اورنگ زیب عالمگیر کے بارے میں متنازع بیانات


ہندوستان میں ہم بہت سے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔  ان مسائل میں سیاسی قائدین کے ذریعہ نازیبا اور نا مناسب الفاظ و اصطلاحات کا استعمال بھی ایک ہے۔ مگر ایسا صرف سیاست تک محدود نہیں۔ سماج کے با وقار اور حساس طبقے، جنہیں ہم ادیب، شاعر، ساءنسداں، تاریخ نگار اور سماجی ماہرین کی حیثیت سے جانتے ہیں، جب ان کی جانب سے استعمال شدہ نازیبا کلمات کو پڑھتے یا سنتے ہیں تو دل ڈوبنے لگتا ہے اور اصلاح کی امید کی روشنی پر نفرت کا سایہ پڑنے لگتا ہے۔ میں یہ واضح کرتا چلوں کہ سیاست دانوں کا دفاع میرا مقصد نہیں۔

نا پسندیدہ اور نا مناسب الفاظ سے مراد صرف گالی گلوج نہیں ہے بلکہ جو سیاق و سباق کی مناسبت سے غیر موزوں اور بے میل ہونے کے ساتھ ساتھ پر امن ماحول میں بد مزگی اور بد مزاجی کا باعث بنیں ساتھ ہی تنازعے سے بیمار سماج کو مزید تنازعے میں لا کھڑا کر دے۔

واقعہ یوں ہے کہ 9 دسمبر کو جشن ریختہ کے ایک پروگرام میں اردو کے بزرگ اور کہنہ قلم ادیب، پروفیسر قاضی عبد الستار صاحب نے پروگرام کے اخیر میں نہایت ہی تحکمانہ اعتماد سے نعرہ نما انداز میں یہ فرمایا کہ ‘اورنگزیب ایک غاصب تھا اور غزنوی ایک بین الاقوامی لٹیرا تھا’ اس نعرے کا حوالہ وہ اپنے لیکچر کے دوران دے چکے تھے ۔

ہال میں علم و ادب کے اس اثاثے (قاضی صاحب) کی زیارت کے لئے اساتذہ، محققین اور میری طرح کچھ طالب علم بھی حاضر تھے۔ یقیناً میں خود کو خوش قسمت مانتا ہوں کہ لڑکپن میں درسی کتاب کی معرفت جس ادیب کے ناول دارا شکوہ سے ایک سبق کے ذریعہ متعارف ہوا تھا پھر بعد کو ناول خالد بن ولید اور افسانہ پیتل کا گھنٹہ پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا آج ان کو سننے اور دیکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہورہا تھا۔ میں ان کی علمی و ادبی خدمات کا معترف ہوں اور میں ان کی تخلیقات کا ممنون ہوں کہ جنہوں نے موضوعات اور اسلوب نگارش کے تنوع سے اردو زبان و ادب کے خزانے کو مزید تقویت دی ہے۔ مجھے ان کے اس پروگرام کے اخیر میں کیے گئے تحکمانہ اعتماد سے پر اس نعرے نے حیرت زدہ کر دیا کہ اس مقام کا ادیب کسی تاریخی شخصیت پر اپنی رائے دینے کی بجائے یک لخت اس تاریخی شخصیت کو قلم زد کر رہا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ان شخصیات پر حال تک آنے والی سبھی تحقیق و تصنیف کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر مستقبل کے علم و تحقیق کے لیے ایک نہایت ہی غیر ذمے دارانہ مثال پیش کررہا ہے۔

واقعے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب میں لکچر ہال سے باہر آیا تو چند خاتون و حضرات اپنی عدالت لگاے ایک نیم دائرے میں بیٹھے تھے میں ان کی باتیں سن کر وہیں ٹھہر گیا کیونکہ یہ پورا گروپ قاضی صاحب پر برہم تھا بظاھر تعلیم یافتہ لوگ ان میں دو ایک لکھنے اور چھپنے والے بھی تھے۔ ان کو اورنگزیب اور غزنوی سے محبت اور عقیدت تھی جو قاضی صاحب کی ذات پر حملے کی شکل میں ظاہر ہو رہی تھی۔ نہ صرف قاضی صاحب بلکہ اردو زبان وادب اور ادیب، شاعر اور صحافی سب ان کی دشنام طرازی کی زد میں تھے ۔ قاضی صاحب نے بقول ان کے جو مفروضہ دیا ہے اس کے جواب میں ان کے نزدیک ان کی آخرت کا حساب وکتاب تھا، آر ایس ایس اور کمیونسٹوں سے ان کے تعلقات تھے۔ اردو زبان و ادب کی رشتتہ داری میں بھانڈ، دہریے، زندیق، شرابی اور مجرا باز جیسے لوگ تھے۔ رنج و اشتعال کو ظاہر کرنے کے لئے سب کچھ تھا بس نہیں تھا تو قاضی صاحب کے اس مفروضے کے جواب میں کوئی مستند اور قابل اعتبار علمی و تاریخی حوالہ۔ اسی دوران ایک فرد نے جو ابھی اس محفل سے جڑے تھے۔ معاملے کا علمی جائزہ پیش کرنے کے لئے پروفیسر عبد المغنی کی کتابوں کا حوالہ دیا ، جو کہ چند سال پہلے میں نے مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی سے خرید کر مطالعہ کی تھیں۔

اگر علمی و تاریخی نوعیت کے حوالے سے مغنی صاحب کی اورنگزیب، محمود غزنوی اور ٹیپو سلطان پر لکھی ہوئی کتابوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ قاضی صاحب کی طرح ہی دوسری انتہا پر ہیں۔ ان کتابوں کو پڑھ کر تاریخ نگاری کی بجائے قصیدہ نگاری کا شبہ کر نا بھی بے جا ہو گا۔ شوکت الفاظ کے علاوہ حقائق سے ان کا تعلق قائم کرنا جوے شیر لانے کے مترادف ہے۔ موصوف نے یہاں دستیاب وسائل اور حقائق کی چھان بین اور تجزیہ و تحلیل میں ان شخصیات کے انسانی پہلو، انتظامی اموراور عدالتی امور کا جائزہ پیش کرنے میں شخصیات سے عقیدت مندانہ تعلق کو پیش نظر رکھا ہے۔ اور ان شخصیات کو انسان اور بادشاہ کی حیثیت سے پیش کرنے کی بجائے آسمانی مخلوق بنا دیا ہے۔

واضح کر تا چلوں کہ مندرجہ بالا تمام شخصیات بشمول قاضی صاحب اور عبد المغنی صاحب سے مجھے محبت بھی ہے اورعقیدت بھی۔ اور ان کا احترام بھی میں اپنے اوپر لازم سمجھتا ہوں۔ مگر ان سب کے باوجود سچ زیادہ عزیز بھی ہے اور محترم بھی۔

علمی و تحقیقی سچ کی تلاش و جستجو میں ضروری حدود میں رہ کر اور نا مناسب الفاظ کے استعمال سے گریز کرتے ہوئے اپنے بزرگوں اور بڑوں کی باتوں سے اختلاف کرنا برا نہیں۔ علم کی ترقی میں بے جا احترام و عقیدت منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ روز ازل سے علم میں اضافہ مثبت تنقید و تقریظ کے ذریعہ ہی ہوا ہے۔

تاریخ نگاری کے اصولوں سے قاضی صاحب اور مغنی صاحب کے اس تاریخی بیان اور تاریخ نگاری کی قربت واضح نہیں ہے۔ اصول تو یہ کہتا ہے کہ تاریخ نگاری میں سچ کی تلاش میں آپ کسی بھی سچ کو آخری اور حتمی شکل میں قبول یا پیش کرتے وقت یہ خیال رکھیں کہ یہ مکمل نہیں اور وسائل و حقائق کے تجریے کی تکنیک و طریقہ میں تبدیلی سے سچ کی مزید تشریح ممکن ہے۔ مثال کے لئے 1857 کو تاریخ کی کتابوں میں مختلف مورخین نے مختلف ناموں سے موسوم کیا ہے۔ کسی نے غدر، کسی نے بغاوت، کسی نے جنگ آزادی، کسی نے انقلاب وغیرہ مگر سبھوں نے 1857 سے متعلق تھوڑے کم و بیش کے ساتھ ایک ہی طرح کے وسائل و حقائق کا استعمال کیا ان کا تجزیہ و تحلیل کیا اور اپنے ادراک سے نتیجے اخذ کرنے میں دلائل کو لازمی اہمیت دی ہے۔ کسی نے بھی اس کی کامیابی و ناکامی اور کمیوں کی پردہ پوشی نہیں کی ہے۔

اردو زبان اور دوسری زبانوں میں اورنگزیب، غزنوی اور ٹیپو سلطان پر منصفانہ اور تاریخی نوعیت کے جائزے کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں مواد موجود ہیں۔ قاضی صاحب کے ناول دارا شکوہ کے ساتھ پروفیسر محمد مجیب صاحب کا ڈرامہ خانہ جنگی کا مطالعہ فکشن کے مزے کے ساتھ تاریخ سے متعلق ذہن کو وسعت دے سکتا ہے۔ اورنگزیب اور غزنوی کے تعلق سے قاضی صاحب کی نفرت اور مغنی صاحب کی عقیدت سے پرے  Aurangzeb: The man and the myth  کی تصنیف  Audrey Truschke اور پروفیسر رومیلا تھا پر کی کتاب Somanatha: The many voices of a history کا مطالعہ موضوعات کو ان کے قریب قریب تاریخی پس منظر میں سمجھنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔

رائے صرف رائے ہے، کسی بادشاہ، ڈکٹیٹر یا زمیندار کا حکم نہیں لہذا علمی و تحقیقی جائزہ میں رائج اصطلاحات و الفاظ کی صداقت و سند کا خیال ضروری ہے نہ کہ حکم صادر کرنے کے انداز میں بیان دیا جائے۔

 کسی تاریخی اہمیت کی حامل شخصیت کے کسی ایک متنازعہ پہلو کی وجہ کر پوری شخصیت کو متنازع بنا دینا یا قلم زد کر دینا یا شخصیت سے عقیدت کی بنا پر اسے ماورائی خول میں مڑھ کر متبرک بنا دینا ، موضوع کے ساتھ ایک تاریخی ناانصافی ہے۔

کسی بھی علمی تنازعے کا جواب علمی انداز کے ساتھ ساتھ شایستہ اور مناسب زبان میں دیا جائے۔ علمی خزانے میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔ یہ بھی سچ ہے کہ ادب اور تاریخ کو آئیڈیالوجی نے متاثر کیا ہے۔ مگر اس میں بھی لوگ وسائل و حقائق کے تعلق ہی سے اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔ علمی کام کرتے وقت یا کوئی علمی جواب تحریر کرتے وقت یہ خیال رہے کہ شوکت الفاظ سے پر نعرہ بازی کی زبان سے پرہیز کیا جائے آیا ہماری یہی باتیں محترم ہونے کی بجائے بے حرمتی یا مزید کسی بڑے تنازعے کو جنم دینے کا باعث نہ بن جائیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ تعلیم یافتہ طبقہ خصوصاً اردو طبقہ ذاتیات میں الجھنے سے پرہیز کرے اور اردو و دوسری زبانوں میں موجود علمی وسائل سے نیے علوم کی روشنی میں بھر پور استفادہ کرے۔ اپنے جذبات اور غم و غصے کو قابو میں رکھتے ہوئے مثبت علمی و تخلیقی کا موں سے ان تنازعات پر اپنی رائے دنیا کے سامنے پیش کرے۔

میں یہ باتیں ہوا میں نہیں کر رہا ہوں۔ قاضی صاحب کے بیان کا رکارڈ ریختہ نے محفوظ کیا ہے۔ اور قاضی صاحب کے بیان کے اعتراض میں جو زبان استعمال کی گئی ہے کچھ حذف و اضافہ کے کچھ کتابوں اور تحریروں میں محفوظ ہیں۔ حوالے کے لئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک سے ایک پوسٹ کی اسکرین شاٹ سے کچھ الفاظ اس طرح ہیں: “جشن ریختہ میں باور کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی کہ اردو بھانڈ، دہریے اور مجرے باز شاعروں کی زبان ہے۔ اس پر سے سرکاری مراعات اور ایوارڈ یا سند یا کوئی ڈایریکٹرشپ، گیان پیٹھ، سرسوتی سمان پانے کی ہوس میں اردو کے لکھاری مجمع کو سمجھاتے ہیں کہ اورنگزیب غاصب تھا اور غزنوی انٹرنیشنل لٹیرا تھا اور تالیاں بجواتے ہیں وہ خود یہ نہیں سمجھ پاتے کہ جس پیتل کے گھنٹے کو ساہوکار لے گیا تھا، وہ گھنٹہ اب ناگپور میں پایا جاتا ہے………”۔

مندرجہ بالا عبارت میں الفاظ کا انتخاب اگر آپ کی طبیعت میں گرانی کا باعث نہیں بن پاتا تو آپ کی طرف سے سیاسی لیڈروں کی زبان کے گرتے معیار پر نوحہ خوانی کرنے کی کو ئی وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی ہے۔

میں ادیب یا لکھا ری نہیں بلکہ ایک طالب علم اور قاری ہوں اور مطالعہ کے لئے صحت مند ادب اور تاریخ کا متقاضی ہوں۔ خدا کے لئے ہم قارئین پر رحم کیجیے اور اپنی عقیدت و نفرت کے علمی میدان میں غیر معیاری لڑائی سے پرہیز کیجیے۔ ہم اردو میں بھی مستند اور صحت مند مواد پڑھنے کے اپنے حق کے احترام کے لئے آپ سے درخواست کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).