اس”گندی لڑکی“ سے شادی کون کرے گا؟


بھنوئیں بے ترتیب سی تھیں، کاجل یا سرمہ نام کی کوئی چیز دور دور تک نہیں تھی۔ بنجر آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ چکے تھے۔ یہ مسلسل آنسووں یا نیند کی کمی کا نتیجہ تھا، یہ اندازہ لگانا مشکل تھا۔ ہونٹوں پر پیپڑیاں یا تو سردی کی وجہ سے جمی تھیں یا پھر کلر اور شور زدہ زمین کی طرح نمک ان کے اندر چھپی زندگی کو کھا چکا تھا۔

یہ شاید اس کی اماں کی پرانی سی کھیس نما کوئی ڈبوں والی چادر تھی کیوں کہ لڑکیاں تو اس عمر میں ایسی چادریں نہیں لیتیں۔ اس کے دونوں پیروں میں دو مختلف رنگ کی جرابیں تھیں۔ قمیص ایک رنگ کی تھی اور شلوار کسی دوسرے سوٹ کی تھی۔ چھت پر بنیرے بالکل چھوٹے چھوٹے تھے اور وہ ایک چوکی پر بیٹھی گم سم نظریں کچی چھت پر گاڑے دھوپ سینک رہی تھی۔ سامنے والی چھت سے ان کے صحن میں بکھری اداسی دیکھی جا سکتی تھی۔ دو ہی کمرے تھے اور وہ بھی پلستر کے بغیر۔ بائیں جانب ایک چولہے میں کچھ اپلے جل بجھ رہے تھے اور ان سے نکلتا ہلکا ہلکا دھواں وہاں زندگی کی واحد علامت تھا۔ صحن کے درمیان میں ایک تار تھی، جس پر دھلے ہوئے کچھ کپڑے لٹک رہے تھے۔

باجی نے آواز دے کر پوچھا زینت اب تمہارا کیا حال ہے؟ ادھر سے خشک ہاتھ میں ہلکی سی لرزش پیدا ہوئی، باجی زینت کا اب کوئی حال نہیں ہے، ”تواڈی زینت کدوں دی مر گئی جے“۔ اب تو دن پورے کر رہی ہوں۔

میں نے حیرت سے باجی عنبرین کی طرف دیکھا یہ اس کو ایک دم کیا ہو گیا ہے؟ ابھی دو سال پہلے میں آیا تھا تو یہ چلنے کی بجائے اڑتی تھی، اس کی آنکھوں اور ہونٹوں پر کل وقتی مسکراہٹ تھی۔ یہ اپنے صحن میں ہنستی تھی تو قہقہوں کی آواز آپ کے گھر تک آتی تھی۔ ہر وقت اسے کوئی شرارت سوجھی رہتی تھی۔ دھوپ میں دو منٹ بیٹھنے سے اس کے سفید رخسار گلابی ہو جاتے تھے۔ میں آیا تھا تو اس نے آپ کے گھر ایک گھنٹے کے اندر اندر تین چار چکر لگائے تھے۔ دو مرتبہ تو آپ کی کریمیں لینے آئی تھی اور ایک مرتبہ ماچس کی ڈبیہ واپس کرنے۔ یہ وہی ہے نہ جو آتے جاتے مذاق کیا کرتی تھی، اوپن یونیورسٹی سے ایم اے اردو کر رہی تھی اور بار بار کہتی تھی کہ اس نے بی ایڈ بھی کرنا ہے؟
باجی نے نم آنکھوں کے ساتھ کہا، ہاں، یہ وہی ہے۔

گزشتہ دو برسوں میں زینت نے ایم اے اردو بھی کر لیا تھا اور ساتھ والے بڑے گاؤں کے ایک نجی اسکول میں ٹیچنگ بھی شروع کر دی تھی۔ اسی اسکول کے دسویں کلاس کے ایک لڑکے کے کزن نے زینت کو فون کرنے شروع کر دیے۔ بات دوستی سے شروع ہوئی تو شادی کے وعدوں پر جا کر ختم ہوئی۔

لڑکا اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک غریب لڑکی تو ٹچ سکرین موبائل، فلیٹ ٹی وی یا پھر فریج سے ہی متاثر ہو جاتی ہے، اس لڑکے کے گھر تو پھر بھی موٹر سائیکل، کار، گیزر اور طرح طرح کے خوشبو والے صابن بھی تھے۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس سے شادی کر لے گا۔ چند ماہ پہلے زینت نے اپنے بی ایڈ کے لیے رکھے ہوئے نو ہزار روپے، گھر میں رکھا ہوا سونے کا لاکٹ اور کانوں کی بالیاں ساتھ لیں اور امی کو یہ کہہ کر گئی کہ آج اس نے اسکول کے بعد ایڈمیشن فیس جمع کروانے جانا ہے اور وہ دیر سے آ ئے گی۔

اس کے ٹھیک پانچ دن بعد زینت کی امی کو وہاڑی سے فون آیا کہ میں ایک صحافی ہوں، میں یہ خبر آگے نہیں دوں گا، ہمیں آپ کی بیٹی یہاں ایک سڑک کے کنارے بے ہوش ملی ہے۔ میری اپنی بھی بیٹیاں ہیں، یہ اس وقت میرے گھر ہے، اب ہوش میں ہے، آپ اسے آ کر لے جائیں۔

جس رات زینت کو گھر واپس لے کر آئے تو بائیس سال کی یہ ہنستی مسکراتی لڑکی ایک بیوہ عورت میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اس کے جسم سے بو کے بھبھکے اٹھ رہے تھے۔ وہ اپنی ٹانگوں پر کھڑی ہونے کے قابل نہیں تھی۔ زینت کی ماں نے منصوبہ بندی کے دفتر میں کام کرنے والی اپنے محلے کی نرس کے پاوں پکڑ کر کہا، خدا کا واسطہ ہے میری بیٹی کا خاموشی علاج کر دو، خون کی کمی وجہ سے اس کا رنگ پیلا پڑ چکا ہے، اسے کوئی گولی دے دو، اس کی آنکھ لگ جائے، اس کی ہائے ہائے میرا سینہ چیر رہی ہے۔

لڑکا اسے اپنے گھر لے جانے کی بجائے وہاڑی میں اپنے دوستوں کے ایک ڈیرے پر لے کر گیا تھا۔ جہاں پہلے کچھ دن تو اس نے خود زینت کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر اس کو اپنے دوستوں کے حوالے کر دیا۔ وہاں وہ سبھی مل کر کتنے دن اس کا جنسی استحصال کرتے رہے، یہ بتانے سے پہلے ہی رانی کے آنسو موم بتی سے گرنے والے گرم قطروں کی طرح بہنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جس دن وہ آئی تو اس کے سارے جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔

لوگوں کے طعنوں کے خوف سے ماں نے گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا اور زینت کا مقدر تاریک کمرے کی وہی ٹوٹی ہوئی چار پائی بنی، جسے چھوڑنے اور ایک نرم گدے والے بیڈ کی خواہش لے کر وہ اپنے گھر بھاگی تھی۔ پہلے تین ماہ تو زینت نے اپنے ہونٹ تک نہیں ہلائے۔

مجھے بتاتے بتاتے باجی عنبرین کی آنکھیں مزید نم ہو چکی تھیں۔ کئی دن تو محلے کا کوئی بھی شخص ان کے گھر ہی نہیں گیا۔ ایک دن باجی عنبرین جرات کر کے ان کے گھر گئی تو زینت نے اپنا منہ کمبل کے اندر کر کے ہچکیاں لے کر رونا شروع کر دیا۔ باجی عنبرین نے جب کوشش کر کے اس منہ سے کمبل ہٹایا تو وہ گلے لگ کر زار و قطار روتی رہی اور اس وقت تک روتی رہی جب تک وہ تھک نہ گئی۔ آخر میں اس کے منہ سے یہی لفظ نکلا، ”باجی سزا بہت بڑی ملی ہے، میں نے یہ تو نہیں چاہا تھا۔ “

تین ماہ تک تو جو کوئی ایک آدھی عورت بھی اس کے گھر گئی تو زینت زمین پر اس کے پاوں میں بیٹھ جاتی تھی اور بغیر کچھ بولے ہاتھ جوڑ کر زارو قطار روتی رہتی تھی۔ شاید وہ خود کو سب کا مجرم سمجھنا شروع ہو چکی تھی۔

کئی برس پہلے ہی زینت کے والد کا انتقال ہو گیا تھا، جس کے بعد آپا دلشاد اپنے بچوں سمیت اپنے میکے گاؤں آ گئی تھی۔ یہ سب سے بڑی بہن تھی۔ ایک بہن اور دو بھائی ابھی چھوٹے ہیں۔ اب زینت کے ماموں تک نے ان کے گھر آنا چھوڑ دیا ہے۔ اس واقعے کے بعد ہمسایوں نے کہا کہ اس کہ کہیں شادی کر دیں۔ لیکن ماموں نے سب کے سامنے کہا کہ اب اس ”گندی لڑکی“ سے بھلا شادی کون کرے گا؟

میں نے باجی عنبرین سے فورا پوچھا لڑکے کو کسی نے نہیں پوچھا، اس کو کسی نے نہیں پکڑا، یہ پولیس کے پاس نہیں گئے؟
امتیاز اسے بھلا کون پوچھتا؟ وہ ان چودھریوں کا رشتے دار ہے۔ وہ پہلے بھی کئی مرتبہ ایم پی اے، ایم این اے رہ چکے ہیں اور اس مرتبہ بھی الیکشن لڑیں گے۔ اُن کا اور اِن کا کیا مقابلہ؟ ان کے اپنے گھر کھانے کو کچھ نہیں ہے، کبھی پکتا ہے کبھی نہیں پکتا، یہ ان سے ٹکر لے کر اپنے ان دو کمروں کے گھر سے بھی جاتے اور بدنامی پھر ان کی زیادہ ہونی تھی، یہاں لڑکے والوں کو کون پوچھتا ہے؟ مقدر تو کھوٹے ہوتے ہیں بیچاری لڑکی کے۔ کس نے اس لڑکی کی ماں کا ساتھ دینا تھا؟ کس کس ہسپتال سے میڈیکل رپورٹ کرواتے، کونسے تھانے میں جا کر بیٹھتے، اس کی چھوٹی بہن کا رشتہ کون لیتا۔ ابھی تو بات چند لوگوں کو پتا ہے، بعد میں گاؤں گاؤں جاتی۔ اس کا ماموں تک تو ساتھ نہیں، اکیلی ماں کہاں کہاں دھکے کھاتی؟

باجی نے مزید بتایا کہ ابھی پندرہ دن پہلے ہی زینت کا حافظ آباد کے ایک گاؤں میں نکاح ہوا ہے۔ انہیں بس یہ پتا ہے کہ اسے اٹھایا گیا تھا یہ خود نہیں گئی تھی۔ انہوں نے نکاح تو کر لیا ہے لیکن شاید انہیں کسی نوکرانی کی زیادہ ضرورت تھی اور لڑکا بھی بس پاگل سا ہے۔ نکاح کے ایک دن بعد ہی انہوں نے اسے کام پر لگا دیا تھا۔

میں ابھی وہیں بیٹھا تھا کہ چار گھنٹے بعد زینت دوبارہ باجی عنبرین کے گلے لگ کر رو رہی تھی۔ نکاح کے بعد وہ کل پہلی مرتبہ ہی اپنے گھر آئی واپس تھی۔ ابھی ایک دن ہی گزرا ہے۔ زینت کی ساس کا فون آیا ہے کہ گھر کے کام نہیں چل رہے اسے واپس بھیجیں۔ زینت بار بار کہہ رہی تھی، ”باجی اب تو وہ بھی طعنے مارتے ہیں لیکن جو کہیں گے وہی کرنا پڑے گا، باجی کوئی راہ نہیں بچی، اماں نے بھی کہا ہے کہ اب اس گھر میں تمہاری کوئی جگہ نہیں ہے، اب جیسا بھی ہے ادھر ہی تم نے رہنا ہے، باجی میری غلطی بڑی نہیں تھی، سزا بڑی ملی ہے۔ “

مجھے باجی عنبرین کے کندھوں پر گرتے ہوئے اس کے موٹے موٹے آنسو کسی ولی اللہ کے آنسووں سے بھی پاک لگے۔ مجھے اس کی آہوں کے سامنے اپنا وجود ہیچ محسوس ہونے لگا۔ اس سے پہلے کہ وہ ”اپنی شرمندہ“ نگاہیں میری طرف کرتی، میں جلدی سے اٹھ کر چھت پر آگیا۔ مجھ میں یہ جرات ہی نہیں تھی کہ زینت سے صرف یہ پوچھ لیتا کہ اب تمہارا کیا حال ہے؟
نوٹ: زینت کے نکاح کو ایک ماہ ہونے والا ہے۔ اس آرٹیکل میں نام اور مقامات تبدیل کر دیے گئے ہیں تاکہ زینت کا گھر جیسا تیسا بھی ہے چلتا رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).