ربڑ ملا آٹا اور سوشل میڈیا


ہمارا معاشرہ جھوٹی من گھڑت باتوں اور افواہوں کو پھیلانے میں اپنی مثال آپ اور بے نظیر ہے۔ ہماری دیگر معاشرتی برائیوں کی طرح ہماری ﺍِس برائی کی نظیر بھی دوسرے معاشروں میں بہت ہی کم ملتی ہے۔ انتہائی پڑھے لکھے پاکستانیوں کی سوشل میڈیا اکیٹیویٹیز بھی اس بات کی گواہ ہیں کہ وہ کسی بھی بات کی تصدیق کیئے بغیر یا سوچے سمجھے بغیر کسی بھی قول یا فعل کو، دینی، سماجی یا سیاسی نوعیت کی خبر تصویر یا ویڈیو کو بس فوراً ہی فارورڈ یا شیئر کرنا ضروری اور اپنا حق سمجھتے ہیں۔

واضح حدیث موجود ہے کہ ”کسی شخص کے جھوٹا ہونے کےلئے اتنا ہی کافی ہے کہ سُنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کیئے آگے بڑھادے“ ﺍِس کے باوجود جب حال یہ ہو کہ خود دینی طبقہ بھی موضوع، من گھڑت اور ضعیف الاسناد روایات کو اپنی ترہیب و ترغیب اور فضائل میں شوقیہ بکثرت استعمال کرتا ہو حالانکہ صحیح احادیث ہی دین کی تبلیغ و تفہیم کے لئے کچھ کم نہیں ہیں تو پھر عوام الناس اور جہلا تو جو بھی کریں وہ کم ہے۔ ؟

آج کل ”آٹے میں ربڑ“ کے عنوان سے بے شمار وڈیوز واٹس ایپ، فیس بک اور سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ کُچھ ویڈیوز میں تو باقاعدہ کاروباری دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مختلف برانڈز کے بار بار نام لے کر ﺍُﻥ کی مذمّت بھی کی گئی ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ آٹے میں ربر کا نہیں ہے بلکہ معاملہ کاروباری رقابت کا ہے یا ﺍُﻥ لوگوں کا ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ امیر طبقہ اب آٹا بھی امپورٹڈ کھانا شروع کردے کیونکہ غریب طبقے کے لئے تو مقامی گندم اور آٹا خریدنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ﺍِﻥ ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ آٹے کے پیڑے کو پانی سے بار بار دھویا جائے تو آخر میں ربڑ کا سا ملغوبہ (گولہ یا پیڑا) بچ جاتا ہے اور اُسے دکھا کر یہ لوگ مضرِ صحت ملاوٹ کا شور مچاتے نظر آتے ہیں۔

یہ ربڑ کیا ہے؟ ذیل میں ہم ﺍِس کی وضاحت کریں گے:

1۔ بڑی عمر کے قارئین کو پہلے سے معلوم ہوگا اور جو کم عمر ہیں وہ اپنے گھروں میں اگر بزرگ موجود ہوں تو ﺍُﻥ سے معلوم کرسکتے ہیں کہ پہلے زمانے میں جب گھروں میں جلد سازی (book binding) کی جاتی تھی تو اکثر آٹا، میدہ یا اراروٹ (سنگھاڑے کا آٹا) اتنا پکایا جاتا تھا کہ وہ گاڑھا ہو کر بالکل لئی یا پگھلے ہوئے ربڑ یا پیسٹ کی شکل اختیار کر لیتا تھا اور انتہائی مضبوطی اور جوڑنے میں پکّا ہوتا تھا۔

2۔ پہلے زمانے میں جب ہر چیز خالص ہوا کرتی تھی اور آٹے میں ملاوٹ کا نام و نشان بھی نہیں ہوتا تھا۔ سگھڑ خواتین گندم کو خود صاف کر کے چکی پر پسواتی تھیں اُس آٹے سے بھی بالکل اسی طرح دھو دھو کر ربڑ جیسا مادّہ نکال کر ﺍُس سے حلوہ بنایا جاتا تھا۔

3۔ جن لوگوں کو کبھی گندم کے کچے دانے کھانے کا اتفاق ہوا ہو اُنہیں یاد ہوگا کہ نرم نرم دانے چباتے رہنے سے ان کا دودھیا سا رس ختم ہو جاتا تھا اور آخر میں یہی چیونگم سا منہ میں رہ جاتا تھا۔ جن کے علم میں نہ ہو وہ اب تجربہ کر سکتے ہیں۔

4۔ بعض شوقیہ یا سگھڑ خواتین جنہیں فالودہ گھر میں بنانا آتا ہے وہ بھی جانتی ہیں کہ میدہ کو پانی میں گھول کر جب بہت دیر تک پکایا جائے تو وہ بالکل ربر کی شکل اختیار کرلیتا ہے پھر اُسے فوراً ہی باریک چَھنّیوں سے گذار کر موٹے دھاگوں کی صورت میں کسی صاف جگہ پر پھیلا کر سُکھا لیا جائے تو ﺍِس طرح گھر میں فالودہ بنایا جاسکتا ہے۔

5۔ یہ پلاسٹک یا ربڑ نما ملغوبہ یا گلوٹین گندم کا قدرتی حصہ ہے اور کسی جعلساز نے اسے کسی کی صحت برباد کرنے کے لئے آٹے میں نہیں ڈالا۔

6۔ گلوٹین ایک طرح کا پروٹین ہوتا ہے جو کافی سارے اناج میں خاص طور پر گندم اور جو میں بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ گلوٹین کی وجہ سے ہی روٹی میں ایک لوچ (لچک ) اور نرمی آتی ہے۔

7۔ کسی کو گلوٹین سے الرجی بھی ہوسکتی ہے اور کچھ لوگ گلوٹین انٹولیرنٹ بھی ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں اس مرض کی شرح کم و بیش ایک فیصد بیان کی جاتی ہے۔ اگر والدین میں سے کسی کو گلوٹین انٹولرنس ہے تو آئندہ نسل میں اس کے منتقل ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اس مرض میں علاج سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔

آپ سب سے درخواست ہے کہ سوشل میڈیا پر موجود مواد پر آنکھیں بند کر کے اعتبار مت کیا کریں۔ نجانے کیوں، جان بوجھ کر یہ فساد پاکستانی معاشرے کو مزید پریشان کرنے اور انجانی فکروں میں مبتلا رکھنے کے لئے دن بدن پھیلایا جا رہا ہے؟

دنیا کے بے شمار ترقی یافتہ ممالک کے خالص آٹے میں بھی یہی مادہ گلوٹین موجود ہوتا ہے اور تحریر بھی ہوتا ہے کیونکہ ﺍُﻥ ممالک میں خوراک کے کسی بھی آئٹم پر اس کے تمام اجزا تحریر کرنے کے قانون پر سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے اور ممنوعہ اجزا کی ملاوٹ خلاف قانون ہے جبکہ گلوٹین سے احتیاط کرنے والے صارفین کے لئے گلوٹین فری آٹا بھی دستیاب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).