زینب قتل کیس کی تحقیقات میں خالص مسلمان کا کردار


کسی بھی ملک کی ترقّی اور خوشحالی میں سماج کے ذہنی ارتقاء کا گہرا عمل دخل ہوتا ہے، اور یہی عمل دخل غلام بننے میں کار فرما ہوتا ہے۔ جدید دور کے تقاضوں میں جتنی اہمیت ترقّی پسندیت کی ہے اُتنی روایت پسندیت کی نہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جو روایت پسندیت کے حامی ہیں اُنکی سوچ کے تانے بانے طالبان سے ملتے نظر آتے ہیں اور جو ترقّی پسندیت کے ماننے والے ہیں وہ ایسے الٹرا سیکولرز اور الٹرا لِبرلز ہیں جو صرف شور اور کہرام مچا سکتے ہین۔ حکمران طبقہ قارون صفت، حریص اور غاصب ہی سہی لیکن اس حقیقت سے بھی اِنکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے بیشتر مسائل ایسے ہیں جن میں انفرادیت کا عنصرشامل ہوتا ہے۔ ’’ شرم کرو حیا کرو، بھٹو کو رِہا کرو‘‘ سے لے کر ’’مجھے کیوں نِکالا ‘‘ تک، اور ’’ مردِ حق، ضیاءالحق ضیاءالحق ‘‘ سے لے کر ’’ تیری پین دی سِری ‘‘ تک، کے نعرے کسی فردِ واحد نے نہیں بلکہ اِس قوم نے لگائے۔ سوال یہ بنتا ہے کہ ہم نے بحیثیتِ قوم کیا حاصل کیا؟ کیا روزانہ کسی نکڑ یا چوراھے سے گزرتے وقت ایسے مناظر دیکھنے کو نہیں ملتے جنہیں دیکھ کر اِنسان اُس دُنیا میں چلا جاتا ہے جہاں غلاموں کی منڈیاں لگتی تھیں۔

ہیریئٹ ٹُبمن کا ایک مشہور قول ہے، ’’میں نے ہزاروں غلام رہا کیے، اور ہزاروں مزید رہا کرتی اگر ان کو پتہ ہوتا کہ وہ غلام ہیں‘‘۔ غلامی فقط جسمانی طور پر کسی کی ملکیت میں رہنے کا نام نہیں، اور نا ہی کسی فردِ واحد کے طے شدہ اصولوں پر کاربند رہنے کا نام ہے۔ سچ بولوں تو، قرون اولیٰ اور قرون وسطیٰ میں جو غلام زنجیروں میں جکڑے ہوتے تھے، اُن سے کہیں زیادہ خطرناک عصرِ حاضِر کے فکری، مذہبی، اخلاقی اور نفسیاتی غلام ہیں۔ پروفیسر الیگزینڈر ٹائٹلر کے مطابق، دُنیا کی ہر بڑی تہذیب کچھ مخصوص قسم کے مراحل سے گزرتی ہے۔ غلامی سے نکلنے کے لئے سب سے پہلے انسان مذہبی عقائد کا سہارا لینا شروع کرتا ہے، پھر عزم و حوصلہ ڈھونڈتا ہے اور پھر آزادی اور خوشحالی حاصل کرتا ہے۔ میں نہیں چاہوں گا کہ کسی قسم کے اِنحراف یا اِنحطاط کا مرتکب ٹہرایا جاؤں، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جہاں حکمرانوں، قانون سازوں اور دوسرے طالع آزماؤں نے غلامی کو پنپنے دیا، وہاں پر کسی بھی چھوٹے بڑے مذہب نے اِسکےخلاف آواز تک نہیں اُٹھائی۔ وہ تو اللہ بھلا کرے کہ مارٹن لوتھر کِنگ، اَبراہم لِنکن اور جیمز رامسے جیسے لوگ اِس دنیا میں پیدا ہوئے ورنہ ہم تو آج بھی مجروح سلطانپوری کے شعر کا یہ مصرعہ پڑھ رہے ہوتے ’’رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ‘‘

غیر ضروری مذہبیت کبھی بھی کارگر نہیں ہو سکتی۔ یہی مذہبی تفاخر اور متعصبانہ زعم ہیں جو اس معاشرے کو عدم برداشت کی طرف دھکیل رہا ہے۔ یہی وہ طریقت ہے جو ہمارے خادم حُسینوں نے ممبرز پر بیٹھ کر ینگ جنریشن کے خون میں اِ ن جِکٹ کیا اور اُنکو بنیاد پرست اور انتہا پسند بنا دیا۔ یہی وہ منطق ہے جسے بنیاد بنا کر ایک کالج سٹوڈنٹ نے دو دن پہلے اپنے پرنسپل کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ یہی وہ منطق ہے جس نے اچھے بھلے اِنسان نُما ہجوم کو مشتعل کیا اور مشال خان جسے ہونہار اور خوبصورت نوجوان کو گھسیٹ گھسیٹ کر مروا دیا۔ توہمات اور کنفیو ژن سے اراستہ مستقبل کے یہ معمار تیزی سے بدلتی اور کہکشاؤں کی تسخیرکرنے والی دنیا کا کس طرح مقابلہ کرینگے۔ کس طرح خالص اور غیر خالص مسلمان کے مباحثوں میں تربیت پانے والے یہ بچے اچھے اُستاد اور اچھے مسیحا بنیں گے۔ اوریا مقبول جانوں اور انصار عبّاسیوں کی واہیات پر مبنی آگہی اِن بچوں کو کیا دے سکتی ہے سوائے اس کے کہ ’’یہ دُنیا دو ٹکے کی ہے‘‘۔ اور جب دُنیا ہی دو ٹکے کی ہے تو کوئی پاگل ہے جو ہارورڈ اور ایم آئی ٹی جانے کی جسارت کرے، یا خلا میں جا کر اِمام مہدی کے انتظار میں بیٹھی قوم کو ایک اور دو ٹکے کی دُنیا دریافت کر کے دے۔ یقین کریں ایڈیسن کے ایجاد کردہ بلب کی روشنی میں بیٹھ کر، لیری پیج کے بنانے والے گوگل سے ہوتے ہوئے مارک زوکر برگ کے فیس بُک پر آکر کمنٹ کرنا بہت آسان کام ہے لیکن اِن ٹیکنالوجیز کے لئے اپنا خون جلانے والوں کو کفریہ لعن طعن سے پاک انسانیت کی نگاہ سے دیکھنا خاصا کٹھن ہے۔

وطنِ عزیز میں نہ تو فرقوں کی کمی ہے نہ سلاسل اور طریقتوں کی۔ کوئی عطاری ہے تو کوئی اُسے شرکِ اکبر کا مُرتکب سمجھ کے کسی اور پیر کا دلدادہ ہے۔ کوئی سُنّی تو کوئی شیعہ۔ کوئی دیوبندی تو کوئی بریلوی۔ کوئی اہلِ سُنّت کا ٹیگ لگا ئے پھر رہا ہے تو کوئی ا ہلِ حدیث کا۔ کوئی وہابیت کا لیبل چسپائے بیٹھا ہے تو کوئی خارجیت کا۔ دلچسپ اَمر یہ ہے کہ یہ سب انفرادی طور پر اپنے آپ کو خالص مسلمان سمجھ رہے ہیں اور باقی سب کو غیر خالص۔ اِسی خالص اور غیر خالص کے چکر میں ڈاکٹر عبدالسلام کو بھی زندیق اور فرزندِ احمدیت جیسے القابات سے نواز کر ڈِس اون کیا گیا۔ کیا یہ اچھا نا ہوتا کہ ہم اُن کی سائنسی خدمات، کمال اور وقار کو دیکھ کے اون کرتے، قطع نظر اس بات کے کہ وہ کس خدا کا پوجنے والا ہے یا کس عقیدے کا ماننے والا ہے؟

چندہفتے پہلے زینب کا دل دہلانے والا واقعہ پیش آیا۔ کوئی بے حِس ہی ہوگا جس نے کچرے کے اوپر اُس ننھی سی پَری کی تصویر دیکھ کے خون کے آنسو نا رویا ہو۔ میری تمام تر ہمدردیاں اُن کے دُکھی والدین کے ساتھ ہیں، لیکن کیا تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی کے سربراہ کا خالص مسلمان ہونا ضروری تھا؟ کیا تحقیقات بھی حلال اور حرام ہو سکتی ہیں۔ کچرے کے اوپر وہ بارہ لاشیں بھی غالباً انہی خالصوں نے پھینکی تھیں۔ یہی خالص زینب سے پہلے گیارہ بچیوں کو اِنصاف فراہم کرنے میں اتنے لاچار اور مفلوج کیوں نظر آئے تھے۔ تحقیقات کا یہ سارا کھیل ہی اگر مذہب کے ساتھ منسلک ہے تو پھر ورلڈ جسٹس فورم اور ہیومن رائٹس واچ جیسے اداروں کو عالمی سطح پر اتنی پزیرائی کیوں مل رہی ہے؟ وہاں تو کوئی بھی خالص مسلمان نہیں بیٹھا، سب غیر خالص کُفار اور زندیق براجمان ہیں۔ پوری قوم کو پتہ ہے کہ زینب کیس میں سب سے اہم رول سی سی ٹی وی اور فرینزک سائنس کا تھا۔ خالص مسلمان ہونے کا کردار اتنا ہی اہم تھا تو کافروں اور زندیقوں کے بنائے ہوئے سی سی ٹی وی کیمرے اور فرینزک سائنس کے استعمال سے بھی انکار کرنا ہماری اخلاقی ذمہ داری بنتی تھی۔ اپنا کوئی حلال اور خالص مسلمان کا بنایا ہوا محققانہ اور فلسفیانہ طریقہ آزماتے تو اچھا بھی لگتا اور اندر کی غیر ضروری مذہبیت کو سکون بھی ملتا۔ اللہ کرے کہ ہم مسلمانوں کو اِتنی سی عقل آئے کہ ہمارا فائدہ دُنیا سے علیحدگی میں نہیں بلکہ ساتھ ساتھ چلنے اور ہم آہنگی میں ہے، ورنہ اس غیر ضروری مذہبیت کی دال پوری طرح اُمّتِ مسلمہ کی جوتیوں میں بٹنے لگے گی۔

میرا تعارف: مالیکولر میڈیسن میں پی ایچ ڈی اینڈ پوسٹ ڈاکٹریٹ، آئی آر سی بی ایم، کومسیٹس میں اسسٹنٹ پروفیسر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).