سیاسی شو ڈاؤن: قوم کو کس اندھیرے کنوئیں میں دھکیلا جا رہا ہے؟


این آر او نہ دینے کے دعویدار وزیر اعظم کی حکمت عملی کا یہ عالم ہے کہ سینیٹ میں ان کے نمائندے اور قائد ایوان شبلی فراز انہیں مولانا فضل الرحمان کے پاس چئیر مین سینیٹ صادق سنجرانی کو عدم اعتماد سے بچانے کی استدعا لے کر پہنچے جنہیں عمران خان ’ڈیزل چور‘ کا طعنہ دیتے ہیں۔  کہا گیا کہ سوال صادق سنجرانی کا نہیں بلکہ سینیٹ کی عزت کا ہے۔  کیا پوچھا جاسکتا ہے کہ قومی اسمبلی کی دھول اڑانے والی حکومت کو کیا سینیٹ کی عزت کا خیال صرف اس لئے آرہا ہے کیوں کہ وہاں اسے اکثریت حاصل نہیں ہے اور صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد دراصل موجودہ حکومتی نظام کی بنیاد سے ایک اینٹ سرکانے کے مترادف ہوگا۔ اسی لئے مولانا فضل الرحمان کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ وہ ’عمران خان یا حکومت کو کوئی این آر او نہیں دیں گے‘ ۔  سوچنا چاہیے کہ این آار او ڈاکٹرائن کو واشنگٹن کے کیپیٹل ون ایرینا میں قومی سے عالمی پلیٹ فارم پر لے جانے والے عمران خان کو بد ترین سیاسی دشمن مولانا فضل الرحمان سے صادق سنجرانی کے سوال پر ’این آار او‘ مانگنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

تحریک انصاف کی حکومت شاید پاکستان کی پہلی منتخب حکومت ہے جو بجٹ منظور کروانے کے لئے اپوزیشن کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی بجائے ایک سیمینار میں آرمی چیف کی تقریر پر تکیہ کرنا بہتر سمجھتی ہے۔  اس کے نزدیک فوج کی حمایت سیاسی بحران سے نکلنے کا بہترین راستہ ہے۔  کیوں کہ اسی وجہ سے عرب ممالک سے لے کر چین تک سے مالی بحران میں غیر معمولی اعانت حاصل کرنے میں کامیابی ملتی ہے اور اسی تھپکی کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ جیسا بددماغ اور منہ پھٹ صدر عمران خان کی دلکش شخصیت کا اسیر اور قائدانہ صلاحیتوں کا معترف ہوجاتا ہے۔

اپوزیشن نے گزشتہ برس کے انتخابات کو دھاندلی زدہ کہہ کر مسترد کرنے کے باوجود نہ اسمبلیوں کو ناکام بنانے کی کوشش کی اور نہ ہی حکومت کے ساتھ تصادم کی طرف قدم آگے بڑھایا لیکن نو دس ماہ تک تعاون اور سیاسی مفاہمت کی خواہش کو جب چوری چھپانے کی کوشش اور این آار او کی بھیک مانگنے کا طریقہ قرار دیا گیا، تب ہی اپوزیشن کی رہبر کمیٹی قائم ہوئی، صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد لائی گئی اور 25 جولائی کو یوم سیاہ قرار دیا گیا۔

تصادم کا یہ راستہ عمران خان نے خود چنا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ سابقہ حکمرانوں کی شہرت، حیثیت اور مقبولیت ختم کیے  بغیر نئے پاکستان کی بنیاد نہیں رکھ سکتے۔  یہ نیا پاکستان عام لوگوں کی خوشحالی، ضروریات یا ان کی آزادی سے عبارت نہیں ہے بلکہ یہ فرد واحد کی مطلق العنانیت کا اعلان نامہ ہے۔  عمران خان نے اپنے طرز عمل سے واضح کیا ہے کہ وہ اختیارات کی تقسیم اور سیاسی مفاہمت پر یقین نہیں رکھتے۔  وہ ہر معاملہ میں عقل کل ہیں اور تمام مسائل کا حل ان کی زنبیل میں موجود ہے۔  تاہم یہ حل اس وقت تک کارگر نہیں ہو سکتے جب تک وہ سیاسی دشمنوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچا دیں۔

اسی تگ و دو میں احتساب کا ترانہ انتقام کا عنوان بن چکا ہے لیکن عمران خان کو کوئی پریشانی لاحق نہیں ہے۔  انہیں منتخب سے نامزد کے نام سے پکارا جانے لگا لیکن وہ ایک پیج کی قوت کو کارگر اور ان گیڈر بھبکیوں کو چوری چھپانے کا ہتھکنڈا سمجھتے رہے ہیں۔  ان کے خیال میں وہ خود سعد اور ریاست مدینہ کے اصل وارث ہیں لیکن باقی سب گمراہ اور عوام دشمن ہیں۔  ایک پیج کو مضبوط کرنے کے لئے ہی وہ باقاعدگی سے عسکری قیادت سے ملتے ہیں اور ہمہ وقت انہیں اپنی مصاحبت میں رکھ کر خود کو ’محفوظ‘ محسوس کرتے ہیں۔  اسی لئے اب فوج کے علاوہ عمران خان نے اپنے ایک پیج پر امریکہ کو بھی شامل کرلیا ہے۔

تحریک انصاف اگر برسر اقتدار آنے کے بعد معیشت کا پہیہ جام کرنے کا سبب نہ بنتی۔ ملک میں تجارت و صنعت بے یقینی کا شکار نہ ہوتی اور اس کے پاس مشکل مالی حالات سے نکلنے کا کوئی مبسوط منصوبہ ہوتا تو شاید اپوزیشن کو بھی حکومت مخالف تحریک چلانے اور اداروں سے ’غیر جانبدار‘ رہنے کا مطالبہ کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ اب معاملات ایک ایسی بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں جہاں سیاسی قوتوں کے درمیان حتمی شو ڈاؤن کا امکان بڑھتا جارہا ہے۔

ایسے میں گزشتہ دو اڑھائی برس کے دوران رونما ہونے والے واقعات کا سبب بننے والے ان سب اداروں اور کرداروں کو یہ سوچنے اور اس کا جواب دینے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ نوشتہ دیوار پڑھ لیا گیا تھا یا ایک بار پھر اندازوں کی غلطی اور خوش گمانیوں کی وجہ سے قوم کو اندھیرے کنویں کی طرف دھکیلا جارہا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali