پندرہ سالہ طیبہ کے ساتھ پہلے گینگ ریپ اور پھر انصاف کا مذاق


تھر کی 15 سالہ طیبہ راحموں کے بڑے بڑے خواب تھے کہ وہ پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بنے گی۔ مگر اس کا والد عبدالشکور راحموں اس کے تعلیمی اخرجات برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔ اس لیے اس نے طیبہ سمیت اپنی چاروں بیٹیوں کو سعید آباد کے میمن محلہ کے غوثیہ مدرسے میں داخل کروایا اس مدرسے میں وہ اپنی بیوی سمیت خود بھی نوکری کرتا تھا تاکہ ان کی بچیاں دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم حاصل کرکے اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائیں۔ تھر میں خشک سالی کی وجہ سے اکثر لوگ کراچی اور حیدر آباد جیسے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے خاندان کی گزر بسر کر سکیں۔

طیبہ کے والد عبدالشکور بھی ان میں سے تھا جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہے تھے۔ عبدالشکور تھر میں بھوک اور بدحالی سے تنگ ہو کر کراچی چلا آیا تاکہ وہ اپنے خاندان کو دو وقت کا کھانا کھلا سکے۔ ڈیڑھ ماہ پہلے جب طیبہ اپنے تعلیم کے حصول لیے مدرسے کی طرف جا رہی تھی کہ اچانک ہی ایک وین رکی جس میں اس کے محلے دار جن کا تعلق ایک کراچی کی لسانی تنظیم سے ہے وہ طیبہ کو اغوا کر کے زبردستی ایک کوارٹر میں لے گئے اور وہاں 7 لوگوں نے طیبہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے اس کی ویڈیو اور تصاویر بنا ڈالی اور اس کے بعد اس کو بلیک میل کرتے رہے کہ تم نے یہ بات کسی کو بتائی تو زیادتی والی وڈیو اور تصاویر وائرل کر دیں گے اور مسلسل ایک مہینے سے طیبہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھی اور کچھ دن پہلے اس نے اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی اور بلیک میل کرنے والی میسیجز اور موبائیل فون پر بھیجی گئی تصاویر اور بنائی گئی ویڈیو کی پوری روداد اپنے بوڑھے والدین کو سنا دی کہ اس کو سات لوگوں نے اغوا کر کے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔

بوڑھے والد کی انصاف کے لیے چیف جسٹس، آرمی چیف، آئی جی سندھ اور وزیر اعلیٰ سندھ کو اپیل کے بعد پولیس نے پانچ لوگوں کو گرفتار تو کیا ہے مگر سعیدآباد بلدیہ ٹاؤن کی پولیس بھی مبینہ طور پر ان وحشی درندوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور الٹا طیبہ کے والد کو تنگ کرنے لگی ہے کہ وہ کیس واپس لے لے اور دوسری طرف زیادتی کا نشانہ بنانے والے با اثر لوگ مظلوم خاندان کو کراچی سے نیکالی دلانے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ طبیہ کے والد کو مالک مکان نے گھر خالی کرنے کو کہہ دیا ہے۔ مظلوم لڑکی کی بہنوں کو اور والدین کو مدرسے والوں نے بھی بے دخل کر دیا ہے۔ سعید آباد تھانے کے تفتیشی آفیسر نے مبینہ طور پر طیبہ کے بوڑھے والد سے شناختی کارڈ بھی چھین کر اپنے پاس رکھ لیا ہے اور طیبہ کے والد کو چکر پہ چکر لگوائے جا رہے ہیں اور ابھی تک پولیس عدالت میں چالان تک پیش نہیں کر پائی۔

میڈیکل آفیسر نے بھی زیادتی کی تصدیق کی رپورٹ جاری کر دی ہے اور جنسی زیادتی کے دیگر ثبوت ہونے کے باوجود بھی کہیں پر شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ بقول طیبہ کے والد کہ زیادتی کرنے والے مجرم برائے نام تو گرفتار ہیں مگر اصل وہ گھر اور محلے میں پھرتے پائے جاتے ہیں اور ان کے ساتھی طیبہ کے گھر کے باہر سیٹیاں بجا کر جملے کستے ہیں اور سخت نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دیتے ہیں کہ کیس واپس لے لو ورنہ تو طیبہ کی اور بہنوں کو بھی زیادتی کا نشانہ بنایا جائے گا۔ طیبہ اپنی زندگی سے تنگ اپنی موت کی دعا ہر دم کرتی ہے کہ اس ذلت بھری زندگی سے موت بہتر ہے۔

یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمارے اس سنگ دل معاشرے میں غریب لاچار کی کب سنی جائے گی؟ کیا یہاں پر صرف با اثر لوگ، پیسے اور طاقت کے بل بوتے پر طیبہ جیسی سینکڑوں لڑکیوں کی عزتیں تار تار کرتے ہوئے جنسی زیادتی کا شکار بناتے رہیں گے اور ہم صرف خاموش تماشائی بن کر دل ہی دل میں ماتم کرتے رہیں گے۔ کیا اس معاشرے میں انصاف فراہم کرنے والے ادارے اس معصوم کے ساتھ گینگ ریپ کرکے ویڈیو بنانے والے درندوں کو قرار واقع سزا دلوانے میں کامیاب ہو پائے گے یا پھر پیسے، طاقت اور با اثر ہونے کی بنا پر طیبہ اور اس کے والدین کی زبانوں پر چپ کے تالے لگوا دیے جائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).