لال شہباز قلندر سے دشمنی کیوں ہے؟


\"\"ایک خون آشام تاریخ ہے جس کی ابتدا ضیاءالحق کے دور سے ہوتی ہے۔ کہانی کی بنت میں تار ایسے پروئے گئے کہ سوویت یونین کا اصل ہدف صرف افغانستان نہیں ہے بلکہ اس کا اصل ہدف گرم پانیوں کا حصول ہے۔ امریکہ کی ایما پر پاکستان نے مذہبی بنیادوں پر نجی جنگجوﺅں کو منظم کر کے نجی جہاد کی داغ بیل ڈال دی ۔ اس کارخیر میں سعودی عرب نے بھی دنیا بھر سے جنگجو جمع کر کے افغانستان میں جھونک دیئے۔ امریکی ڈالر اور اسلحہ ، سعودی مجاہد اور ریال ، پاکستانی مذہبی جماعتوں کے کارکن اور نجی طور پر بھرتی کئے گئے جنگجوﺅں سے جنگ کا آغاز کیا گیا۔ افغانستان سے مذہبی اور نیم مذہبی قبائلی اور سیاسی عمائدین اور جنگی سرداروں کو اسلام آباد، ریاض اور واشنگٹن میں اہمیت حاصل ہو گئی۔ روپیہ، ڈالر اور ریال کے بوریوں کا منہ کھولا گیا اور یوں اس جنگ کے نتیجے میں سویت یونین تاراج ہوا۔
جس طرح ہر جنگ کے کچھ نتائج نکلتے ہیں ویسے ہی اس جنگ کے بھی کچھ نتائج نکلے۔مجاہدین کے نزدیک یہ کفر کی شکست تھی۔ پاکستان کے نزدیک یہ سرخ پانیوں تک بڑھنے والے ٹاپوں کی شکست تھی۔ جبکہ امریکہ نے اپنے سب سے بڑے حریف سویت یونین کو شکست دے دی اور اب دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ اس جنگ کے کچھ نتائج مگراور بھی نکلے تھے ۔ افغانستان کھنڈر میں تبدیل ہو گیا۔بیس لاکھ انسان لقمہ اجل بن گئے۔ تیس لاکھ لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے اور پرائے ممالک میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ ہزاروںا پاہج ہو گئے۔ تخت کابل کے لئے ایک نہ ختم ہونے لڑائی شروع ہو گئی۔ حتی کہ کعبے میں قرآن پر حلف اٹھا کر امن کی ضمانت دینے والے فغانستان پہنچ کر ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہے۔چار عشرے ہونے کو آئے مگرافغانستان کی زمین پرخون کے دریا ابھی تک بہنے بند نہ ہوئے۔ پاکستان میں گلی گلی کلاشنکوف سرکنڈوں کی طرح اگ آئے۔جن نجی جنگجوﺅں کو پاکستان سے بھیجا گیا تھا وہ بیکار ہو گئے۔ اسلحہ، ڈالر اور ریال کی آمد ختم ہو گئی۔ اس بیکاری نے ان جنگجوﺅں کو افغانستان میں جاری خانہ جنگی کا حصہ بنا دیا کہ ان کو کرنے کا یہی کام آتا تھا۔ ازبک، چیچن اور القاعدہ کے جنگجوﺅں نے قبائلی علاقوں میں محفوظ پناگاہیں بنا لیں۔ پھر افغانستان میں طالبان کا ظہور کا ہواتو یہی لوگ اب مجاہد کے بجائے طالب کہلائے جانے لگے۔ ان طالبان کی بھی پاکستان اور سعودی عرب نے امداد جاری رکھی۔ ان کی حکومت تسلیم کرنے والے بھی پہلے یہی دو ممالک تھے۔طالبان کے پانچ سالہ دور کی تاریخ تو ابھی کل کی تاریخ ہے۔ انہی طالبان کے بطن سے تحریک طالبان پاکستان نے جنم لیا۔
احباب جتنا بھی اچھے اور برے طالبان کو الگ کر لیں مگر حقیقت یہی ہے کہ ٹی ٹی پی کے ڈانڈے افغان طالبان سے ہی ملتے ہیں۔ مالاکنڈ میں تحریک نفاذ شریعت محمدی کا آغاز کرنے والے صوفی محمد سے لے کر نیک محمد وزیر تک ابتدائی لوگوں نے افغان جہاد میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ 2004 میں نیک محمد کے ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد بیت اللہ محسود کو افغان طالبان نے محسود علاقے کے لئے ملا عمر کا گورنر نامزد کر دیا۔ دسمبر 2007 میں مجاہدین یا طالبان کے 13 مختلف تنظیموں نے بیت اللہ محسود کی سربراہی میں ٹی ٹی پی کی بنیاد رکھی توبیت اللہ محسود نے سب سے پہلے ملا عمر کی امارت تسلیم کر لی۔ بیت اللہ محسود کے نائب امیر منتخب کئے جانے والے حافظ گل بہادر بھی پہلے روس کے خلاف مجاہدین کے ساتھ رہے تھے۔ اس کے بعد افغان طالبان کے ساتھ جنگ میں شامل تھے۔2006 میں جنوبی وزیرستان میں شریعت کے نفاذ کا اعلان کرنے والے مولوی نذیر احمد جب تک افغانی شہری تھے تو گلبدین کے حزب اسلامی کے ممبر تھے۔ پھر افغانی طالبان کا حصہ بنے۔ طالبان کی حکومت کے خاتمے پر وزیرستان میں آباد ہو گئے۔ جنوبی وزیرستان میں نفاذ شریعت کا اعلان مولوی نذیر نے افغان کمانڈروں ملا داد اللہ اور سراج الدین حقانی کی منظوری سے کیا تھا۔ولی الرحمن اور فضل اللہ بھی افغان طالبان کا حصہ رہے ۔ان کی فکر ایک ہے۔ ان کا بیانیہ ایک ہے۔
مدعا یہ ہے کہ افغان طالبان کی جنگ ہویا پاکستانی طالبان کی جنگ، یہ دراصل ایک مذہبی بیانیے کی بنیاد پر لڑی جا رہی ہے۔ کچھ نظریات ہیں جو انہوں نے قائم کئے ہیں اور جن کو یہ نہ صرف درست سمجھتے ہیں بلکہ خدائی حکم سمجھتے ہیں۔ سب سے پہلے ان کے سامنے نظام کا معاملہ ہے۔ ان نزدیک کسی مسلم ملک کا نظام مملکت صرف شریعت ہو سکتی ہے۔ شریعت نافذ کرنا یہ اپنا فرض سمجھتے ہیں اور اس کے لئے جہاد و قتال لازم سمجھتے ہیں۔ اب شریعت کے مقابلے میں جو بھی نظام کھڑا ہے چاہے وہ جمہوریت ہو یا سوشلزم، یہ باطل اور کفری نظام قرار پاتا ہے۔ اس نظام کے چلانے والے، اس کی حفاظت کرنے والے اور اس کی حمایت کرنے والے ان کے نزدیک باطل کے ساتھی اور آلہ کار ہیں۔ اس لئے ان کے خلاف بھی جہاد جائز ہے۔ ان کے سامنے دوسرا کام کرنے کا یہ ہے کہ سماج سے کفر، شرک اور ارتداد کا خاتمہ کریں۔مسلم سماج میں کفر، شرک اور ارتداد میں جو بھی لوگ ملوث ہوں گے ان کا خاتمہ ضروری ہے۔ ان کے نزدیک مسلم ملک میں کافر کی حیثیت ذمی کی ہو گی۔ ارتداد کی سزا قتل ہے اور شرک کا خاتمہ لازم ہے۔اس طویل کج بیانی کا مقصد دراصل’ شرک کے خاتمے‘ کے موضوع تک پہنچنا تھا۔
سعودی عرب میں اس وقت محمد بن عبدالوہاب کے پیروکاروں کی حکومت ہے۔ محمد بن عبدالوہاب کے نظریات اس وقت زیر بحث نہیں ہیں۔ ایک نکتہ مگر واضح کرنے کا ہے کہ ان کی تحریک کا زور شرک کا خاتمے پر زیادہ تھا۔یہ احباب، پیر، فقیر، تعویذ اور مزار کو شرک کی بنیاد سمجھتے ہیں۔کسی فنی بحث سے احتراز کرتے ہوئے سادہ الفاظ میں اگر بیان کیا جائے تومذہبی پیراڈائم کے وہابی فکر میں شرک کے خاتمے کا جو نکتہ نظر ہے، وہ مذہب کے نظریہ علم ( epistemology ) میں احکام و روایات کو سطحی انداز( superficially ) سے دیکھنے سے وجود میں آیا ہے۔اس فکر نے شرک اور تہذیبی روایات کو خلط ملط کر دیا۔اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ یہ ذہنیت تہذیبی اور ثقافتی اقدار سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتی چلی گئی۔ انہوں نے شرک و بدعت کے نام پر تمام ثقافتی اور تہذیبی روایات کو رد کر دیا۔اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہو گی کہ اس ذہنیت نے مکہ اور مدینہ کے تمام تہذیبی ورثے کو بھی مکمل طور پر تباہ کر دیا جو تمام مسلم امہ کا مشترکہ تہذیبی ورثہ تھا۔ آپ کو مکہ اور مدینہ میں صحابہ کرام کے دور کا کوئی تاریخی ورثہ نظر نہیں آئے گا۔ اس بات کی وضاحت کسی عالم نے ایک مشہور جملے سے کی تھی کہ، ’وہابی فکر نے عرب سے شرک مٹاتے مٹاتے پوری تاریخ مٹا دی‘۔ جن لوگوں نے جلیل القدر صحابہ کرام کے مزارات کے نشان مٹادیئے ، ان کے گھر، محلے اور سامان مٹا دیئے وہ ہمارے مزاروں کو کیسے بخش سکتے ہیں۔
عرب جنگجووں کے افغانستان آمد کے ساتھ اس خطے میں عربی ریال بھی آنے لگے اور کثیر تعداد میں عربی امداد سے مدارس قائم ہونے لگے۔ یہی ذہنیت ہمارے یہاں بھی مختلف فرقوں نے درآمد کر لی۔ اسی فکر کی بنیاد پر افغانستان میں بدھا کے مجسمے مسمار کئے گئے۔ اسی فکر کی بنیاد پر داعش نے عراق میں مزارات مسمار کیے۔ اسی فکر کی بنیاد پر رحمان بابا کے مزار کو گرایا گیا۔ اسی فکر کی بنیاد پر عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر دھماکے کئے گئے۔اور اب لال شہباز قلندر کے مزار پر دھماکہ کیا گیا۔
ادھرہند آریائی سماج میںدھمال، قوالی اور درگارہ، مزار پر پھول اور چادر چڑھانا مذہبی سے زیادہ تہذیبی روایتیں ہیں۔ ہند آریائی سماج میں دس محرم کے جلوس کے راستے میں ہندو، سکھ اور مسلمان سنی سبیلیں لگاتے رہے ہیں۔ خواجہ نظام الدین اولیا کے مزار پر ہندو، سکھ اور مسیحی پھول اور چادر آج تک چڑھاتے ہیں۔ ننکانہ صاحب میں گرو نانک کے عرس میں مسلمان آج بھی شرکت کرتے ہیں۔ یہ مذہبی نہیں ہماری تہذیبی روایتیں ہیں۔ دہشت گردوں نے ہماری تہذیبی روایات پر وار کیا ہے۔ اس سے پہلے دہشت گرد ہمارے ملک، نظام ، سماجی ڈھانچے اور عقیدے کے خلاف لڑتے رہے ۔ ان انہوں نے تہذیب و ثقافت کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا۔ یہ جنگ بہت طویل اور صبر آزماہے۔ اس کا خاتمہ کچھ دہشت گرد پکڑنے یامارنے سے نہیں ہو نے والا۔ اس کے لئے سماج میں موجود تمام مذہبی طبقات کو ایک ساتھ بٹھا کر اس بیانیے کا متبادل بیانیہ سامنے لانا ہو گا اور اس کی مدتوں تبلیغ کرنی پڑے گی۔سماج میں موجود اس گروہی جہاد کے ہمدردوں ، ان کے عذرخواہوں اور ان کے استادوں کی جواب دہی کرنی پڑے گی۔مشکل یہ ہے کہ قومی بیانیہ ابھی تک اچھے برے میں پھنسا ہے ۔ آسان حل یہ ہے کہ ہر حملے کے بعد کسی دشمن ملک کی ایجنسی کا نام لیا جائے تاکہ خود کو بری الذمہ کیا جا سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دھماکوں میں دشمن ممالک کی ایجنسیاں کسی نہ کسی سطح پر ضرور ملوث ہوں گی مگر جب تک آپ تعین کے ساتھ قوم کو یہ نہیں بتاتے کہ دشمن ممالک نے کن لوگوں کو استعمال کو کیا ہے؟ استعمال ہونے والوں کا اپنا بیانیہ کیا ہے؟ کیا استعمال ہونے والے صرف پیسے کے لئے خودکش حملے کر رہے ہیں یا اس کے پیچھے ایک پورا مذہبی بیانیہ موجود ہے؟ تب تک آپ لکیر پیٹتے رہیں، ہم ماتم مناتے رہیں گے۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments