’زندگی بے ہودگیوں کا مجموعہ بن گئی ہے‘


ابّو کے چلے جانے کے بعد سے جیسے ایک سناٹا سا چاروں طرف طاری ہوگیا ہے۔ ہر شے برف کی دبیز چادر میں لپٹی ہوئی ہے۔ برف \"asifبگھلے گی تب شاید کچھ کہہ سُن سکوں گا۔ ادب و تہذیب میں رچی بسی پوری شخصیت کے بارے میں لکھنا تو دور کی بات، اس کو پوری طرح تصوّر کرنا بھی میرے لیے محال ہے۔ چند خصوصیات کے تذکرے سے زیادہ کچھ کہنے کی تاب ہے نہ طاقت۔

ان کی پوری شخصیت محنت، لگن اور استقامت سے عبارت تھی۔ انہوں نے زندگی میں جو کچھ حاصل کیا، اپنے قوّت بازو سے اور مشقت کے بعد حاصل کیا۔ زندگی میں کوئی چیز انہیں پلیٹ پر رکھی ہوئی نہیں ملی۔ وہ مال دار اور رئیسانہ مزاج کے حامل خاندان میں پیدا ہوئے جس کو بُرے وقتوں نے آلیا تھا۔ ابّو نے مجھے بتایا کہ تنگ دستی کی وجہ سے آگرہ کے سینٹ جانز کالج سے ڈگری حاصل کرنے کا خواب ادھورا رہ گیا۔ مسلم لیگ کی سیاست اور ترقّی پسند فکر سے لب ریز ہو کر وہ فرّخ آباد سے بمبئی آگئے۔ بیس، اکیس سال کی عمرمیں بمبئی سے کراچی۔ بحری جہاز کا یہ سفر بڑی حد تک ایک حادثہ تھا۔ اس کے بعد واپسی کے راستے بند ہوچکے تھے۔ ان کے پاکستان چلے آنے کی پاداش میں ہندوستان کے کسٹوڈین نے میرے دادا کو آبائی مکان سے محروم کر دیا اور پورے خاندان کو پاکستان کا عازم ہونا پڑا۔ انہوں نےوالدین کے ساتھ چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالا، خود اپنے قدم اس نئے وطن میں جمائے۔ نوکری کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا، پورٹ ٹرسٹ سے ریڈیو پاکستان اور ریڈیو سے پھر شعبۂ تعلیم میں آئے۔ ساری عمر کی محنت سے انہوں نے سفید پوشی کا بھرم رکھا اور عزّت کمائی۔ محنت اور مصروفیت ان کی عادت سی بن گئی تھی۔

کڑی محنت کے ذریعے انہوں نے مرتبہ اور مقام تو حاصل کیا لیکن یہ مرتبہ ان کے لیے منزل نہیں تھا۔ ان کے مزاج میں بہت استغنا اور قناعت تھی۔ کسی عہدے یا مرتبے کی خواہش نہیں کی۔ جو مل گیا اس پر خوش ہولیے، خوشی خوشی کام کیا اور کام مکمل کرکے سبک دوش ہوئے۔ کراچی یونیورسٹی اس زمانے میں سازشوں کا گڑھ تھی۔ انہوں نے بہت سلیقے کے ساتھ دوستی اور انسانی تعلقات نبھائے۔ پروفیسر شپ میں تاخیر اور صدر شعبہ نہ بن سکنے پر ملال کیا اور نہ اس کی وجہ سے کسی قسم کی تلخی اپنے اندر آنے دی۔

بلکہ ایک آدھ موقع پر تلخ بھی ثابت ہوسکتا تھا، اس کو اپنے مخصوص متبسّم انداز میں جھیل لیا۔ بہت عرصے کے بعد پروموشن کا سوال اٹھا اور ابّو کو انٹرویو کے لیے بلایا گیا۔ ایک مخصوص شانِ بے نیازی کے ساتھ وہ اس انٹرویو میں گئے اور جب ان سے پوچھا گیا کہ ڈاکٹر صاحب، آپ کی بدیہہ گوئی کی بڑی شہرت ہے۔ اس موقع کے لیے کوئی شعر کہہ دیجیے۔ انہوں نے سامنے بیٹھے ہوئے وائس چانسلر اور ڈین کی طرف رخ کیا اور فی الفور کہہ دیا۔

نہ کرو خیال وی سی نہ فریب ڈین کھائو

وتعّزو من تشاؤ وتذّل من تشاؤ

خود بتایا کرتے تھے کہ سننے والوں کو سانپ سونگھ گیا، وہ کندھے جھٹک کر وہاں سے چلے آئے۔\"aslam

نوجوانی میں مالی مشکلات کا سامنا کیا تو بڑی پامردی کے ساتھ۔ ان میں خود داری بہت تھی۔ مالی معاملات میں اور بھی زیادہ۔ اگر میں کسی مد میں پیسے خرچ کردیتا تو جب تک روپے گن کر واپس نہ کر لیتے، ایک بے چینی سی رہتی۔ پیسوں کے معاملے میں تو نہیں، ہاں کتاب واپس کرنے میں غچّہ دے جاتے تھے۔ ایک آدھ کتاب پر یہ بھی کہا کہ یہ بحکم سرکار ضبط ہوئی۔ تم دوسری کاپی خرید لوگے، تب مجھ سے واپس مانگ لینا۔

ظاہر ہے کہ ان کے حصّے کی کتاب ان کے پاس رہتی تھی۔ وہ کتابیں حاصل کرنے اور جمع کرنے کے بعد شوقین تھے۔ انہوں نے مجھے سب سے زیادہ جس بات پر ٹوکا ہے وہ یہی کتابوں کا شوق تھا۔ بچپن میں، مَیں ان کی کتابوں پر ان کے دستخط کے ساتھ ساتھ اپنا نام بھی لکھ دیتا تھا۔ لیکن ان کی ڈاٹ ڈپٹ میں بھی خوش گواری کا ذائقہ گُھلا ہوتا تھا۔

محنت و قناعت کے ساتھ ان کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی میں ان کی سلیقہ مندی اور نفاست کا ذکر ہونا چاہیے، اور پھر جس نظم و ضبط کے وہ قائل تھے۔ اپنے استعمال کی ایک ایک چیز وہ اس کی مخصوص جگہ پر اتنے اہتمام سے رکھتے تھے کہ مہینوں بعد بھی وہ چیز آنکھیں بند کرکے اس جگہ سے اٹھا سکتے تھے۔ کتابوں کی بہتات سے گھبرانے لگے تھے مگر الماری پر ان کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ چُنتے تھے۔ چناں چہ تصّوف کی کتابوں کے فوراً بعد غزلیات خسرو۔ نذیر احمد اور آٓزاد سب سے الگ۔ نوجوانی میں اعلیٰ تراش خراش کے سوٹ پسند کرتے تھے۔ روزانہ خود استری کرکے بڑے اہتمام سے پہنتے۔ آخری دنوں میں بھی یہ معمول رہا کہ شیو کرنے اور کپڑے بدلنے کے بعد ، کتابوں اور کاغذوں کے درمیان اپنی مسہری پر جاکر بیٹھ جاتے تھے۔ گویا کام کرنے کے لیے تیار اور مُستعد ہیں۔

کسی کام کے لیے دوسروں کا شرمندہ احسان نہ ہونا چاہتے تھے۔ خود داری اور استقامت کا یہ حال آخری دم تک رہا۔ اپنی آخری آرام گاہ کے لیے کراچی یونیورسٹی کے قبرستان میں جگہ پسند کر لی تھی۔ چناں چہ الاٹ منٹ لیٹر اور این او سی حاصل کرکے ان کی دو کاپیاں ایک فائل میں لگا دیں۔ تجہیز و تکفین کے اخراجات ایک لفافے میں بند کرکے فائل کے ساتھ رکھ دیے۔ ایک آدم مہینے پہلے مجھ سے کہا میرے شناختی کارڈ کی مدّت ختم ہوگئی ہے۔ اس کو جاری کروا دو۔

میں نے ٹالتے ہوئے پوچھا، کیا آپ کو پاسپورٹ بھی بنوانا ہے۔\"aslam

انہوں نے اپنی مخصوص سادگی سے کہا، قبرستان میں کفن دفن کے لیے چاہیے ہوتا ہے۔ بعد میں تمہیں دقّت ہوگی۔

شناختی کارڈ بن کر آیا ہے تو اس کے پندہ دن بعد اس کے استعمال کی ضرورت پڑ گئی۔

دل کی بیماری کو انہوں نے ایک عرصے تک جھیلا۔ لیکن اس بیماری نے ان کو چڑ چڑا بنایا اور نہ بدمزاج۔ زندگی پہلے بھی دھیمی تھی، اب بالکل معتدل ہوگئی۔ وہ احتیاط کے قائل تھے اور اپنے مزاج کی حدّت کو نرمی میں ڈھال لیا تھا۔

وہ مریض بھی اپنی وضع کے تھے۔ انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا موقع ملتا تو ڈاکٹر سے بات چیت بھی وہ اپنے مخصوص انداز میں کرتے۔ آنکھوں کی ڈاکٹر کے پاس علاج کا سلسلہ شروع ہوا تو ہر مرتبہ اپنا حال بتانے سے پہلے آنکھوں کے بارے میں کسی کلاسیکی استاد کا شعر سناتے۔ ایک مرتبہ اس ڈاکٹر نے پوچھا، کیا شکایت ہے۔

ابّو نے جواب دیا، گوشۂ چشم میں خارش ہے۔

ایسے موقعوں پر مجھے ترجمانی کے فرائض انجام دینے پڑتے تھے کہ ابّو کی آراستہ و پیراستہ اردو کو ڈاکٹر صاحبان کی اردو میں منتقل کرتا رہوں۔

میرے ایک ہم جماعت امراض جلد کے ماہر ہیں۔ ساتھ میں باتوں کے رسیا بھی۔ ابّو کو ان کی یہ بات پسند تھی کہ انگریزی میں اپنے نام کے ہجّے اردو کے درست تلفّظ کے مطابق لکھتے تھے۔ ان کے پاس جانا ہوتا تو ابّو پہلے سے تیار ہو کر بیٹھ جاتے۔ وہ حال پوچھتے تو ابّو مسکرا کر جواب دیتے۔ ’’ڈاکٹر صاحب آپ کے اعجازِ مسیحائی اور حُسن توجہ کی بدولت پہلے سےبہتر ہوں۔‘‘

پہلی مرتبہ تو یہ الفاظ سُن کر ڈاکٹر صاحب کو پسینے آ گئے۔ اس نے کہا، یہ مجھے لکھ کر دے دیجیے۔ میں ان الفاظ کو فریم کروا کر رکھوں گا۔

آخری چند دنوں کی دوچار باتیں بھی بار بار یاد آتی رہتی ہیں۔

انہوں نے بیماری کے دوران شکایت کی اور نہ واویلا مچایا۔ جب تک بات کرتے رہے، گفتگو اسی طرح نستعلیق رہی۔ ٹانگ کے فریکچر کے باعث ٹریکشن بندھا ہوا تھا۔ غذا کے لیے ناک میں نلکی ڈالی گئی تھی۔ پیشاب کے لیے بھی نلکی لگی ہوئی تھی۔ میں نے جُھک کر پوچھا، کیا حال ہے۔ کہنے لگے، زندگی بے ہودگیوں کا مجموعہ بن گئی ہے۔

اسی دوران سیمیں نے ان سے کہا، آج آپ پہلے سے بہتر لگ رہے ہیں۔

انہوں نے جواب دیا، میں جھڑوس معلوم ہورہا ہوں۔

میں بار بار ان کے پاس آتا تو وہ پوچھتے، کہاں سے آ  رہے ہوں۔ کہاں جا رہے ہو، ہر بار پوچھتے، کیا لکھ رہے ہو، کیا پڑھ رہے ہو۔

کبھی سوال کرتے، شہر کا کیا حال ہے، ادبی محاذ پر کیا سرگرمیاں ہیں۔

ایک دن میں نے پوچھا کہ طبیعت کیسی ہے تو الٹا مجھی سے پوچھنے لگے۔ تم بتائو تمہاری صحت کیسی ہے۔ تم بہت کام کرتے ہو، آٓرام نہیں کرتے۔

ایسا لگ رہا تھا وہ تیمار دار ہیں اور میں مریض۔

بدن کی طرح ذہن آہستہ آہستہ ساتھ چھوڑ رہا تھا۔ کبھی بھول جاتے، کبھی کسی اور جگہ پہنچ جاتے۔ لیکن میں جب بتاتاکہ فلاں شخص نے آپ کی خیریت پوچھنے کے لیے فون کیا ہے تو جواب دیتے۔ ن م دانش کا میسج آیا تو مجھ سے کہا، مجھے یاد ہے۔ ایسے شاگردوں کو کون بھول سکتا ہے۔ ہندوستان سے شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے فون کیا تو مجھ سے کہا، ان کا شکریہ ادا کر دینا، فاروقی صاحب بڑے آٓدمی ہیں۔ ایک دن سحر انصاری صاحب کو بہت دل چسپ انداز میں یوں یاد کیا گویا وہ لندن میں ہیں اور وہاں سے واپس آ رہے ہیں۔

طرز ادا کی دلکشی کے باوجود وہ اپنے کام کی بات پوری کر لیتے تھے۔ امراض قلب کے جس ماہر کے پاس زیرعلاج تھے۔ اپنی حالت بھانپ کر انہوں نے بڑی سادگی سے کہا تھا، میرا وقت آ رہا ہے۔ زندگی کی ذمہ داریاں پوری ہوگئی ہیں۔ آپ مجھے تختۂ مشق نہیں بنائیں گے۔ کاغذ پر دستخط کر دیے کہ مصنوعی ذریعے سے زندہ نہیں رکھا جائے گا۔

زندگی کی ہر حقیقت کی طرح وہ موت کے لیے بھی تیار تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments