لوہے کا کمر بند (1)


ملازم فوراً اس مغنی کو بلا کر لے آئے۔ وہ اس علاقے کا مشہور و معروف مغنی تھا۔ لوگ اس کی آواز سن کر وجد میں آ جاتے تھے۔ وہ مردانہ حسن و شکوہ کا ایک بے مثال نمونہ تھا۔ اونچا قد، مضبوط جسم، لمبے لمبے بازو، سانولا رنگ اور لہراتے ہوئے گھنگھریالے بال۔ اس کی آنکھوں میں غضب کی کشش تھی اور محبت کی ایک عجیب سے شدت بھی۔ اس نے بھی سوداگر کی بیوی کے حسن کے چرچے سن رکھے تھے اور غائبانہ طور پر اس سے محبت بھی کرنے لگا تھا۔ اب جب وہ اس حسینہ کے سامنے اچانک پہنچا دیا گیا تو متعجب سا رہ گیا۔ پہلے تو اسے اعتبار ہی نہ رہا کہ یہ حقیقت ہو سکتی ہے۔ اس لئے اپنی آنکھیں بار بار ملیں لیکن جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ سچ مچ اپنے دل کی ملکۂ حضور کے سامنے کھڑا ہے تو پہلے وہ دل ہی دل میں اپنی خوش نصیبی پر مالکِ دوجہاں کا شکر بجا لایا پھر سر جھکا کر بولا۔​

“اے حسینۂ عالم! میں آپ کی کون سی خدمت سر انجام دے سکتا ہوں؟​

سوداگر کی بیوی مغنی کے مردانہ حسن پر پہلی ہی نظر میں فریفتہ ہو گئی لیکن اپنے ملازموں کی موجودگی میں اس نے اپنی کیفیت کا اظہار کرنا مناسب نہ سمجھا۔ صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفا کی۔​

“نامور مغنی میں اپنے پیارے شوہر کی جدائی میں ٹرپ رہی ہوں جس کے لوٹنے کی ابھی تین برس تک کوئی توقع نہیں ہے۔ تم مجھے کوئی ایسی غزل سناؤ جس سے میرے دل کو راحت نصیب ہو۔ مجھے یقین ہے تمہاری پر سوز آواز میرے زخمی دل پر مرہم کا کام کرے گی۔”​

یہ کہتے کہتے وہ مغنی کی آنکھوں میں ڈوب گئی لیکن پھر فوراً سنبھل سی گئی اور سر جھکا کر بیٹھ گئی۔ مغنی اس کی حقیقی کیفیت کچھ کچھ بھانپ گیا۔ سوچنے لگا کہ کہیں وہ اسی کی محبت میں گرفتار تو نہیں؟ ممکن ہے اپنے ملازموں کی موجودگی کے سبب سے اس کا اظہار نہ کر سکتی ہو! بہرحال اس کی خواہش کے احترام کے لئے اس نے باہر کھڑے ہوئے اپنے رفیقوں کو بھی اندر بلوا لیا۔ ساز بجنے لگے۔ ڈھول پر تھاپ پڑنے لگی اور سوداگر کی عالی شان عمارت اس کی پر سوز آواز سے گونج اٹھی۔​

مغنی نے اس کے سامنے اپنے ایک پسندیدہ شاعر کی ایک منتخب غزل چھیڑ دی جس کے ذریعے وہ اپنی اندرونی کیفیت کا اظہار بھی کر سکتا تھا۔​

کہاں تک باغباں کا ناز اٹھائیں گے چمن والے

رہے گا گلشن امید برباد خزاں کب تک​

اس کی آواز میں ایک عجیب سا جادو تھا جس کا اسے خود بھی احساس نہ تھا۔ آ ج تک جہاں بھی اس نے اپنی آواز کا جادو جگایا تھا، وہ ہمیشہ کامیاب و کامران رہا تھا۔ اب تو اس نے اپنی آواز میں ایک نیا جذبہ شامل کر لیا تھا۔ وہ اپنی محبوبہ کے سامنے بیٹھا تھا۔ اسے یقین تھا، یہاں بھی وہ کامیاب رہے گا۔ یہ حسینہ اپنا دل ہار کر اس کے قدموں میں رکھ دینے کے لئے ضرور مجبور ہو جائے گی۔ جب وہ اشعار گا رہا تھا، اس کی آنکھیں جذبات کی شدت سے لال ہو گئی تھیں۔ ادھر سوداگر کی بیوی کی آنکھیں بھی بار بار غم ناک ہو جاتی تھیں لیکن دیکھنے والے یہی سمجھ رہے تھے کہ وہ اپنے شوہر کو یاد کر کے آنسو بہا رہی ہے۔ جب مغنی نے اگلا شعر پڑھا، تو سوداگر کی بیوی کی کیفیت اور بھی غیر ہونے لگی۔​

بجھانے سے کہیں بجھنے کی ہے یہ آتش الفت

ارے اوہ دیدۂ گریاں یہ معنی رائیگاں کب تک​

مغنی نے پہلے مصرعے کو اتنی مرتبہ دہرایا، اس قدر مستی سے دہرایا کہ ہر مرتبہ اس سے ایک نیا ہی تاثر ابھرتا چلا گیا۔ ملازموں کو اب یہ خدشہ ستانے لگا کہ ان کی مالکن کہیں بے ہوش نہ ہو جائے، اس لئے انہوں نے مغنی کو خاموش ہو کر چلے جانے کا اشارہ کر دیا لیکن سوداگر کی بیوی نے مغنی کو جانے سے روک لیا اور بولی۔​

“میں تم سے تنہائی میں کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں۔”​

مغنی نے اپنے سارے ساتھیوں کو واپس بھیج دیا اور خود سوداگر کی بیوی کے قدموں میں جھک کر پھر سے بیٹھ گیا۔ بولا۔​

“فرمایئے میں حاضر خدمت ہوں۔”​

سوداگر کی بیوی کی آنکھیں ابھی تک آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ وہ خاصی دیر تک تو کچھ نہ کہہ سکی۔ آخر تھرتھراتی ہوئی آواز میں بولی۔​

“تمہاری آواز میں اس قدر سوز کیوں ہے! کیا تم کسی سے محبت کرتے ہو؟ مغنی نے جواب دیا۔​

“میرے سر سے میرے والدین کا سایہ بچپن سے اٹھ گیا تھا۔ میں بہت چھوٹی عمر سے جگہ جگہ گھوم رہا ہوں۔ موسیقی سے مجھے خاص رغبت ہے۔ اسی میں مجھے خاص تسکین ملتی ہے۔ اب سے پہلے میں نے کسی سے محبت کی ہے یا نہیں۔ اس کے متعلق میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ صحیح ہے کہ میں نے عورتیں بے شمار دیکھی ہیں۔ حسین سے حسین ترین عورتیں، بادشاہوں، امیروں اور سرداروں کی محفلوں میں ہمیشہ شریک ہوتا رہا ہوں۔ وہاں عورتوں کی کمی نہیں رہی ہے لیکن میں سچے دل سے اس بات کا قرار کر سکتا ہوں کہ حقیقی محبت کا آغاز مجھے آپ کا غائبانہ ذکر سن کرہی ہونے لگا تھا۔ آج تو مجھے یوں محسوس ہوا!”​

اس سے آگے سوداگر کی بیوی نے اسے نہ بولنے دیا…

(جاری ہے)

اس سیریز کے دیگر حصےلوہے کا کمر بند (2)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments