فیض صاحب نے پنجابی میں شاعری کیوں نہیں کی ؟


\"khizer’ہم سب‘ میں وقار احمد ملک نے اپنے کالم ’َمینوں پاگل پن درکار!‘ میں پنجابی زبان اور ثقافت کا نوحہ لکھ کر ہم جیسوں کے دل کے تار ہلا دئیے۔ ایسے لگا کہ جیسے کسی نے میرے دل کی بات کو زباں دے دی۔ اس میں تو شک نہیں کہ ظلمت کی ضیا نے اس ملک کو بقول ہمارے بزرگ دوست کرم الہی صاحب ’خوش ہونا منع…. ستان‘ بنا دیا۔ ہر اس رسم اور رواج کو جو کسی انسان کے لئے باعث مسرت بننے کا ہلکا سا بھی امکان رکھتا ہو، دیس نکالا دے دیا اور اس میں ظاہر ہے پنجابی ثقافت کی کئی خوبصورت رسمیں بھی آتی تھیں۔ مگر بحیثیت مجموعی پنجابی زبان و ثقافت کونظر انداز کرنے میں سب سے زیادہ قصور خود پنجابیوں کا ہے۔ جن کو نہ جانے کس حکیم نے ترقی کا واحد نسخہ اپنی ماں جائی بولی زبان اور ثقافت سے منہ موڑنے میں پنہاں بتا دیا ہے۔ حالانکہ جدید تحقق نے ثابت کر دیا ہے کہ بچے اپنی مادری زبان میں زیادہ بہتر طریقے سے تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرتے ہیں اور یہ بھی کہ ایک سے زیادہ زبانوں کا جاننا بچوں کی ذہنی نشو و نما میں بہترین کردار ادا کرتا ہے

 فیض صاحب سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ نے اپنی شاعری کے لئے پنجابی کی بجائے اردو کا انتخاب کیوں کیا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ میں نے اردو زبان کو اس لیے چنا اپنی شاعری کے لئے کہ اگر ساری زندگی لکھتا رہا تو شاید غالب اور اقبال جیسے شعرا کی صف میں اپنا کچھ مقام بنا سکوں مگر پنجابی زبان میں جو کچھ وارث شاہ، بلھے شاہ اور بابا فرید لکھ گئے ہیں ایک کیا اپنے دو چار جنموں بھی اپنی شاعری سے ان کے قدموں کی خاک بھی نہیں چھو سکتا۔ پنجابی زبان کی واماندگی سے سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ان بزرگ ہستیوں کے عظیم کلام سے باقی دنیا کو تو کیا ہم اپنی اولادوں کو بھی فیض یاب نہیں کر سکتے۔ ہمارے ہاں مذہبی انتہا پسندی کی جو وبا پھیلی ہوئی ہے اس کا علاج بھی ان بزرگ ہستیوں کے عارفانہ کلام میں ہے

وقار ملک کی تحریر نہ صرف دل کے قریب لگی بلکہ وہ خود بھی اپنے گرائیں نکلے اور اپنے ہمزاد لگے۔ ان کے تحریر کردہ ماہیے ’ اڈا تلہ گنگ دا ، کولوں پئی لگدی آ بس ماہیا‘ نے ہمارا ڈاک خانہ ملا دیا۔ کہ ہمارے سکول کے زمانے تک تو تلہ گنگ اڈا سے چلنے والی سب سے لمبے روٹ والی بس تو ہمارے شہر کیمبل پور (اٹک) ہی تو آتی تھی کیونکہ تلہ گنگ بھی تو ہمارے ضلع کی ہی تحصیل تھی۔ ’ کوئی چولہ بر والا ….سدا آباد رہوے ضلع کیمبل پور والا ‘۔ ہم اپنے ہائی سکول بسال سے بھاگ کر کیمبل پورفلم دیکھنے اسی بس پر تو جاتے تھے۔ اسی حوالے سے یاد آیا کہ ایک دن سکول سے نکلنے میں دیر ہو گئی اور بس پر سوار ہوتے یہ خدشہ ہوا کہ میٹنی شو تک شاید نہ پہنچ پائیں۔ تو اس کی ترکیب یہ نکالی کہ جنتی استاد سے کہا کہ ہمیں شہر کسی جنازے میں پہنچنا ہے اور وہ تین بجے ہے اس لیے استاد جی ذرا گڈی چھک پٹ کے۔ جنتی استاد نے بالکل ایسا ہی کیا اور ہمیں اڑاتا ہوا شہر لے پہنچا۔ محمود محل سینما عین مین روڈ پر ہی تھا جب بس وہاں پہنچی تو ہم نے شور مچا دیا کہ استاد جی روکیں۔ جب سواریوں کو اصل صورت حال کا اندازہ ہوا تو کچھ نے تو شاید برا منایا ہو مگر زیادہ لوگوں کے قہقہے سنائی دئیے کہ یہ سکولی لڑکے بھی بڑے بدمعاش ہوتے ہیں۔ وقار ملک صاحب ! مسئلہ صرف گھڑولی جیسی خوشی کی خوبصورت رسموں کی بندش تک محدود نہیں ہے۔ ہماری اس شرارت کو آج کے تناظر میں دیکھیں۔ آج کے بسوں میں سے اتار کر شناخت کر کے لوگوں کو گولیوں سے بھوننے والے لوگ ہوتے تو ہماری اس حرکت پر نہ صرف ہمیں بلکہ اس شیطانوں کی پناہ گاہ سینما کو بھی پتہ نہیں کیا کر دیتے۔ حالانکہ اس وقت تک ظلمت کی ضیا براجمان ہو چکی تھی مگر اپنے پنجے اس قدر زیادہ گاڑے نہیں تھے۔

بارشوں میں پتنگیں اڑایا کرو

زندگی کیا ہے خود ہی سمجھ جاو ¿ گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments