مجرم بیکن ہاؤس نہیں، کوئی اور ہے


\"jamshedچند روز قبل بیکن ہاؤس ساہیوال کی جانب سے ایشو کئے گئے ایک نوٹیفکیشن کی نقل پورے پاکستان میں گردش کررہی ہے جس میں پنجابی زبان کو بیہودہ زبان کہا گیا ہے۔ یہ نوٹیفکیشن منظرعام پر آتے ہی مقامی زبانوں اور ثقافت کے فروغ کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں حرکت میں آئی ہیں، مقامی زبانوں او ر ثقافت کے حق میں نظمیں لکھی گئی ہیں، قطعے کہے گئے ہیں اور جلوس نکالے گئے ہیں۔ مقامی زبان کے لئے بیکن ہاؤس پرہونے کڑی تنقید کو کچھ دوست ثقافتی احیأ کی بادِ صبا قرار دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس واقعے کے بعد باقی ایلیٹ سکولز کسی بھی مقامی زبان کی توہین سے باز رہیں گے اور پھر ثقافتی احیا کی منزل محض ایک زقند کے فاصلے پر ہوگی۔

ہمیں بھی یقین ہے کہ اس قدر شدید ردِ عمل آنے کے بعد بیکن ہاؤس تو کیا اس جیسا کوئی نجی تعلیمی ادارہ کسی مقامی زبان کو بیہودہ قرار دینے کی جسارت نہیں کرے گا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایلیٹ سکولز ہی ثقافتی احیا کے راستے میں رُکاوٹ بنے ہوئے ہیں؟ کیا ان کے باز آجانے سے ثقافتی احیا کی منزل آ جائے گی؟

ان سوالات کا جواب ’نفی ‘ میں ہے کیونکہ ثقافت ایک پیکج اور زبان اس کا ایک اہم حصہ ہے۔ ثقافت کسی گروہ کی قوتِ تخلیق اورانفرادی جمالیاتیواردات سے جڑی شناخت کا اظہارہے۔ثقافت کا تعلق کسی نظریے سے نہیں بلکہ جمالیات ہوتا ہے۔ثقافت کے سوال کو نظر انداز کرکے الگ سے زبان کو بچانا بے سود ہوتا ہے کیونکہ ’ ثقافت کسی گروہ کی نظریاتی نہیں بلکہ جمالیاتی شناخت ہے جس کا مقصد لطف دینا ہے ‘ (ایڈورڈ ساید، کلچر اینڈ ایمپریلزم، ص xii )

ثقافت کے سوال پر وسیع تناظر میں غور نے کے بعد اگر ایمانداری سے غور کیا جائے تو مقامی جمالیات (فنون لطیفہ ) شناخت اور قوتِ تخلیق کو ایلیٹ سکولز کی بجائے کوئی اور تباہ کررہا ہے۔ دوستوں کی نظر بیکن ہاؤس پر اس لئے اٹک کر رہ گئی ہے کیونکہ یہ سکول ثقافتی تخریب کا کھیل کھیلنے والوں کی نسبت آسان شکار ہیں۔ ان کا قصور محض یہ ہے کہ انہیں آسانی سے تنقید کا نشانہ بنایا جاسکتا ہےمگر مقامی شناخت اور فنون کو مٹی میں ملانے والے تنقید سے بالا تر ہیں کیونکہ وہ یہ سب نیکی کی بُکل میں کررہے ہیں۔

اس سے قبل کہ ہم ثقافتی تخریب پر بات کریں کچھ باتوں کا سمجھ لینا اور ایک حالیہ نظری مغالطے پر بات کرنا ضروری ہے۔

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان میں مذہب پرست تہذیبی نرگسیت کا شکار ہیں تاہم یہ خیال درست نہیں۔ نرگسی خود پرستی کا استعارہ یونانی دیومائی کردار نارسس اور نارسس کا استعارہ نرگس کا پھول ہے۔ یہ پھول اس لئے خود پرستی کا استعارہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ ندی کے کنارے پانی میں ہر وقت اپنا عکس دیکھتا رہتا ہے۔ نرگس نہ صرف اپنا چہرہ اپناتا ہے بلکہ اُس کے عشق میں بھی گرفتار ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی اپنا حقیقی چہرہ نہ دیکھنا چاہے اور اصل چہرہ دکھانے والوں کا دشمن ہوجائے تو ایسا شخص نرگسیت کا نہ نہیں نرگسی بحران کا شکار ہوگا۔ان دنوں میں فرق یہ ہے کہ نرگسیت کا شکار کبھی اپنا چہرہ مسخ نہیں کرتا اور نرگسی بحران کا شکار اُسے مسخ کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

نرگسی بحران کا شکار فرد بھی ہوسکتا ہے اور معاشرے بھی۔ ہمارے معاشرے کے اس بحران کا شکار ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہمارے نام اور ٹوبہ ٹیک سنکھ کا وہ ارائیں یا بٹ ہے جو اپنے آپ کو اس لئے عربی النسل کہتا ہے کیونکہ اُسے احساس ہے کہ یہاں مقامی نہیں صرف وہی لائق تکریم ہوگا جو عرب حملہ آوروں کے ساتھ آیا تھا۔اس بحران کے دُوسرے بڑے ثبوت کے لئے آپ کو ٹوبہ ٹیک سنگھ جانے کی بھی ضرورت نہیں بس بچوں کے ناموں پر غور فرمانا کافی ہے۔

کبھی ہمارےبچوں کے نام بھی ہمارے تھے مگرگذشتہ کئی عشروں سے مقامی ناموں کی جگہ تیزی عرب نام لے رہے ہیں۔ثقافتی تخریب میں مصروف نرگسی بحران میں مبتلا لوگوں نے ان ناموں کی مانگ اس قدر بڑھا دی گئی ہے کہ فٹ پاتھ پر پرانی کتب بیچنے والے سے لے کر ڈائیوو کے جگمگاتے ٹرمینلز پر کوئی ڈھنگ کی کتاب ملے نہ ملے بچوں کے عربی ناموں کو ’اسلامی ‘ ناموں کی پڑیا میں فروخت کرنے والی کتب ضرور مل جاتی ہیں۔ یہ اسی بحران کا نتیجہ ہے کہ اب سرائیکی وسیب میں بھی ہماری ملاقات سانول، سارنگ، پنہل اور ڈھولن نامی بچے سے نہیں پرائے جنگی کرداروں سے ہوتی ہے۔یہ نرگسی بحران ہے کا ہی ثبوت ہے کہ ہمارے لوگ اپنے بچوں کو اصلی مقامی کی بجائے نقلی عرب بنانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے چہرے اور اپنی شناخت سے بھاگ رہے ہیں۔

یاد رہے اگر ثقافت بچانی ہے تو اُس ثقافت کو اپنانے والے لوگوں کے بغیر نہیں بچائی جاسکتی۔ اگر ثقافت بچانی ہو تو شناخت بچائیں اور اگر شناخت بچانی ہے تو اپنے بچوں کو اپنے نام دیں پھر اپنی تاریخ وہ خود کھوج لیں گے۔ شناخت بچانے کے لئے لوگوں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ جن ناموں کو اسلامی قرار دیا جارہا ہے وہ عربوں کے نام ہیں اور ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ عربوں کے نام ظہورِ اسلام سے پہلے بھی وہی تھے اور بعد میں بھی وہی رہے۔لیکن ہمارے نام کیوں بدلے جارہے ہیں؟ ہمارے رنگا رنگ لباس کیوں بدلے جارہے ہیں؟ اس لئے کہ ہم اپنے بڑوں کو نہ پہچان سکیں؟ اس لئے کہ ہم اپنی حقیقی تاریخ رد کرکے پرائی تاریخ اپنائیں؟ پرائی فتوحات پر جشن منائیں اور اپنے بچوں کو پرائے بیانیوں کی حفاظت میں لڑی جانے والی جنگوں کے ایندھن کے طور پر پالیں؟

شناخت بچانے نکلیں ہیں تو یہ سوالات ضرور مدِ نظر رکھیں اور شناختی تخریب کے خوفناک عمل کی ایک اور تصویر دیکھیں۔

عام طور پر ضیا الحق کے دور سے شروع ہونے والی مہم کو ’اسلام آئزیشن‘ کہا جاتا ہے لیکن یہ دراصل مذہب کے پردے میں ثقافتی تخریب اور ’سعودآئزیشن ‘ کا عمل تھا جس میں بے رنگ بدوی ثقافت کو مذہب کی پڑیا میں لپیٹ کر پیش کیا گیا۔جس عرب ثقافت کو مذہب کا نام دیا گیا ہے وہ در اصل سعودی حکمرانوں کی مسلط کردہ اور آتش گیر مادے سے کمائی ہوئی دولت کی مدد سے پھیلایا ہوا تصنع ہے جس کے خلاف خود عرب باشندے مزاحمت کررہے ہیں۔

اسی کی دہائی میں پروان چڑھنے والے جانتے ہیں کہ بنیاد پرست عناصر نے مقامی ثقافت کو ہندو ثقافت سے ملتی جلتی ثقافت قرار دے کر لوگوں کو اُن کی مقامی شناخت پر شرمندہ کیا اورپاکستان میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد ہندو دشمنی کی بنیاد پر اپنی شناخت سے دستبردار ہوگئی۔ اب سادات کے علاوہ ملک کے ننانوے فی صد سے زائد لوگوں کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے شجرہ نسب پر فخر کرسکیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسے گروہ کی زبان کی الگ سے حفاظت کیسے کی جاسکتی ہے جو پیچھے مڑکر اپنی تاریخ تو کیا شجرہ نسب بھی نہ دیکھ سکتا ہو؟ ایسا گروہ دُوسروں کا افسانہ سنے گا یا پھر اپنا قصہ؟

زبان کے ساتھ اسے بولنے والوں کی تاریخ جڑی ہوتی ہے۔اگر اس تاریخ کی کھوج حرام قرار دے دی جائے تو زبان الگ سے نہیں بچائی جاسکتی۔ دوستوں کو غور کرنا چاہیے کہ یہ تاریخ بیکن ہاؤس جیسے سکولوں نے حرام نہیں کی۔ حلال حرام کا ٹھیکہ کسی اور کے پاس ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ ہم نے ثقافت پر بات کرتے ہوئے اس کی جمالیاتی رُوح کی طرف اشارہ کیا تھا کیونکہ زبان کی محض تاریخ ہی نہیں ہوتی بلکہ زبان ماورائے تاریخ جمالیاتی رنگوں سے مل کر بھی بنتی ہے۔

زبان میں جھُمر، لڈی اور خٹک کا بہاؤ ہوتا ہے۔اس کے سینے میں ڈھول، ڈھولے اور ڈھولک کی تھاپ دھڑکتی ہے۔اس میں گجرے، چنری، مُساگ اور دنداسے کا رنگ ہوتا ہے۔اگر زبان اس رنگ اور اس بہاؤ اور ردھم سے محروم کردی جائے تو افکار میں لکنت آ جاتی ہے اور خیالات توتلے ہوجاتے ہیں۔ تخیل کے پر جھڑ جاتے ہیں اور تصور کی آنکھ میں موتیا اُتر آتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ جب آپ کا معاشرہ جمالیاتی اظہار کو گناہ سمجھتا ہو تو زبان میں یہ رنگ اور یہ آہنگ کہاں سے آئے گا؟ آپ اس رنگ و آہنگ کی عصمت کہیں لٹتی دیکھ رہے ہیں اور جلوس کہیں نکال رہے ہیں۔ آپ کی زُبانوں کو الہام کا تقدس بخشنے والوں کو کافر مشرک کہا جارہا ہے تو آپ زبان بچا کر آپ کیا کریں گے؟ آپ عرب استعمار کے ہم زبان ہوکر خود کو عجم کہتے ہیں تو آپ بات کیسے کریں گے اور اگر آپ بات نہیں کرسکتے تو زبان کو بچا کر کیا کریں گے؟

ہمارے راگ ہمارے عظیم تخلیق کاروں کی مہین تخلیقات تھیں۔ ہم اپنے راگوں کی مدد سے اپنے دُکھ کو رزمیہ بنا کر گاتے اور وجد میں آجایا کرتے تھے لیکن کسی نے ہماری بھیروی اور مالکوس کا مذاق اڑایا۔ کسی نے دیپک بجھا دیا اور ملہار کا تمسخر اُڑوایا۔ ہواؤں میں گرہیں لگانے والے فنکاروں سے کان پکڑا ئے اور انہیں میراثی اور کنجر کہہ کر گالی دی۔

ان راگ راگنوں کی عزت لٹوا کر آپ اپنی زبان سے کیا کام لینا چاہیں گے؟ یاد رکھیں۔ اگر لوگ قوتِ تخلیق، جمالیات اور اس سے جڑی شناخت پر شرمندہ رہے تو آپ فنکارانہ اظہار تو دُور کی بات بولنے کے لئے بھی زبان بھی نہیں بچا پائیں گے۔ ثقافت پیکج ہے۔ آپ زبان کو ثقافت سے الگ سے نہیں بچا سکتے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments