عمران کی حکومت، میری مراد بر آئی!


میں محترم عمران خان کی سیاست کا تب سے شاہد ہوں جب سے انہوں نے اس کارزار میں قدم رنجہ فرمایا۔ ان کے بارے میں مجھے کبھی یہ غلط فہمی نہیں رہی کہ ان پر کسی قسم کی فکری گہرائی رکھنے کا الزام دھرا جا سکتا ہے۔ ایسی غلط فہمی کا امکان خان صاحب نے اپنے پہلے ہی اہم سیاسی اقدام سے ختم کر دیا تھا جب مشرف کی فوجی بغاوت کی نہ صرف انہوں نے حمایت فرمائی بلکہ جنرل مشرف کو پاکستان کے لئے امید کی آخری کرن قرار دیا۔ عمران خان بہت عرصہ تک پاکستانی سیاست میں وہی کردار ادا کرتے رہے جو پچھلی صدی کے اواخر میں پنجابی فلموں میں ولن کے پیچھے کھڑے لوگوں کا ہوتا تھا جب وہ ہیرو پر حملہ کرنے آتے تھے۔ جو ہیروئن اس لڑائی کا سبب ہوتی تھی اس کا کوئی حاصل وصول ولن کے ساتھ آئے لوگوں کا نہیں ہوتا تھا لیکن ہیرو پر حملہ کرنے سے پہلے ان کے چہرے پر ولن سے زیادہ غصہ اور اور پیچ و تاب ہوتے تھے۔

پھر ہوا یوں کہ پاکستان کے ان محافظوں کی نگاہ انتخاب عمران بھائی پر پڑ گئی جن کی وجہ سے وطن عزیز قائم ہے اور جو نہ ہوتے تو یہ سیاستدان کب کا ملک بھارت کو بیچ کر انگلستان منتقل ہو چکے ہوتے۔ اس کے علاوہ عمران خان پاکستان کے ان لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے جنہوں نے اس سے قبل  نہ کبھی پاکستانی سیاست میں دلچسپی لی تھی اور نہ انہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ اور اس کی حرکیات کا کوئی علم تھا۔ یہ لوگ آستینیں چڑھا کر عمران بھائی کی حمایت میں اور ان کے مخالفین کو ان کی اوقات دکھانے میدان میں اتر آئے۔ مسیحاؤں کی تلاش ہمارا قومی کھیل ہے سو ان لوگوں کی نظر میں جدید ترین مسیحا عمران خان قرار پائے۔ اس ہجوم کے لئے عمران خان کی زبان سے نکلا ہر حرف کائناتی سچائی ہے اور ان پر تنقید کرنے والا ہر شخص جاہل مطلق۔ ان لوگوں کے نزدیک عمران خان کبھی غلط نہیں ہو سکتے۔  عمران بھائی دو ہزار دو میں مولانا فضل الرحمٰن کو وزارت عظمیٰ کے لئے ووٹ دیں تو ان لوگوں کے لئے وہ ایک درست سیاسی قدم ہے اور پھر عمران خان اسی مولانا فضل الرحمٰن کو ایک دفعہ ڈیزل کہیں تو ان کے یہ مریدین انہیں سو دفعہ اسی لقب سے نوازتے ہیں۔

پاکستان کے اصل حکرانوں کی تائید اور سیاست میں اچانک دلچسپی لینے والے اپنے شوخ اور چنچل حمایتیوں کی وجہ سے عمران خان یکایک پاکستانی آسمان سیاست کا ایک روشن ستارہ  بن گئے۔ اس کے بعد ہمیں یہ بتایا جانے لگا کہ بالآخر وہ شخص مل گیا جس کی جیب میں پاکستان کے تمام مسائل کا حل ہے۔ کہا جانے لگا کہ عمران خان ہی وہ شخص ہے جو پاکستانی سیاست کے گندے جوہڑ کی تطہیر کر سکتا ہے۔ ایک صحافی تو یہ تک لکھا کرتے تھے کہ عمران خان ہی وہ واحد پاکستانی ہے جو امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہے۔ یہ اور بات کہ اب یہی صحافی فرمایا کرتے ہیں کہ سولہ برس عمران خان کی حمایت کی، جھک ماری۔ مگر مزید دلچسپ امر یہ ہے کہ سولہ برس اس جھک مارنے کے اقرار کے بعد یہ صاحب عمران خان ہی  کو مردم نا شناس ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ خیر وہ جانیں، ان کی گورنری کی نا آسودہ خواہش اور عمران بھائی۔ ہم واپس اپنے موضوع پر آتے ہیں۔

بیرون ملک مقیم ہونے کی وجہ سے میں اس بات کا گواہ ہوں کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد عمران خان کی حامی ہے۔ ان میں غالب اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے پاکستان پر مطالعہ پاکستان کے علاوہ کوئی کتاب نہیں پڑھی۔ نہ ہی انہوں نے کبھی کسی سیاسی جلسے جلوس میں شرکت کی ہوگی بلکہ وہ تو شائد اسے عامیانہ سی بات سمجھتے ہوں ۔ ان لوگوں سے بات چیت کر کے دو ہزار تیرہ کے انتخابات سے پہلے میرے دل میں ایک کمینی سی خواہش نے انگڑائی لی۔ کاش عمران خان وزیر اعظم پاکستان بن جائیں۔ اس کمینی خواہش کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہی کہ عمران خان کے ان پرستاروں کی یہ خوش فہمی تو دور ہو کہ عمران خان کوئی مفکر ٹائپ شے ہیں جس کے پاس تمام مسائل کا حل ہے۔ دوسری وجہ کا تعلق اس حقیقت سے ہے کہ سیاست انتہائی غیر دلچسپ شعبہ ہے۔ دو ہزار تیرہ کے انتخابات تک میں نے اگر کبھی کسی سیاسی پارٹی کی حمایت کی تھی تو وہ پیپلز پارٹی تھی جس کے جیتنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں تھا۔ محترم نواز شریف جیتتے دکھائی دیتےتھے جو کہ بور کرنے کے  بے تاج بادشاہ ہیں۔ ایسے میں اگر عمران خان وزیر اعظم بن جاتے تو میرے خیال میں ان کی حکومت روزانہ کی بنیاد پر ایسی ایسی درفنطنی چھوڑتی کہ طبیعت باغ و بہار ہو جاتی۔ لیکن میری اس خواہش کو پورا ہونے کے لئے پانچ سال کا انتظار کرنا پڑا۔

عمران خان کے وزیر اعظم بننے پر ایک دوست نے مجھے پیغام بھیجا کہ اب اگر یہ شخص پاکستان کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو گیا یا کروا دیا گیا تو ہمیں تمھیں بہت خفت ہوگی کہ ہم عمران بھائی کا برسوں مذاق اڑاتے رہے۔ میں نے انہیں جواب میں لکھا کہ پاکستان کے مسائل کے حل کی قیمت اگر ہماری شرمندگی ہے تو یہ قطعی کوئی برا سودا نہیں۔ لیکن یہ جواب دیتے ہوئے بھی میرے ذہن میں یہ واضح تھا کہ جسے پاکستان کے مسائل کا ادراک ہی نہیں وہ انہیں حل کیسے کرے گا۔ میں شکر گزار ہوں عمران بھائی کا کہ اس تحریر کے قلم بند ہونے تک انہوں نے مجھے کسی میدان میں مایوس نہیں کیا۔

حکومت میں آنے سے پہلے اور حکومت میں آنے کے بعد، عمران خان بہت حد تک ایک یک نکاتی ایجنڈا رکھتے ہیں اور وہ ہے کرپشن کا خاتمہ۔ ان کے نزدیک یہ کرپشن ہی ہے جس نے پاکستان کی ترقی کو روکا ہوا ہے۔ میرے نزدیک  کرپشن مرض نہیں بلکہ پاکستان کو لاحق مرض کی صرف ایک علامت ہے۔ کرپشن ملکوں کی ترقی روک سکتی تو آج چین امریکہ کے مقابلے میں نہ کھڑا ہوتا۔ درست کہ چین میں اب کرپشن کے خلاف ایک مہم برپا ہے لیکن تاحال وہ ترقی یافتہ ممالک کی سب سے زیادہ کرپٹ معیشتوں میں شمار ہوتا ہے اور ماہرین کے مطابق چین میں کرپشن اپنی ہئیت تو تبدیل کر رہی ہے لیکن اس کا مکمل خاتمہ نظر نہیں آ رہا۔ پاکستان کے مسائل کا تعلق نظام کی کمزوری اور اداروں کی عدم خود مختاری ہے جو کرپشن اور دوسرے مسائل کی وجہ ہیں۔ عمران خان جو حل تجویز کر رہے ہیں وہ ایسے ہی ہے جیسے کسی تھانے میں ایک ایمان دار تھانے دار لگا کر سمجھ لیا جائے کہ پولیس کا نظام ٹھیک ہو گیا ہے۔

حکومت میں آنے کے بعد سے اب تک عمران خان حکومت جن کاموں میں مصروف ہے انہیں مداری کا تماشا سمجھ کر تالیاں تو بجائی جا سکتی ہیں لیکن ان سے کسی مسئلے کے دوررس حل کی کوئی توقع بے جا ہو گی۔ بھینسیں بیچنے سے ریاستی اسراف ختم نہیں ہو گا۔ پچاس سیاستدان گرفتار کر کے کرپشن ختم نہیں ہو گی۔ گورنر ہاؤس عام لوگوں کے لئے کھول دینے سے ان میں اور حکمرانوں میں فاصلے ختم نہیں ہوں گے۔ پٹرول پمپوں پر ٹائلٹ صاف کر دینے سے معاشرے میں صفائی کا شعور نہیں آئے گا۔ بیرون ملک دورے نہ کرنے سے ملک کی خارجہ پالیسی کی سمت درست نہیں ہو گی۔ یہ تمام علامات ہیں اس مرض کی ہیں جس کی طرف اشارہ اوپر کیا جا چکا اور جس کا ذکر تک عمران خان حکومت گناہ سمجھتی ہے۔ یہ تمام اقدامات اس تنقید کی یاد دلاتے ہیں جو عمران خان کسی پر یہ کہہ کر کیا کرتے تھے کہ جب بارش سے شہر ڈوب جاتا ہے تو وہ فل بوٹ اور ہیٹ پہن کر تصویریں بنوانے نکل آتا ہے۔ اور اس پر طرفہ تماشا یہ کہ وزیر اعظم مائکرو منیجمنٹ کی طرف راغب دکھائی دیتے ہیں جہاں وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں جا کر صوبائی حکومت کو ہدایات دیتے پائے جاتے ہیں۔ ہمیں تو عمران خان بتایا کرتے تھے کہ ان کی سب سے بڑی اہلیت ٹیم بنانا اور درست شخص کو درست ذمہ داری دینا تھی۔ ذمہ داری بے اختیار ہو تو وہ غیر مکمل ہوتی ہے لیکن شائد عمران خان ملک بھی ایسے ہی چلانا چاہتے ہیں جیسے کرکٹ میچ چلایا جاتا ہے جس میں کپتان باولر کو ہر گیند سے پہلے بتا سکتا ہے کہ گیند کہاں پھینکنی ہے۔

بہرکیف میں خوش ہوں کہ پانچ سال تاخیر ہی سے سہی، میری مراد بر آئی اور اب امید ہے کہ اگلے پانچ سال عمران خان سیاست کے اس بے رنگ صحرا میں اپنی سادہ لوحی کے رنگین پھول کھلاتے رہیں گے اور ہمیں محظوظ کرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).