ساقی فاروقی: یہ نوحہ نہیں ہے!


صرف دو ہفتے پہلے جب مجھے پتا چلا کہ مجھے آرٹس کونسل کراچی کی نویں عالمی اردو کانفرنس میں اردو کی نئی بستیوں کے حوالے سے گفتگو کرنا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ اردو کی صرف ایک نئی بستی، لندن کے بارے میں بات کرنا ہے تو بات اور بھی آسان ہو گئی۔ میں پوری بستی، لندن پر بات کرنے کی بجائے، اس بستی کے صرف ایک باسی پر اپنی توجہ مرکوز رکھوں گا۔ یوں تو اس وقت لندن میں اردو کے بہت سے شاعر موجود ہیں لیکن ایک شاعر ایسا بھی ہے جس پر اس کانفرنس کا ایک پورا سیشن مختص ہونا چاہیئے۔ اس شاعر کے بہت سے دوست احباب جب لندن تشریف لاتے ہیں تو اس شاعر سے ملاقات کے لئے بے چین رہتے ہیں اور اسی شاعر سے ملاقات کو اپنے لئے اعزاز جانتے ہیں۔ لیکن اردو زبان میں شاعری، نثر اور تنقید میں ا ُس کی خدمات کا ذکر کرنا ہو، اس کی خدمات کے اعتراف کے حوالے سے پاکستان میں کسی اعلیٰ سطح پر اس شاعر و ادیب کے لئے کسی جائز اعزاز یا اس کے حق میں بات کرنے کے لئے کہا جائے تو ان دوستوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ میری مراد صاحب ِ اسلوب شاعر، بے مثل نقاد اور ممتاز نثر نگار قاضی محمد شمشاد نبی صدیقی المعروف ساقی فاروقی سے ہے۔

اسی شہر کراچی سے سن 1954ء میں اپنے ادبی سفر کا آغاز کرنے والے ساقی فاورقی، جب سن 1963ء میں انگلستان سدھارے تو صرف کراچی نہیں پاکستان کے جانے پہچانے شاعر تو تھے ہی، بقول ناصر کاظمی، کراچی کے اینگری ینگ مین بھی تھے اور اپنی حرکات کی وجہ سے سبھی کے ناک میں دم کئے ہوئے تھے۔ بعد میں انگلستان جا کر بھی ان کا دل نہیں بھرا اور انھوں نے وہاں سے بھی دوست اور دشمن، دونوں پر اپنی بم باری جاری رکھی۔ برطانیہ تو نہیں، لیکن لندن بلا شبہ ایک زمانے میں اردو کا تیسرا بڑا مرکز تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں اردو ادب کے بہت سے مشا ہرین، خواہ ان کیا تعلق پاکستان سے تھا یا ہندوستان سے، لندن ہی میں دیکھے، سنے اور بعض کے ساتھ مشاعرہ پڑھنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ قرة العین حیدر، انتظار حسین، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، عبد اللہ حسین، فیض احمد فیض، احمد فراز، یوسف کامران، اختر الایمان، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، سرور بارہ بنکوی، رام لال، اوپندر ناتھ اشک، بلراج کومل، محمود ہاشمی اور بہت سے نام۔۔

ممتاز نقاد جمال پانی پتی کے نزدیک ساقی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک سچے فنکار کی طرح اپنی کسی بھی نفسی کیفیت کو نہ تو ہم سے چھپاتا ہے اور نہ ہی کسی خوف یا مصلحت کے تحت اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ میرے نزدیک، ساقی فاروقی کی یہی خوبی، اُن کی سب سے بڑی خامی بھی ہے۔ وہ اس لئے کہ انسان اپنی بعض نفسانی کیفیات کا اظہار کھل کر نہ کر کے بھی اپنا مطلب بیان کر سکتا ہے اور کچھ نہ کہہ کر بھی اپنی بات کہہ سکتا ہے۔ ان کی بعض نظمیں مثلاً انگریزی میں حضرت مریم کے حوالے سے نظم، خدا، اور اردو میں شہناز بانو دختر شہباز حسین اور اسی قبیل کی چند ایک اور نظمیں ساقی فاروقی کے پاؤں کی زنجیر بن گئی ہیں اور حاسدین یہ نظمیں ان کے خلاف استعمال کرتے ہوئے ان پر فحش نگاری کا الزام لگاتے ہیں۔

 سلیم احمد مرحوم نے اپنی شاعری کی کتاب ًاکائیً کا مسوّدہ ساقی فاروقی کے حوالے کرتے ہو ئے کہا تھا : ًسقوے! مجھے تیری شعری تنقیدی ذہانت پر اتنا یقین ہے کہ جو تُو کہے گا قبول کر لوں گا ً۔ یقیناً اُس وقت یہ با ت خود ساقی فاروقی کو بھی عجیب معلوم ہوئی ہو گی، مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ سلیم احمد مرحوم نے اس ہونہا ر ِبروا کے چکنے چکنے پات دیکھ کر کیا درست پیشن گوئی کی تھی۔  ًہدایت نامہ شاعرً اس بات کا منہ بولتا ثبو ت ہے کہ شعر کے حوالے سے ساقی صاحب کی تنقیدی ذہانت کئی سکہ بند تنقید لکھنے والوں سے کہیں زیا دہ اور بالغ ہے۔

بے مثل شاعر ساقی فاروقی کے اندر کا خطرناک مگر صاحبِ اسلوب نقاد، جب وہسکی پہن کر نکلتا ہے تو اس کا مستانہ ہونا سمجھ آتا ہے۔لیکن میری بات کا یقین کیجیے کہ اگر اُس وقت ساقی فاورقی کی تنقید میں سے وہسکی کے دو چار پیگ نکال بھی دئے جائیں تو اُن کے تنقیدی اعتراضات اور نقطہ نظر سے اختلاف کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے اور جو سوال وہ اپنی تحریر میں اٹھا رہے ہوتے ہیں ان کا جواب نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو تا ہے۔جو شاعر خود اپنے بارے میں یہ رائے رکھتا ہو کہ ع

میں کیا بھلا تھا یہ دنیا اگر کمینی تھی

در کمینگی پر چوب دار میں بھی تھا

                ٭٭٭  ٭٭٭

مجھے گناہ میں اپنا سراغ ملتا ہے

وگرنہ پارسا و دین دار میں تھا

وہ دوسروں کا کیسے لحاظ رکھے گا؟ جو شاعر، رات کے راج ہنس اور ہات، مکڑا، زندہ پانی سچا، شیر امداد علی کا میڈک، خالی بورے میں زخمی بلا، شاہ صاحب اینڈ سنز، مستانہ ہجڑا، شاہ دولہ کا چوہا اور حمل سرا جیسی خوبصورت اور اعلی پائے کی نظمیں لکھ چکا ہو وہ شاعری میں دوسروں شاعروں سے بھی کسی معیار کی توقع تو رکھے گا۔ شاعری کی بہت سی کتابیں لکھنے کے بعد سن 2011ء میں ساقی فاروقی نے اپنی شاعری کا پچاس سالہ انتخاب، سرخ گلاب اور بد رِ منیر کے نا م سے شائع کیا ہے۔ اپنی یادداشتوں پر مشتمل ایک جلد، آپ بیتی، پاپ بیتی کے نام سے شائع ہوئی ہے۔

ساقی فاروقی جب اپنے چند ہم عصر سینئر شعرا ن۔م۔راشد، فیض احمد فیض، میرا جی، وزیر آغا، اور اپنے بعد آنے والے چند شعراء پر تنقیدی مضامین لکھ کر نام کما چکے تو اپنے بعد آنے والے شعرا پر لکھنے والا قلم، یہ کہہ کر توڑ دیا کہ بڑے ناموں پر لکھ چکا ہوں۔! اب سے ایک ماہ قبل میں ان سے ملا تو یوں محسوس ہوا کہ اب ساقی فاروقی نے خود اپنا لکھنے والا قلم بھی توڑ دیا ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ دل اور دماغ کے بعد اب اُن کے ہاتھوں کی انگلیوں نے بھی لکھنے میں ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔

یہ کہہ کہ ہمیں چھوڑ گئی روشنی اک رات

تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے

( یہ مضمون 3 دسمبر 2016ء کو آرٹس کونسل کراچی کے ایک اجلاس میں پڑھا گیا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).