سائنس سہیل کی سہیلی کیسے بن گئی؟


میں بچپن میں پشاور شہر کے باہر چارسدہ روڈ پر عید گاہ کے پاس رہتا تھا۔ سال میں دو دن سینکڑوں لوگ عید کی نماز پڑھنے آتے تھے اور باقی سارا سال ہم اس عید گاہ کے باغ میں فٹ بال کھیلتے تھے۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ نماز پڑھ رہے ہیں ۔ میں نے ایک بابا جی سے پوچھا کہ یہ تو عید کا دن نہیں ہے تو یہ لوگ عید گاہ میں نماز کیوں پڑھ رہے ہیں۔ باباجی نے مجھے بتایا کہ کئی ہفتوں سے دھوپ کی شدت سے لوگ تنگ آ چکے ہیں اس لیے بارش کی دعا مانگ رہے ہیں

کیا نماز پڑھنے یا دعا مانگنے سے بارش ہو سکتی ہے؟ زندگی میں پہلی دفعہ میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا۔ میں کئی دن تک اس کا جواب تلاش کرتا رہا اور جب جواب نہ پایا تو میں نے اپنے سائنس کے ٹیچر سے وہ سوال پوچھا۔ میرے استاد نے کہا ’سہیل بیٹا بارش دھوپ اور طوفان سب قوانینِ فطرت کے طابع ہیں۔ اور وہ قوانین نمازوں اور دعائوں سے نہیں بدلتے‘۔

جب کئی ہفتے گزر گئے اور بارش نہ ہوئی تو میں بابا جی کے پاس دوبارہ گیا اور پوچھا کہ نماز اور دعا کے باوجود کیوں بارش نہیں ہوئی تو بابا جی نے کہا ’دعا مانگنے والے اچھے مسلمان نہیں تھے‘۔

بچپن کے اس واقعہ سے میرا سائنس سے تعارف ہوا اور آہستہ آہستہ میں نے سائنس سے دوستی کر لی اور وہ سہیل کی سہیلی بن گئی۔

ٹھٹھہ (اندرون سندھ) میں واقع ایک روحانی علاج گاہ

سائنس نے مجھے بتایا کہ کئی سو برس سے سائنسدان قوانین فطرت کے راز افشا کر رہے ہیں تا کہ جان سکیں کہ سورج اور چاند کو گرہن کیسے لگتا ہے تارے دن کو کیوں نظر نہیں آتے اور سورج غروب ہونے کے بعد کہاں چلا جاتا ہے۔

جب میں میڈیکل کالج میں گیا تو سائنس نے مجھے بتایا کہ انسانی بیماریوں کی تشخیص اور علاج کیسے کیا جاتا ہے۔ مجھے یہ جان کر حیرت اور خوشی ہوئی کہ ایک زمانے میں حکیم ایک خاص قسم کے بخار کا جو 48 گھنٹوں کے بعد چڑھتا ہے ایک جڑی بوٹی سے علاج کرتے تھے۔ سائنسدانوں نے اپنی تحقیق سے جانا کہ وہ بخار جو اب ملیریا کہلاتا ہے ایک مادہ anopheles  مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے جو مریض کے خون سے malarial parasite لے کر صحتمند انسان کے جسم میں داخل کر کے اسے بیمار کر دیتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی جانا کہ اس خاص جڑی بوٹی میں ایک دوا ہوتی ہے جو اب کونین کہلاتی ہے۔ اس طرح سائنسدانوں نے ملیریا کی سائنسی توجیہہ اور علاج دریافت کیا۔

طب کی سائنس نے ہماری جسمانی بیماریوں کے علاج میں مدد یے۔ اب ہم antibiotics سے infections کا اور انسولین سے diabetes  کا علاج کر کے ہر سال سینکڑوں ہزاروں انسانوں کی زندگی بچا سکتے ہیں۔

روحانی علاج گاہ میں طریقہ علاج کی ایک جھلک

جب میں نفسیات کا طالب علم بنا تو سائنس نے نفسیاتی مسائل کے مریضوں کے علاج میں میری مدد کی۔ سائنس نے مجھے بتایا کہ ڈیپریشن کی بیماری کو سمجھنے میں تین طرح کے عوامل اہم ہوتے ہیں۔

طبعی عوامل۔ بعض مریضوں میں پیدائشی طور پر ڈیپریشن کی بیماری کے امکانات ہوتے ہیں کیونکہ ان کے خاندان میں وہ بیماری پائی جاتی ہے اور وہ اس سے موروثی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔

نفسیاتی عوامل۔ جن لوگوں کی شخصیت مثالیت پسند ہوتی ہے وہ اپنے idealism and perfectionism کی وجہ سے زندگی کے حقائق سے مایوس ہو کر ڈیپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں

سماجی عوامل۔ جب کسی انسان کا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے یا اس کی شادی ٹوٹ جاتی ہے تو وہ اس دکھ سے ڈیپریشن کا شکار ہو سکتا ہے۔

انسانی نفسیات کی سائنس کی وجہ سے اب ہم ڈیپریشن کے مریضوں کی تشخیص بھی کر سکتے ہیں اور دوائوں اور سائیکوتھیرپی سے ان کا علاج بھی۔

پچھلی چند صدیوں میں جس طرح حیاتیاتی سائنسدانوں نے جسمانی بیماریوں کی تشخیص اور علاج میں اور نفسیاتی سائنسدانوں نے نفسیاتی مسائل کی تشخیص اور علاج میں ہماری مدد کی اسی طرح سماجی سائنسدانوں نے سماجی مسائل کی تشخیص اور علاج میں ہماری رہنمائی کی ہے۔

جن افراد اور قوموں نے سائنس کو اپنا دوست بنایا انہوں نے اپنے انفرادی اور اجتماعی مسائل کے حل تلاش کر کے ایک بہتر زندگی گزارنے کی کوشش کی ہے۔

سائنسی رویے کے مقابلے میں جن لوگوں نے مذہبی رویہ اختیار کیا اور یہ سمجھا کہ وہ اس لیے دکھی ہیں کہ وہ خدا کے احکام کی نافرمانی کرتے ہیں اور گناہ کرتے ہیں تو انہوں نے اس مذہبی تشخیص کا علاج یہ نکالا کہ اگر ہم گناہوں سے توبہ کر لیں نماز پڑھیں دعائیں مانگیں تو ہماری جسمانی اور ذہنی بیماریاں ٹھیک ہو جائیں گی۔ ایسے لوگ ڈیپریشن کا علاج کروانے ماہرِ نفسیات کے پاس اور زیابیطس کا علاج کروانے ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے کسی پیر فقیر کے پاس جاتے ہیں اور گنڈا تعویز سے علاج کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔

جب میں پشاور کے زنانہ ہسپتال میں کام کرتا تھا تو میری کئی ایسی عورتوں سے ملاقات ہوئی جن کے ہاں بچے پیدا نہیں ہوتے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ infertility clinic میں آنے سے پہلے وہ کئی مزاروں پر جا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر دعائیں کروا چکی تھیں۔

جب ہم سائنس اور طب کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ HIPPOCRATES وہ پہلے یونانی طبیب تھے جنہوں نے طب کو مذہب سے دور کرکے سائنس کے قریب لانے کی کوشش کی۔ بقراط نے ہمیں بتایا کہ انسان کی بیماری اور صحت کے راز جاننے کے لیے ہمیں SUPERNATURAL اور مافوق الفطرت اعتقادات کی بجائے قوانینِ فطرت پر غور کرنا چاہیے۔ بقراط کے کچھ مریض ایسے تھے جو کہتے تھے کہ وہ گناہوں کی سزا کی وجہ سے بیمار ہوئے ہیں اور خدا ان کو سزا دے رہے ہیں۔ وہ اپنے خدائوں کے آگے دعائیں مانگتے تھے اور قربانیاں دیتے تھے۔ بعض کا ایمان تھا کہ ان پر کسی جن یا بھوت کا اثر ہے۔ بقراط نے انہیں بتایا کہ ان کی جسمانی اور ذہنی بیماریوں کا گناہوں اور دعائوں‘ جنوں اور بھوتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے اپنے مریضوں کو بتایا کہ وہ دن کی متوازن خوراک‘ رات کی گہری نیند اور روزانہ ورزش سے صحتمند زندگی گزار سکتے ہیں۔ بقراط اپنی سائنسی سوچ کی وجہ سے FATHER OF MEDICINE کہلاتے ہیں۔ بقراط کی سائنسی روایت کو جالینوس‘ رازی اور بو علی سینا نے آگے بڑھایا۔ وہ مسلمانوں کی تاریخ کا سنہری دور تھا جب مسلمانوں نے سائنس اور طب میں بہت تحقیق کی۔ ان کی کتابیں کئی سو برس تک ساری دنیا کی درسگاہوں میں پڑھائی جاتی رہیں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں نے فاربی‘ رازی‘ بو علی سینا اور ابن رشد کی سائنسی روایت سے کنارہ کشی اختیار کر کے دوبارہ فرسودہ مذہبی روایات میں پناہ ڈھونڈی اور دوائوں کو چھوڑ کر دعائوں پر بھروسہ کرنا شروع کر دیا۔وہ سائنسی تحقیقات سے زیادہ پیروں فقیروں کی کرامات کے معتقد ہو گئے۔

چونکہ میں ایک ڈاکٹر اور ایک نفسیاتی معالج ہوں اور سائنس کو اپنی سہیلی سمجھتا ہوں اس لیے سائنس میری مدد کرتی ہے کہ میں اپنے مریضوں کے نفسیاتی مسائل کا حل تلاش کرنے میں ان کی مدد کروں۔

سائنسی تحقیقات نے انسانیت کی بہت مدد کی ہے۔ اسی لیے ساری دنیا کے ڈاکٹر اور ماہرینِ نفسیات خدمتِ خلق کر کےانسانوں کے دکھوں کو سکھوں میں بدلنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ سائنسی تحقیق کسی ایک مذہب ملک یا قوم کے لیے نہیں بلکہ ساری انسانیت کے لیے ہوتی ہے۔ اسی لیے ایک انسان دوست ہونے کے ناطے میں نے سائنس کو اپنی سہیلی بنایا ہے اور مجھے اس سے دوستی پر بڑا فخر ہے۔

ڈپریشن کی مریضہ کا سائنسی علاج

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail