پاکستان کی طرف مائل ہوتا ہوا کابل


کابل کے حالیہ سفر کے دوران پہلی مرتبہ محسوس ہوا کہ ماحول میں پاکستان سے متعلق تلخی میں کسی حد تک کمی ائی ہے لیکن توقعات پھر بھی پرانی ہی ہیں کہ جنگ ختم، تشدد کم اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔

جون کے اخری ہفتے میں پاکستان اور افغانستان سرحد پارٹریک ٹو کے نام سے ایک ڈائلاگ کے دوران افغان شرکا، افغان منتظم اعلی (چیف ایگزیکٹیو) ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمتیار سے ملاقاتوں کے دوران معلوم ہوا کہ افغان مسئلے کے پرامن حل کے لئے پاکستان سے امیدیں اب بھی وابستہ ہیں۔

پاکستان کے حوالے سے ماحول میں تبدیلی کی ایک وجہ تو شاید طالبان کی عید کے موقع پر عارضی جنگ بندی ہی ہو۔ اس جنگ بندی میں پاکستان کا کردار اہم تھا۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ ڈائلاگ کے نئے میکنزم پر اتفاق بھی ہوا ہے۔

اس مکینزم پر کام کا آغاز بھی تلخی میں کمی لایا ہے۔ اس تحریری مکینزم کے سات راہنما اصول ہیں۔ ان اصولوں میں سب سے اہم ان عناصر کے خلاف موثر اور متفقہ اقدامات اٹھانے پر اتفاق ہے جو امن کی طرف نہیں اتے اور دونوں ممالک کی سیکیورٹی کے لئے خطرہ ہیں۔

یہ بھی اتفاق ہواہے کہ کوئی بھی ملک اپنے علاقوں کو کسی نیٹ ورک، گروپ یا افراد کودوسرے کے خلاف استعمال کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ میکنزم ماضی میں ہونے والے معاہدوں سے قدرے اس لئے مختلف ہیں کہ اس کے سات اہم اصولوں کا میڈیا میں اعلان کیا گیا ہے اور اس پر اتفاق سے پہلے مشوروں میں اعلی فوجی اور انٹیلی جنس کے اہلکار شامل تھے۔

چونکہ پاکستان میں افغان معاملات کو سیکیورٹی سے جوڑا گیا ہے تو ویسے بھی یہ فوج اور انٹیلی جنس کا ایریا ہی سمجھا جاتا ہے۔ صدر اشرف غنی نے چند روز پہلے کہا کہ پاکستان کے ساتھ پہلی مرتبہ ایک مثالی معاہدہ ہوا تو ان کا یہ بیان اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو میں نے کابل میں محسوس کیا۔ تلخی میں کمی آئی ہے لہجوں میں نرمی ہے اس کے ساتھ ہی وہاں امیدیں بھی کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہیں۔

افغانستان کے پاکستان سے دو دیرینہ مطالبات رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے اور دوسرا یہ کہ اگر یہ نہیں مانتے تو ان کو پاکستان سے نکال دیں۔ افغان امورسے متعلقہ پاکستانی سفارتکاروں سے نشستوں میں ہمارے لوگ یہ صاف کہتے ہیں کہ طالبان کے خلاف کوئی کریک ڈاون یا کوئی بڑی مہم جوئی ہم نہیں کریں گے۔

یہ اس لئے نہیں کی جائے گی کہ پاکستان کسی اور کی جنگ اب اپنی سرزمین پر نہیں لڑے گا۔ پاکستانی حکام کو یہ بھی خدشہ ہے کہ افغان طالبان کے خلاف بڑا ایکشن ہوا تو نتیجہ یہ بھی نکل سکتا کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی سے اتحاد کر لیں۔ ہمارے خلاف ایک نئی اور بڑی جنگ ہی شروع کر دیں۔

پاکستان کا یہ موقف اصولی طور پر درست ہے کہ افغان امن مذاکرات بنیادی طور پرافغانوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ ان تمام ممالک کی بھی ذمہ داری ہے جن کے طالبان کے قطر میں موجود سیاسی دفتر سے رابطے ہیں۔ ان سب کو چاہیے کہ وہ بھی امن مذاکرات میں اپنا کردار ادا کریں۔

افغان مسئلہ اب بہت پیچیدہ ہو چکا ہے کیونکہ اب روس، ایران، چین اور مرکزی ایشیاء کا رول بھی اہمیت کا حامل ہے۔

میری نظر میں پاکستان کا طالبان پر اثر ماضی کی طرح نہیں رہا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ کردار کسی حد تک موجود ہے۔ افغانستان میں یہ غلط ہے سوچ پائی جاتی ہے کہ طالبان پاکستان کے کنٹرول میں ہیں اور پاکستان ان کو پکڑ کر مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے۔

پاکستان کا کتنا کنٹرول ہے؟ یہ بات ایک بار میں نے قطر آفس کے ایک طالبان نمائندے سے بھی پوچھی تو اس کا جواب دلچسپ تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر کنٹرول والی بات ہوتی تو طالبان سترہ سال سے امریکا کی قیادت میں چالیس سے زائد ممالک کے خلاف مسلح مزاحمت نہ کرتے بلکہ اب تک ہتھیار ڈال چکے ہوتے۔

میرا خیال ہے افغان طالبان پاکستان پر اتنا اعتماد ہرگز نہیں کرتے جتنا سمجھا اور بتایا جاتا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک سوال پر وٹس اپ پر اپنے جواب میں کہا تھا کہ پاکستان نے پہلے ہی دن سے امریکی اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ تعاون شروع کر دیا تھا۔

پاکستان نے اپنے فوجی ہوائی اڈے امریکیوں کے کنٹرول میں دیے تھے جس سے افغانستان میں طالبان کے خلاف ہزاروں حملے کیے گئے تھے۔ طالبان کی پاکستان پر بد اعتمادی سے متعلق اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں لیکن ہم اپنے ٹاپک سے پھر ہٹ جائیں گے۔

22 تا 27 جون تک کابل میں ٹریک ٹو ڈائلاگ کے دوران ڈاکٹر عبداللہ، حکمتیار اور ڈائلاگ کے شرکاء سے ملاقاتوں میں بھی کچھ مثبت سوچ موجود پائی۔ لیکن دوطرفہ ڈائلاگ کے نئے میکنزم کے نفاذ کے لئے کابل میں توقعات کچھ زیادہ ہی ہیں۔ اب دیکھنا ہو گا کہ کہ پاکستان اپنے مفادات اور خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان کے توقعات کے مطابق کتنے اقدامات اٹھا سکے گا۔

ملاقات میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا اصرار تھا کہ امن اور یکجہتی کے لئے افغانستان اور پاکستان کا عمل پلان کے نام سے مذاکراتی عمل میں جن سات اصولوں پر اتفاق ہوا ہے اس کو نافذ کرنے کی بھرپور کوشش ہونی چاہیے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ عملی اقدامات نہ اٹھانا مذاکراتی عمل کو ناکام بنا سکتا ہے۔ حکمتیار شاید وہ واحد افغان رہنما ہیں جو یہ کھل کر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان افغانستان کا واحد پڑوسی ہے جس کا جنگ میں نقصان ہوا ہے اور سب سے زیادہ ہوا ہے۔

گلبدین حکمت یار یہ بھی کہتے ہیں پاکستان کے ہاتھ سے افغان مارکیٹ بھی نکل گئی ہے۔ وہ ایران پر الزام لگاتے ہیں کہ ایران نے تیس سال افغان جنگ پر سرمایہ کاری کی ہے۔ آج افغان مارکیٹ پر قبضہ بھی ایران ہی کا ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ حالت یہ ہے کہ پاکستانی سرحد کے ساتھ ننگرہار اور لغمان میں ایرانی سامان اور کھجور فروخت ہو رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).