عرفان خان: کئی چہرے ہیں اس دل کے


تھیٹر کو ایکٹر کا، ٹی وی کو رائٹر کا اور فلم کو ڈائریکٹر کا میڈیم کہا جاتا ہے۔ ایسا ہی ہوتا اگرعرفان خان کو فلم سکرین پرنہ دیکھا گیا ہوتا۔ وشال بھردواج کی فلم ”مقبول“ ہو یا انوراگ کیشپ کی فلم ”لنچ باکس“ ، کتنے لوگ ہیں جو ان فلموں کو ان کے ڈائریکٹرز کے ناموں سے جانتے ہیں۔ کسی فلمی خاندان سے تعلق نہ ہی چاکلیٹی شخصیت، معمولی شکل وصورت کا مالک عرفان خان ہیرو میٹیریل نہیں تھا، پھر بھی صرف اپنی لاجواب تاثراتی اداکاری سے ہی عرفان ان فلموں کی پہچان ہے۔

عرفان خان کی قسمت اچھی ہوتی تو اسے فلمی دنیا میں اپنا مقام بنانے کے لئے اتنی ریاضت نہ کرنا پڑتی۔ حقیقی دنیا میں عرفان خان کرکٹر بنتے بنتے رہ گیا تھا۔ جے پور کی ٹیم میں سلیکٹ ہوکر بھی اپنے اندر کے اداکار کی سن کر نیشنل سکول آف ڈرامہ پہنچ جانے والا عرفان محنت کی داستان کا مرکزی کردار ہے، ہیمنگوے کے ناول کے اس بوڑھے ملاح کی طرح جس نے آخری لمحے تک ہار نہیں مانی۔ 30 سال سے زیادہ عرصہ نام بنانے کی جدوجہد میں گزارنے والا عرفان جب پہلی بار ممبئی آیا تو اداکار بننے سے پہلے اسے اے سی مکینک بھی بننا پڑا اور سب سے پہلے جس گھر کا اے سی مرمت کیا وہ مشہور فلمسٹار راجیش کھنہ کا گھر تھا۔

قسمت کا ستم ظریفی دیکھئے، 1988 میں پہلی بار میرا نائر کی فلم ”سلام بمبے“ میں کام ملا توعین شوٹنگ سے پہلے اس کا رول ہی فلم سے ختم کر دیا گیا۔ ایک جونیئر ٹی وی اداکار کے طور پر عرفان نے تیرہ سال فلم میں کام ملنے کے انتظار میں ہر چھوٹا بڑا کردارادا کیا۔ بڑی سکرین پرنظرآنے کی خواہش دل میں لئے فلم کے میدان میں آیا تو اسے معلوم تھا کہ وہ کمرشل سینما کا ہیرو نہیں بن پائے گا۔ متوازی سینما میں نصیرالدین شاہ جیسے اداکار کا راج تھا۔

کمرشل اور متوازی سینما کے درمیان جھولتے عرفان نے 10 سال گزاردیے۔ عرفان خان کے پورے کیریئر میں کوئی ایک مقام بھی ایسا نہیں جہاں سے اسے بریک ملا اور وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا ہو۔ بلکہ کئی مشہورانڈین فلمیں ایسی بھی ہیں جن میں پہلے عرفان خان کو کاسٹ کیا گیا پھر اسے نکال کر کسی دوسرے اداکار کو سائن کرلیا گیا۔

پہلی بارعرفان 2001 میں برطانوی فلمساز آصف کپا ڈیہ کی فلم ”وارئیر“ سے ٹی وی سے نکل کر باقاعدہ فلم کی دنیا میں آیا۔ یہیں سے عرفان خان ہالی وڈ کے ہدایت کاروں کی نظروں میں آیا۔ فلم ”حاصل“ سے اسے بالی وڈ میں شناخت حاصل ہوئی۔ فلم ”روگ“ کا پولیس افسر ادھے راٹھورعرفان کا پہلا لیڈ رول تھا جس سے اسے فلم انڈسٹری میں پاؤں جمانے میں مدد ملی۔ اس کے بعد کے سفرمیں ”لائف ان آ میٹرو“ کا مونٹی ہو یا شیکسپیئر کے ڈرامے میکبتھ پر بنی فلم ”مقبول“ کا میاں، ”پان سنگھ تومر“ کا باغی ہو یا ”پیکو“ کا ڈرائیور، ”ہندی میڈیم“ کا دکاندار راج ہو یا فلم ”لنچ باکس“ کا کلرک فرنینڈس، عرفان نے اپنی جاندار اداکاری سے ہرکردارکو امر کردیا۔ بالی وڈ کے پاس ایسی کوئی مثال نہیں ہے جس میں صرف ایک کردار ہیروئین اور دیگر مصالحوں کے بغیر فلم میں اپنی اداکاری سے ایسی جان ڈال دے کہ فلم بین داد دینے پر مجبور ہو جائیں۔ عرفان کی کئی فلمیں باکس آفس پر ناکام رہیں مگر وہ اپنے فن کے اظہار میں ضرورکامیاب رہا۔

کیرئیر کے آغاز میں اسے ”انڈرریٹ“ کیا گیا اور آخری دنوں میں ”اوورریٹ“ بھی قرار دیا جاتا رہا، اس کے باوجود عرفان خان انڈین سینما کا واحد ایکٹر ہے جس نے بیک وقت بہترین اداکار، بہترین معاون اداکار، بہترین ولن اور بہترین اداکار کے کریٹک ایوارڈ اپنے نام کر رکھے ہیں۔ ایسا ورسٹائل ایکٹر جس پر رومانٹک یا اینگری ینگ مین جیسی کوئی چھاپ نہیں۔ ٹائپ قسم کے فلم سٹارز کے درمیان اپنی منفرد پہچان سے عرفان نے بالی وڈ کو بالآخر نیو ایج سینما کی طرف موڑ دیا ہے جس کی بدولت فلمیں فارمولے سے ہٹ کر بننا شروع ہو گئی ہیں، تبھی آج نوازالدین، ایوشمان اور راجکمار راؤ جیسے اداکار کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں۔

ہالی وڈ میں انجلینا جولی کے ساتھ ”مائٹی ہارٹ“ اور ٹام ہینکس کے ساتھ ”انفرنو“ سمیت برٹش اور فرنچ سینما تک کام کرنے والا عرفان خان بالی وڈ کا واحد گلوبل فیس ہے، مگرعرفان کے 33 سال کے کیریئرمیں قسمت کہیں نظر نہیں آتی۔ صرف اور صرف لگن اورمحنت نے عرفان خان کوعظیم اداکاروں میں شامل کیا ہے۔ خوش قسمت ہوتا توکامیابیوں کے عروج پر اچانک کینسر کا شکار نہ ہوتا۔ بیماری سے لڑتے ”ہنستے مسکراتے اس کا یوں دنیا چھوڑ جانا بھی فلمی سا لگتا ہے۔ کیرئیر کی ریس میں تو اس نے قسمت کو پچھاڑ دیا لیکن زندگی کی دوڑ میں قسمت سے نہ جیت سکا۔ سچ مگر یہ ہے کہ امید کی ڈور سے ٹوٹتی جڑتی عرفان خان کی پوری زندگی، ناکامی اورکامیابی کے گرد گھومتی کسی فلم کی کہانی سے کم نہیں ہے۔

مگر بقول سلیم کوثر، زندگی فلم نہیں ہے کہ دکھائیں تم کو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments