ڈگری اور علم کی انتہا


\"abu-bakar-riaz\"(ابوبکر ریاض)

عام سا مشاہدہ ہے کہ جب ایک طالب علم میٹرک میں زیرِ تعلیم ہوتا ہے تو علمی دنیا گویا اس کی نظروں کے سامنے بکھر سی جاتی ہے، اسے جلتے ہوئے انگاروں کا ہر ذرہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو اس قابل سمجھتا ہے کہ اس کائنات کی ہر جہت سمجھ سکے۔ مگر میٹرک کا وہی طالب علم جب پی ایچ ڈی کرلے تو حقیقت محض ایک حل شدہ پہیلی کی مانند اس کی ہتھیلی پہ پڑی ہوتی ہے۔ یوں سب کچھ جاننے کا زعم سبوتاژ ہوتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ وہ اپنی جہالت کے مزے لے رہا ہے۔ مگر ہمارا ملک بدقسمتی سے بہت زیادہ جاننے والوں سے بھر گیا ہے۔

یہاں کبھی کوئی ایک ہی جھٹکے میں پانی سے گاڑی چلانے کا دعوی کر دیتا ہے تو کبھی کوئی کششی امواج (GRAVITATIONAL WAVES) کو خلط ملط کہہ کر وجہ شہرت بن جاتا ہے۔ آخر ایسا کیا ہے کہ ہم فارغ اوقات کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنے وجدان سے یہی ابہام گوئی کرتے پائے جاتے ہیں کہ ’ہم سب جانتے ہیں‘؟

اسلام آباد ہائی کورٹ میں چند ہفتے پہلے کچھ معلومات سامنے آئیں کہ کامسیٹس (COMSATS) یونیورسٹی کے پروفیسر اور ادارے کے محافظ ہارون رشید صاحب کی پی ایچ ڈی ڈگری چوری شدہ مواد کی بنا پر پریسٹن یونیورسٹی نے واپس لے لی۔ یاد رہے کہ ہارون رشید صاحب نیشنل ٹیسٹنگ سروس (NTS) کے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں یا رہ چکے ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پی ایچ ڈی کا یہ مقالہ رفیق الزمان خاں کے مقالے سے چرایا گیا جسے ہمدرد یونیورسٹی نئی دہلی میں پیش کیا گیا تھا۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے قوانین کے مطابق ایسا شخص جس کا تحقیقی مقالہ یا ڈگری جعلی یا چوری شدہ مواد پر مشتمل ہو نہ صرف واپس لی جاتی ہے بلکہ وہ شخص اپنے حالیہ مقام پر بھی فائز نہیں رہ پاتا چاہے وہ محنت کے بل پر ہی کیوں نہ کمایا ہو۔ ڈاکٹر صاحب ان دنوں اپنے خاندان کے ہمراہ امریکہ نکل گئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ خالصتاً ایک تفریحی دورہ ہے، وہ جلد واپس آکر اپنی بےگناہی کا ثبوت دیں گے۔

یہ تو ہے ہمارے اساتذہ کا حال مگر جس واقعہ کی جانب میں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ واقعی لائق ماتم ہے۔ کچھ دنوں پہلے ایک اور سائنسدان آئے، ڈاکٹر اورنگ زیب الحافی صاحب۔ ان موصوف نے شاید تحقیقی مقالہ مکمل کرکے کسی تحقیقی ادارے یا مجلے میں شامل کروانے کو نرا جھنجھٹ جانا اور اپنی دریافت کا محافظ میڈیا کو مانا۔ ڈاکٹر صاحب اطلاقی (APPLIED) سائینسز میں غیر معمولی مہارت کا دعوی رکھتے ہیں اور اگر ان کے کام کو دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ یہ آئن سٹائن کی کچھ چھوڑی ہوئی کوانٹم فزکس کو بھی آگے لے کر بڑھ رہے ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر صاحب ایک سائنسی دریافت میں کامیاب ہوئے ہیں جسے انہوں نے میگنیٹو ہائیڈرو ٹراپزم (MHT) کا نام دیا ہے۔ احقر اپنی محدود ترین علمی استعداد کو ایک طرف رکھ کر جب گوگل پر ایم ایچ ٹی کی ایک آسان سی اصطلاح ڈھونڈنے نکلا تو دس پندرہ منٹ خجل خوار ہوکر اس بات کو مان بیٹھا کہ شاید فطرت ہی اس بات پر مُصر ہے کہ اس عظیم کائناتی دریافت کو اسی نام سے پکارا جائے جس نام سے ڈاکٹر صاحب نواز بیٹھے ہیں۔

مگر ایک جامد ذہن بھی ساری کی ساری باتیں مان کر ایک فلسفیانہ شک رکھتے ہوئے کچھ سوال داغ سکتا ہے کہ
1: چار ہزار فٹ سے بھی زیادہ بلندی پہ ایک حاملہ خرگوشنی کو لیجا کر کونسا میگنیٹو ہائیڈرو ٹراپزم دریافت کیا گیا؟
2: وہ کونسے آلات تھے جو میگنیٹو ہائیڈرو ٹراپزم دریافت کرنے میں معاون ثابت ہوئے؟
3: کیا اونچائی کا اس میگنٹو ہائیڈرو ٹراپزم نامی شے سے کوئی تعلق ہے؟
4: میرے منہ میں خاک! مگر آپ نے اپنی پریس ریلیز میں اس سارے تجربے کا محرک ایک موج نما ذرے ’میگنیٹرون‘ کو کہا، یہ میگنیٹرون تو ایک آلہ ہے یا پھر ایک فکشن فلم میں پریوں کا دیس ہے، یہ ’ذرہ‘ کب سے بن گیا؟

اور تو اور گوگل آپ کے پھینکے ہوئے تسخیری لنکس سے بھرا پڑا ہے مگر کہیں بھی اس عظیم دریافت کی فزکس میں افادیت نہیں بیان کی گئی سوائے اس کے کہ یہ ایک ایسی گنجلک اصطلاح ہے جس کی آسان تشریح انشااللہ دو ہزار نوے تک ہمارے سامنے ہو گی اور ہم اس کے بے بہا فوائد سے مستفید ہو سکیں گے۔

عرض ہے کہ ہمارا ملک پہلے ہی ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے جو آج بھی کہتے ہیں کہ اگر ہماری محنتیں نہ ہوتیں تو سائینس ابھی پتھر کے زمانوں میں رہ رہی ہوتی، ایسے میں آپ علم کو اپنی نری ذاتی سی وسعت دے کر ان کے مفروضوں کو طاقت نہ بخشیں۔

ہمیں اپنے علم سے آگاہ کریں، متاثر نہ کریں کیونکہ ہماری غیر معمولی علمیت کے دعوے بے سود ہیں جب کہ اکیسویں صدی کا انسان آج بھی اس سوال کے جواب کا متلاشی ہے کہ

‘انسان کیا جانتا ہے؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments