس کے برعکس حکومت کی درخواست پر صدر مملکت نے فوری طور پر سپریم کورٹ کے متنازع اور کسی نامعلوم سبب کی بنیاد پر ناقابل قبول فیصلے دینے والے خود مختار ججوں کے خلاف ریفرنس تو دائر کر دیا اور سپریم جوڈیشل کونسل وکیلوں اور مبصرین کی دو ٹوک رائے کے باوجود دو ججوں کے خلاف کارروائی کو آگے بڑھا رہی ہے لیکن صدر مملکت یا سپریم جوڈیشل کونسل نے چئیرمین نیب کی طرف سے احتساب کو مذاق بنانے کے طرز عمل کا نوٹس لینا ضروری نہیں سمجھا۔

اب سپریم کورٹ جج ارشد ملک کے معاملہ پر غور کرنے والی ہے۔ اس کے پیش نظر یہ بات رہنی چاہئے کہ یہ صرف ایک شخص یا نچلی سطح کے ایک جج پر دباؤ یا اس کے ایک غلط فیصلہ کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ سوال ملک کے عدالتی نظام کی غیر جانبداری کے بارے میں اٹھایا گیا ہے۔ دباؤ میں فیصلے کرنے کی عدالتی تاریخ افسوسناک ہے۔ ملک کے متعدد ادارے اور طاقتور لوگ بھی عدالتوں کو دباؤ میں لانے کے لئے مختلف النوع ہتھکنڈے اختیار کرتے رہے ہیں۔ اب سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ واقعی عدالت عظمی کو ماضی کے اس بوجھ اور خود پر لگنے والے الزامات سے آزاد کروانا چاہتی ہے یا اب بھی ’نظام کی حفاظت یا قومی مفاد کی مجبوری‘ میں انصاف اور قانون کے تقاضوں کو نظر انداز کرنے کی روایت کو زندہ رکھا جائے گا۔

اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ ملک میں انصاف کی بالادستی اور سب کے ساتھ مساوی سلوک کے اصول کا تعین ہی نہیں کرے گا بلکہ ملک کے آئینی جمہوری نظام پر اعتبار بحال کرنے کا موجب بھی بنے گا۔ اب بھی اگر سپریم کورٹ کے فیصلہ پر ’نظریہ ضرورت‘ کی مجبوریاں حاوی رہیں تو اداروں کی خود مختاری اور انصاف کی سربلندی کے نعرے بے مقصد ہو جائیں گے۔ اور ملک میں پیدا ہونے والی بے چینی اور انتشار کی ذمہ داری صرف سیاسی عناصر اور لیڈروں پر عائد نہیں ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2764 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali