اقبالؒ اور نہرو کی تاریخی ملاقات


 علامہ اقبال کو کشمیر ی النسل ہونے پہ ناز تھا۔ فہم و فراست میں کشمیری برہمن سارے ہندوستان میں معروف تھے۔ نہرو خاندان کے علاوہ، یہ برہمن زادے تھے پنڈت کیلاش ناتھ کاٹجو، تیج بہادر سپرو جو کہ علامہ اقبالؒ کے ہم گوتر تھے اور اِس قدر حمایتی کہ جب علامہ اقبالؒ پہ صرف مسلمانوں کے بارے میں سوچنے کی تنقید ہوئی تو سپرو، جو کہ وائسرائے ہند کی کونسل کے ممبر تھے، نے کہا تھا کہ ’ ٹھیک کرتے ہیں، اِن بیچاروں کے بارے میں سو چتا ہی کون ہے؟‘ تیج بہادر کانگریس کے اعتدال پسند رہبر تھے۔ اِن کے علاوہ، ہند کی بیداری میں علامہ اقبالؒ کے علاوہ ، کچھ اور کشمیری پنڈت شعراء کا نام ہے، جن میں پنڈت برج ناراین چکبست اور رتن ناتھ سرشار قابل ذکر ہیں۔ چکبست کا یہ شعردل کو لبھاتا ہے

 ذرّہ ذرّہ ہے میرے کشمیر کا مہمان نواز

 راہ کے پتھروں نے دیا ہے پانی مجھے!

 ایک بار پھر ہم متن موضوع پہ آتے ہیں جہاں نہرو علامہ اقبال کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی کا ذکر کرتے ہیں اُدھر اُن کے مد نظراُن کا یہ تجزیہ ہے کہ حیات مستعار کے آخری دور میں روس نے سوشلزم کے راہ میں گامزن ہونے کے بعد جو ترقی کی تھی اور بقول نہرو جو ارتقائی فکری عالمی سطح پہ وجود میں آیا تھا اُس سے اقبالؒ کی شاعری پہ بھی انقلابی رنگ چھا گیا تھاجبکہ عاشق حسین بٹالوی اپنی تصنیف میں رقمطراز ہیں کہ علا مہ اقبالؒ نے نہرو سے یہ پوچھا کہ اُن کے سوشلزم کے نظریے کی حمایت میں کتنے کانگریسی اُن کے ساتھ ہیں جس کے جواب میں نہرو کا کہنا تھا ’ تقریباً آدھا درجن‘! ایسا لگتا ہے کہ نہرو شاید ورکنگ کمیٹی میں اپنے حمایتوں کا ذکر کر رہے تھے کیونکہ بٹالوی کی نظر میں سوال کانگریس کے سابقہ دو اجلاسوں میں اُن کی سوشلزم کی ترجمانی میں زور دار حمایت کے پس منظر میں پوچھا گیا اور یہ بات سبھی جانتے تھے کہ سردار پٹیل، راج گوپال آچاریہ اورستیہ مورتی جیسے برگذیدہ کانگریس رہنما اِس نظریے کے مخالف تھے۔ جواب سننے پہ علامہؒ اُن سے کہتے ہیں کہ جب اُن کی اپنی پارٹی میں حمایتیوں کی تعداد اتنی قلیل ہے تو وہ کیسے اُن سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو سوشلزم کی حمایت کرنے کے لئے کہیں؟ بٹالوی نے البتہ یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ آیا پنڈت نہرو نے اقبالؒ سے درخواست کی تھی کہ وہ مسلمانوں سے حمایت کی اپیل کریں۔

اقبال اپنے رفقا کے ہمراہ

 سوشلزم کے ضمن میں اقبالؒ کے استفسار کو بٹالوی دوسرے ہی پیرائے میں تولتے نظر آتے ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ اُس زمانے میں علامہؒ کو مسلمانوں کی اقتصادی بد حالی کی فکر لگی ہوئی تھی اور جناح کے نام مکتوبات میں جن میں سے ایک 28 مئی 1937 ء کو ارسال ہوا اُنہوں نے تقریباً دو صدیوں سے مسلمانوں کی خستہ حالی، جب وہ نان شبینہ کے محتاج ہو گئے تھے، پر اُن کی توجہ مبذول کرانی چاہی۔ اس میں یہ بھی ذکر بھی موجود تھا کہ اگر مسلم لیگ نے اِس بارے میں اقدامات کا آغاز نہیں کیا تو پہلے کی طرح مسلمان اُن سے دور ہوجائیں گے۔ اُن دنوں میں کانگریس کی اقتصادی پالیسی نے کافی مسلمانوں کو متاثر کیا تھا اور انتخابات میں کانگریس مسلم لیگ پہ حاوی ہوتی جا رہی تھی، حتیٰ اُن ریاستوں میں بھی جہاں مسلمانوں کی اکثریت واضح تھی مثلاً صوبہ سرحد جہاں خان عبدالغفار خان کے بھائی ڈاکٹر خان کی سر کردگی میں کانگریسی حکومت کی تشکیل ہوئی۔ اقبالؒ کے خط میں نہروکے سوشلسٹ نظریہ کا بھی ذکر تھا اور اُن کی یہ رائے تھی کہ مسلمان الہیات سے عاری سوشلزم کے کبھی بھی حامی نہیں ہو سکتے جس سے یہی ثابت ہو تا ہے کہ جہاں اقبالؒ نہرو کے محب وطن ہونے کی تصدیق کرتے ہیں وہی اُن کے سوشلسٹ نظریہ کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔

 نظریہ پاکستان کے بارے میں نہرو ’ڈسکوری آف انڈیا‘ میں رقمطراز ہیں کہ پاکستا ن کا موجد اگرچہ اقبالؒ کو مانا جاتا ہے لیکن اُنہوں نے بعد میں اِس پہ نظر ثانی کی اور اِس بارے میں ٹامسن کی تصانیف کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے اقبالؒ کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا تھا کہ موصوف نے اُن سے کہا کہ ”میرے وسیع غیر منظم و فاقہ کش ملک میں طوائف الملوکی برپا ہوتی نظر آتی ہے اور یہ کہ پاکستان ہندووں مسلمانوں اور برطانوی حکومت تینوں کے لئے تباہی کا موجب ہو گا لیکن میں مسلم لیگ کا صدر ہوں، اس لئے میرا فرض ہے کہ میں اِس تجویز کی حمایت کروں“ عاشق حسین بٹالوی کو ٹامسن کی تحریر سے اختلاف ہے ۔ انہوں نے جہاں اپنی تصنیف ’انلسٹ ا نڈیا فار فریڈم 1940‘ میں اقبالؒ کی وفات سے کچھ دیر پہلے ذاتی ملاقات کا عندیہ دیا ہے وہی ’ایتھکل آئیڈیاز اِن انڈیا ٹو ڈے1942ء‘ میں قبل از وفات خط کا ذکر ہے!

بٹالوی کے مطابق جو کہ تاریخی حوالوں سے بھی صحیح ہے ،علامہؒ زندگی میں ایک ہی دفعہ یعنی 1930ء میں مسلم لیگ کے صدر بنے جبکہ نظریہ پاکستان کا کہیں بھی وجود ہی نہیں تھا جو وفات اقبالؒ سے دو سال بعد قرار داد لاہور میں 23 مارچ 1940ء کے بعد سامنے آیا۔ رہی بحیثیت صدر مسلم لیگ فرائض عائد ہونے کی بات تو اِس بارے میں بٹالوی کا ماننا ہے 1930ء میں مسلم لیگ کا نصب العین ہندوستان میں حکومت خود اختیاری کا تھا نہ کہ پاکستان کا اور اقبالؒ اپنی مرضی کے خلاف کسی بھی فرض کے پابند یا مجبور نہیں تھے بلکہ اپنی طرف سے اُنہوں نے پہلی دفعہ شمال مغرب میں خود مختارمملکت کی بات کہی تھی۔ ثانیاً بقول بٹالوی جناح کے نام کئی خطوط میں اُنہوں نے وفات سے قبل یہی عندیہ دیا کہ مسلمانوں کی ایک سے زائد خود مختار مملکتیں قائم ہونی چاہیں (جناح کے نام خط بتاریخ 28 مئی 1937 ء منعکس منجانب شیخ محمد اشرف) ایک اور خط میں (بتاریخ 21 جون 1937ء) وہ لسانی نسلی و مذہبی ناطے سے ملکی تقسیم کی بات سامنے رکھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اِن دلائل سے بٹالوی ٹامسن کے اُن نظریات کی نفی کرتے نظر آتے ہیں جنہیں نہرو نے ’ڈسکوری آف انڈیا ‘ میں منعکس کیا ہوا ہے۔

 علامہ کو یہ احساس تھا کہ نہرو ہی ہندوستان کے آئندہ رہبر کے روپ میں اُبھریں گے اور یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے نہرو کو یہ تلقین کی کہ مسلمانوں سے اچھے تعلقات کی خاطر مغربی ایشیا سے قریبی تعلقات قائم کریں چونکہ یہ اسلامی ایشیا ہے جو مستقبل میں بہت ہی اہم خطہ بننے والا ہے اور اچھے تعلقات قائم کرنا ہند کے مفاد میں ہو گا۔ نہرو سے اختلاف کی گنجائش کئی پیرائیوں میں ہو سکتی ہے لیکن اُنہوں نے اپنے وقت میں مغربی ایشیا سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش ضرور کی گر چہ ایسا بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ اِن ممالک میں پاکستانی سفارتی ناطے کمزور کرنے کی کوشش تھی لیکن کچھ عرب مورخ مخصوصاً حسنین ہیکل کا ماننا ہے کہ نہرو نے عرب مفاد کی ایسی ترجمانی کی جو خود عرب بھی نہیں کر سکتے تھے ۔ ہیکل معروف مصری روز نامے ”الاہرام “کے ایڈیٹر اور مصری رہبر کرنل ناصر کے مشیر تھے اور ناصر نہرو و ٹیٹو کی دوستی گذشتہ صدی کے 50 و 60 کے دھے کی شہ سرخیوں میں سے ہوا کرتی تھی۔

 اِس تاریخی میٹنگ کا اختتام تب ہوا جب میاں افتخار الدین نے یہ بات سامنے رکھی کہ وہ اگر جناح کے بجائے لیڈری کا بوجھ سنبھال لیں تو ساتھ کام کرنا آساں ہو سکتا ہے ۔ اِس پہ اقبالؒ ، جو دمے کے مرض میں مبتلا و بستر پہ دراز لیٹے تھے ، یہ کہتے ہوئے اُٹھ بیٹھے اور فرمایا کہ جناح اُن کے رہبر ہیں ! نہرو کو افتخار الدین کی غلطی کا احساس ہوا اوروہ علامہ اقبالؒ کی میکلوڈ روڑ لاہور پہ واقع کوٹھی سے اجازت مانگ کے واپس چل پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments