سرخ سیاست۔۔۔۔ اور راوی ہیں عبدالرؤف ملک


اگر نوے سال سے اوپر کے ایسے لاہوریوں کی کوئی فہرست مرتب کی جائے جنہیں بجا طور پر شہر کا نمک قرار دیا جا سکے تو اس میں عبدالرؤف ملک صاحب کا نام یقیناً کہیں ابتدا ہی میں درج ہو گا۔ طویل عمری بذات خود کوئی قابلِ ذکر معاملہ نہیں۔ لیکن اگر طویل عمر پانے والا نہ صرف لاہور بلکہ متحدہ ہندوستان اور بعد میں پاکستان کے سماجی، سیاسی اور ادبی منظر نامے کا چشم دید گواہ ہو تو اس کی تحریر کو نظر انداز کرنا مجرمانہ فعل سے کم نہ سمجھا جائے گا۔ یہ ضروری نہیں کہ اس کی ہر بات پر یقین کر لیا جائے۔ تاہم اسے یہ فوقیت حاصل ہو گی کہ وہ کہہ سکے گا، ’’میں وہاں موجود تھا۔‘‘ اور یہ دعویٰ ہم میں سے بہت کم کر پائیں گے۔

عبدالرؤف ملک 1926ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے یا کتاب کے بارے میں بڑے بڑے دعوے نہیں کرتے۔ حقیقت پسندی کے داعی ہیں۔ اس لیے کہتے ہیں، ’’میں گلی کوچوں میں گھومنے والا عام سا آدمی ہوں جس میں ایسی کوئی خوبی نہیں جس پر فخر کیا جا سکے۔ البتہ چند اہلِ علم و دانش اور نابغہ عصر شخصیتوں میں اٹھنا بیٹھنا نصیب ہوا۔ دوسرے میں اتفاقاً کتابوں کی اشاعت و فروخت اور درآمد و برآمد کے پیشے سے منسلک ہو گیا جس کی وجہ سے مطالعے کی عادت راسخ ہوئی اور ذہنی نشوونما کو جلا ملی۔‘‘ اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو کتاب میں ربط کی کمی چنداں اہم نہیں رہتی۔ یہ تو یادوں کی کشکول ہے۔ جو یاد آتا گیا لکھا یا لکھوا دیا گیا۔ اپنے دلائل اور مشاہدات کی پشت پناہی کی غرض سے متعدد دستاویزات بھی تصنیف میں ٹانک دی ہیں۔ ملک صاحب کو یہ زعم نہیں کہ وہ بڑے پائے کے مصنف ہیں اور ان کی تصنیف کارنامہ قرار پائے گی۔ سیدھا سادہ بیانیہ ہے۔ تاہم جو کچھ کہا گیا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور رہے گی۔ کتاب کا ذیلی عنوان ’’کتاب زیست کے چند کٹے پھٹے اوراق ’’اصل عنوان ہونا چاہیے تھا۔ ناشر نے اسے ’’سرخ سیاست‘‘ کا نام دے دیا ہے۔

ملک صاحب کا تعلق ککے زئی برادری سے ہے۔ مسلک کے اعتبار سے اہلِ حدیث تھے اور ہیں۔ آبائی محلہ چابک سواراں ہے۔ وجہ یہ کہ ککے زئی برادری کے بہت سے گھرانے، جو اس محلے میں آباد تھے، گھوڑوں کی خریدوفروخت کا کاروبار کرتے تھے۔ انہیں اُس زمانے کا کار ڈیلر سمجھیے۔ ابتدا میں جذباتی طور پر مجلس احرار سے وابستہ ہوئے۔ کانگریس سے بھی تعلق رہا۔ آخر کمیونسٹ خیالات کے حامل رہ نماؤں سے ملنے جلنے کے بعد اشتراکی رجحانات غالب آ گئے اور انہوں نے ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کا باقاعدہ رکن بننا پسند کیا۔ کہتے ہیں کہ ان کے پاس رکنیت کا کارڈ آج بھی موجود ہے۔ مسلم لیگ کے لیے بھی سرگرمی سے کام کیا۔ وجہ یہ تھی کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ،پاکستان کے مطالبے کی حامی تھی۔ یہ بات نئی نسل کے علم میں شاید نہ ہو۔ یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان کا پہلا ترانہ اسرار الحق مجاز نے لکھا تھا: ’’سرمایے کا سوکھا جنگل/ اس میں سرخ شرارہ/ پاکستان ہمارا۔‘‘ یہ بھی لوگوں کو کھٹکے گا کہ اہلِ حدیث بھی ہیں اور اشتراکی بھی۔ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے۔ خیر، مجلس احرار تو قصۂ پارینہ ہوئی۔ کانگریس کی پاکستان میں گنجائش کہاں تھی۔ خود مسلم لیگ کا یہ حال ہوا کہ ’’اس لیگ کے ٹکڑے ہزار ہوئے/ کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا۔‘‘ چنانچہ یہ سب جھنجھٹ تو لپیٹ کر بالائے طاق رکھ دیے۔ اپنے دینی مسلک (اہلِ حدیث) اور سیاسی مسلک (اشتراکیت) پر قائم ہیں اور رہیں گے۔

تقسیم سے پہلے اور بعد میں کمیونسٹ پارٹی پر جو کچھ گزری اس کا ذکر ملک صاحب نے اپنی بساط کے مطابق، تحریر کر دیا ہے۔ ان کی کتاب کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ نہیں ہے بلکہ پارٹی سے وابستہ رہنے اور اس وابستگی کے سبب طرح طرح کی آزمائشوں سے گزرنے کی ذاتی روداد ہے۔ اِسے مربوط تاریخ سمجھ کر پڑھنا غلط ہو گا۔ البتہ پارٹی کی مبسوط تاریخ مرتب کرنا مقصود ہو تو ملک صاحب کی کتاب سے مدد بلاشبہ مل سکتی ہے ۔ روسی انقلاب نے دنیا بھر کو چونکا دیا تھا اور ہندوستان میں رہنے والے بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے تھے۔ ابتدا میں برصغیر کے کن لوگوں نے اشتراکی خیالات کو اپنایا ان کے بارے میں ملک صاحب نے کچھ نہیں لکھا۔ 1920ء کے بعد کے چند برسوں کا حال شاید کسی کو بھی صحیح طور پر معلوم نہ ہو۔ لیکن اس امر کے پیش نظر کہ 1925ء میں ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی تھی یہ خیال آتا ہے کہ کوئی نہ کوئی سرگرمی ایسی لازماً رہی ہو گی جس نے انگریز حکمرانوں کو، خوف زدہ نہ سہی، فکر مند کر دیا ہو گا۔ یہ پابندی سترہ سال بعد ختم ہوئی اور وہ بھی اس بنا پر کہ دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ کو بہ امر مجبوری سوویت یونین کا اتحادی بننا پڑا تھا۔

متحدہ ہندوستان میں ان پانچ برسوں میں کمیونسٹ پارٹی کو آزادی اور نسبتاً کامیابی سے کام کرنے کا موقع ملا۔ لیکن آزادی ملنے کے بعد پاکستان میں پارٹی سرکاری جبر کا شکار رہی۔ اس کی بڑی وجوہ دو ہی نظر آتی ہیں۔ اشتراکی فکر اور نظام سے خوف زدگی اور امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کی تمنا۔ یہ صاف صاف کہنا مشکل ہے کہ خوف زدگی اور خوشنودی میں کس کا پلا بھاری تھا۔ سیاست دان، جن میں بہت سے جاگیردار تھے، بیوروکریسی اور فوج سبھی کا جھکاؤ امریکا کی طرف تھا۔ چنانچہ تعجب کیا جو کمیونسٹ پارٹی زیرِ عتاب ہی رہی۔ اراکین اور کارکنوں کو جیل جانا پڑا۔ کتابیں اور رسالے ضبط ہوئے۔ دائیں بازو کے صحافیوں، دانشوروں اور ادیبوں نے بھی، بقدرِ ہمت، حکومت کا ساتھ دیا۔ فائدہ بھی اسی میں نظر آیا۔ غرض کہ ایک تکلیف دہ کہانی ہے جس کا اچھا خاصا اندازہ ملک صاحب کی کتاب سے ہو سکتا ہے۔

یوں تو بہت سے افراد سے ان صفحات پر ملاقات ہو جاتی ہے مگر میاں افتخار الدین اور سجاد ظہیر کا بڑی محبت سے ذکر کیا گیا ہے۔ ملک صاحب کا یہ خیال درست معلوم ہوتا ہے کہ میاں افتخار الدین کو اس طرح یاد نہیں رکھا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔ سجاد ظہیر کو اپنا استاد مانتے ہیں اور ان کے علم و فضل کے معترف ہیں۔ اس اعتراف میں وہ تنہا نہیں۔ ملک صاحب لکھتے ہیں: ’’اگر سجاد ظہیر مجھے جیل میں سے لکھے خطوط میں نادر کتابوں کے لیے نہ لکھتے تو میں یکسر لکیر کا فقیر ہوتا اور میرا مطالعہ چند نظریاتی یا عام سی کتابوں تک ہی محدود رہتا۔ آج سے پچاس سال پیشتر نادر کتابوں کی تلاش اور فراہمی ایک جاں گسل کام ہوتا تھا ۔۔۔ میں نے انہیں لکھا کہ دقیانوسی کتابیں اب نہیں ملتیں۔ جواب میں انہوں نے سرزنش کے پیرائے میں لکھا کہ ماضی کے علم و دانش کے ذخیرے کو دقیانوسی کہنا درست نہیں۔ ماضی کی خوبیوں اور خامیوں کو جانے بغیر نہ ہم حال کو درست کر سکتے ہیں اور نہ ہی مستقبل کو درخشاں بنانے کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔‘‘ ملک صاحب کا کہنا ہے کہ یہ اقتباس خصوصی طور پر ان نوجوان مارکسٹوں کے لیے لکھا ہے جو مغربی علم کو تو اوڑھنا بچھونا بناتے ہیں لیکن اپنے پرانے علم کو یکسر مسترد کرنے میں غلطاں رہتے ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بارے میں ملک صاحب کی دلیل بہت وزنی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انگریزوں نے عالمی سازش یا گریٹ گیم کے تحت پاکستان بنایا تھا ان سے پوچھتا ہوں کہ کابینہ مشن پلان بھی انگریزوں نے پیش کیا تھا۔ اگر نہرو مخالفت نہ کرتا تو پھر اس عالمی سازش کا کیا بنتا؟‘‘ یاد رہے کہ اِس پلان کے تحت ہندوستان متحد رہتا۔ مسلم لیگ نے یہ پلان منظور کر لیا تھا اور قائداعظم نے یہ تک کہا تھا کہ جو کچھ ہم پاکستان بنا کر حاصل کرنا چاہتے تھے وہ اس پلان کے ذریعے سے ہمیں مل گیا ہے۔

ملک صاحب کے بعض خیالات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ ان کی رائے میں تقسیم کے بعد دونوں ملکوں میں بیوروکریسی نے، جس کی تربیت انگریزوں نے کی تھی، کمیونسٹ سرگرمیوں کو کچلنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس بات کو صرف یہ فرض کر کے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ زمام کار بیوروکریسی کے ہاتھ میں تھی اور تمام سیاست داں قوتِ فیصلہ سے عاری اور احمق تھے۔ یہ غلط ہے۔ کانگریس ہو یا مسلم لیگ، دونوں جماعتوں پر سرمایہ دار اور مراعات یافتہ طبقات حاوی تھے۔ وہ اشتراکی خیالات کی کھلم کھلا ترویج کی کیسے اجازت دے سکتے تھے۔

اپنی کم علمی کی وجہ سے میں یہ بتانے سے قاصر ہوں کہ رندھیوے لائن کیا تھی۔ رندھیوے تقسیم سے پہلے بھی اور بعد میں بھی کمیونسٹ پارٹی کے اہم رہنما رہے۔ انہوں نے 1946ء میں بحریہ میں انگریز مخالف بغاوت کی حمایت کی تھی جب کہ کانگرسی قیادت اس بغاوت سے خوف زدہ ہو گئی تھی۔ بہرحال، اگر اس لائن سے مراد یہ تھی کہ مسلح جدوجہد کے ذریعے سے برصغیر میں اشتراکی انقلاب لایا جائے تو اسے صحیح ماننا ہو گا۔ بندوق کا مقابلہ بندوق سے کیا جا سکتا ہے، باتوں سے نہیں۔

سرخ سیاست از عبدالرؤف ملک

ناشر: جمہوری پبلی کیشنز، لاہور


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).