ماؤنٹین گائیڈز کا استحصال


تحریر :حانیا طارق ، ترجمہ: فدا حسین۔

شاید کوہ پیمائی کا شعبہ نو آبادتی نظام کی آخری نشانی ہو جس کا اعتراف 2015میں نیپال میں بننے والی دستاویز فلم ”شیرپا ”کے جائزہ میں کیا گیا ہے۔ در حقیقت اس فلم میں انسانوں کو مال برداری کے جانور کے طور پراستعمال ہونے کے طریقے کو نہایت خوبصورتی سے دکھا یا گیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں ہے۔ ماؤٹین گائیڈز اور دیگر عملے کو عموما نچلے درجے کے شہری تصورکیے جاتے ہیں، گاہک(کوہ پیما) اکثر اوقات عملے کے بارے میں زبانی طور پر ان کے پیشہ وارنہ مہارت اور تعلیم کے بارے میں شکایت کرتے نظر آتے ہیں جو کہ دونوں میں بد اعتمادی کے ساتھ اس شعبے کے لئے بھی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ انٹرنیشنل فیدریشن آف ماؤنٹین گایئڈز ایسوی ایشن کے صدر کرسچن ٹرومنڈف نے اپنے اس شعبے کے حوالے سے گفتگو کے دوران پورپ میں لوگوں کا ماؤنٹین گائیڈ کا پیشہ اختیار کرنے کے حوالے سے مختلف دلچسپ پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے مجھے بتایا تھا کہ ابتداء میں مقامی لوگ عارضی گائیڈز کے طور پرعام اور امیر لوگوں کی کوہ پیمائی میں مدد کرتے تھے۔ تاہم ان کی مالی حالت بہتر نہ ہونے کی وجہ سے انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اُن کی اِن باتوں کی تصدیق 2015میں الپائن کے سالانہ مجلے میں وان لوکی کی تحریر کردہ مضموں میں ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 19ویں صدی کے وسط میں کوہ پیما اپنے گائیڈز کوملازم کے بجائے غلام خیال کیا کرتے تھے ان کا یہ رویہ نہ صرف دونوں کی مالی استعداد میں تفاوت کی وجہ سے تھابلکہ وہ اپنی حفاظت کے لئے بھی یہ ضروری سمجھتے تھے۔

اسی طرح پاکستان میں گائیڈز کے حوالے سے مجھے بتایا جاتا ہے کہ اکثر اوقات کوہ پیما موسم کی خراب صورتحال کے باجود بھی اپنے عملے کو سامان لے جانے پر مجبور کرتے ہیں جس کی وجہ سے گائیڈز اور دیگر عملے کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ در حقیقت انٹرنیشل فیڈریشن آف ماؤنٹین گائیڈ ایسوی ایشن کا قیام 1820میں حمل ایکسڈنٹ واقعے کے بعد عمل میں آیا تھا جس میں تین گائیڈز ہلاک ہوئے تھے، فرانس کی شہر چارنکس میں پیش آنے والے اس واقعے کے بارے میں عوام کی عمومی رائے یہ تھی کہ ڈاکٹر جوزف حمل نے اپنے گائیڈزکی رائے کے برعکس انہیں غیر معمولی حالات میں بھی دباؤ ڈال کر کام کرنے پر مجبور کرنے کے نتیجے میں یہ حادثہ پیش آیاتھا۔ کرسچن ٹرومنڈف کے مطابق اس حادثے کے بعد اس شعبے کی حساسیت اور بڑھ گئی ہے اور آج کل یورپ میں گائیڈنگ ایک باعزت شعبہ بن چکا ہے جس میں وہ ایک دوسرئے کا خیال رکھتے ہیں 1857میں برٹس الپائن کلب کے قیام کے بعداور بہت سارئے الپائن کلب اور گائیڈ ایسوی ایشنز بننے لگے ہیں جو یورپ میں ماؤنٹین گائیڈز کے استداد کار کو بڑھانے کے لئے ٹرینگ کا بندوبست کرتے ہیں۔ 19ویں صدی کے دوسرے حصے میں برطانوی کوہ پیماؤں کی الپائن کلب میں شمولیت کے بعداس شعبے میں کافی بہتری پیدا ہوئی ہے اس وقت انٹرنیشل فیڈریشن آف ماؤنٹین گائیڈدنیا کے 6000گائیڈز کی نمائندہ جماعت ہے گائیڈز کی اس تعدامیں اضافہ متوقع ہے کیونکہ بہت سارے گائیڈ ایسوسی ایشنز کا ابھی تک اس ادارئے سے الحاق نہیں ہے۔

اس تمام تر صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے پاکستان میں کوہ پیمائی کی صورتحال 19ویں صدی والے یورپ کی طرح برقرار رہنے کے خدشہ ہے۔ ایک ہفتہ پہلے سکردو سے تعلق رکھنے والے ایک گائیڈ نے ہنستے ہوئے کہا کہ گائیڈ لائسنس کا حصول(محض) اسلام آباد کے دورئے پر منحصر ہے جہاں پرDTS ڈپارٹمنٹ آف ٹورسٹ سروس میں دو ہزار روپے، قومی شناختی کارڈ اور ایف۔ اے پاس سرٹیفیکیٹ کی کاپی جمع کرا دیں تو آپ کو گائیڈ لائسنس مل جاتا ہے، اس نے شرماتے ہوئے مزید کہا کہ 2011سے ابھی تک اس نے اپنے گائیڈ لائسنس کی تجدید (رینو) نہیں کرایا، کیونکہ شمشال اور ہوشے جیسے دور افتادہ گاؤں سے تعلق رکھنے والے کے لئے اسلام آباد کا سفر کافی مہنگا اور مشکل ہوتا ہے۔

فی الحال پاکستان میں گائیڈز کو ٹرینگ اور ٹیسٹ دینے کے لئے سرکاری سطح پر کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے جہاں سے انہیں معیاری گائیڈ ہونے کا سند مل سکے۔ ایک معیاری ماؤنٹین گایئڈ کو(کم از کم ) ایک خاص (حد تک) تعلیم، فرسٹ ایڈ، ریسکو، جغرافیہ، مقامی موسمی حالات اور قائدانہ صلاحت جیسے وسیع تجربہ اور مہارت رکھنے کے حوالے سے ایک تصدیقی لیٹر ایک ٹورآپرریٹرکے لیٹر ہیٹ پر لکھوا کرجمع کروانا ہوتا ہے۔ (جس کی بنیاد پر اسے گائیڈ لائسنس دیا جائے) الپائن کلب آف پاکستان کے ایک ایگزیٹو کونسل کے رکن کے مطابق چند سال پہلے گائیڈز کے لئے ایف اے کی شرط رکھی گئی تھی مگر (اتنی تعلیمی قابلیت والے گائیڈ) آسانی سے نہ ملنے کی وجہ سے یہ شرط کم کر کے میڑک کر دیا گیا ہے۔ ان کی ان باتوں کو مبہم سمجھتے ہوئے میں نے اسلام آباد میں DTS ڈپارٹمنٹ آف ٹورسٹ سروس سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ گائیڈ کے لئے کچھ استثنیٰ کے ساتھ ایف اے کی شرط برقرار ہے۔

میں نے اس ابہام کو مزید دور کرنے کے لئے اسلام آباد کے ایک لائسنس یافتہ گائیڈز سے ان کے ایف اے یا میٹرک پاس ہونے کے بارے میں پوچھا تو وہ پہلے میرے اس سوال پر کافی محظوظ ہوئے پھر انہوں نے کہا کہ ان سے صرف قومی شناختی کارڈ اور فیس کے بارے پوچھا گیا باقی ان سے جو کچھ پوچھا گیا تھاوہ اب(محض) تاریخ کا حصہ ہے۔ ان تمام ترصورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہائی الٹی ٹیوٹ سسٹینیبل پاکستان اور کھوپا کیئر نے ایک سروے کروایا جس میں 88 فعال گائیڈز نے حصہ لیا جس سے معلوم ہوا کہ 43 فیصد ایف۔ اے، 63 فیصد میٹرک پاس اور 16فیصد نے تو کوئی رسمی تعلیمی ہی حاصل نہیں کی ہے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کی کہ کسی گائیڈز کی قابلیت اور اہلیت کو جانچنے کا واحد پیمانہ رسمی تعلیمی ہی ہے بلکہ اس کے لئے مقامی حالات جیسے موسم کی صورتحال، جغرافیہ کے بارے میں آگاہی کو ہرگز انداز نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ زبان (غیرملکی کوہ پیماؤں سے بات چیت کے لئے) پر عبور حاصل کرنے کے لئے رسمی تعلیم ضروری ہے کیونکہ رسمی تعلیم نہ ہونے سے کوہ پیماؤں کے لئے اجازت ناموں کاحصول، قیام و طعام کابندوبست اور خط و کتابت وغیر ہ کی کارروائیاں شدید متاثر ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ سے گاہک (کوہ پیماؤں ) اور عملے کے درمیان بہت ساری غلط فہمیاں جنم لے کر مایوسی اور گھٹن کا سا ماحول بن سکتا ہے۔

ایک اور(اہم ) مسئلہ یہ ہے کہ ماؤنٹین گائیڈاور ٹریکنگ گائیڈز کے لائسنس میں کوئی فرق نہ ہونا ہے یعنی دونوں کے لئے الگ الگ مہارت درکار ہونے کے باجود دونوں کو ایک ہی جیسا لائسنس ملتا ہے۔ مزید یہ کہ گائیڈنگ کے شعبے سے منسلک افرادکے لئے باضابطہ میڈیکل چیک اپ بھی نہیں ہوتاجو کہ اس شعبے سے منسلک افراد کے لئے ضروری ہے۔ ماؤنٹین پلینٹ (نامی بین الاقوامی ادارئے) کے مطابق ایک لائسنس یافتہ گائیڈ کے لئے ہر تین سے پانچ سال میں میڈیکل چیک اور دیگر مہارت کے حوالے سے امتحان سے گزرنا لازمی ہے۔ تاہم اس سروے کے ذریعے معلوم ہو اکہ ہمارے ملک میں اس قسم کے اقدمات کا (ابھی تک) دور تک کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ سروے رپورٹ کے مطابق 88گائیڈز میں سے 28نے سروے میں حصہ لیا ان میں صرف ایک شخص کو اپنے خون کا گروپ معلوم تھا۔ تاہم گائیڈز کے لئے کوئی خاص معیار متعین کرنا (بھی )مشکل ہے کیونکہ کئی تجربہ کار گائیڈز پہاڑوں کی دنیا میں کئی دہائیوں کے تجربے کے بعد بمشکل عزت حاصل کر پاتے ہیں۔ البتہ پاکستان میں گائیڈنگ کاشعبہ ملک کے انتہائی شمال میں رہنے والوں کے لئے زائد ذریعہ آمد کا اہم ذریعہ ہے (کیونکہ) یہاں پر دیگر ذریعہ آمدن نہ ہونے کے برابرہے۔

ایک گائیڈ کو 15سو روپے سے 25سو روپے تک یومیہ اجرت دی جاتی ہے (جو ایک پورٹر کو ملنے والی اجرت سے کافی مختلف ہے کیونکہ ان(پورٹر) کے لئے گلگت بلتستان کونسل نے پڑاؤ (سٹیج )کے حساب سے اجرت طے کر رکھی ہے) وہ بھی پہلے سے طے نہیں ہوتی۔ 2005تک گائیڈ کی یومیہ اجرت 1500 روپے ملتی تھی تاہم ابھی تک سرکاری سطح پر اس اصول کو بھی نہیں اپنایا گیا اس لئے انہیں مناسب اجرت ملنے کا دار مدار ان کے باہمی گفت شنید پر منحصر ہے۔ اس لئے ان 88گائیڈز پر ہونے والے سروے کے مطابق ایک گائیڈ کی سالانی آمدنی 105739روپے ہے جبکہ دوسری طرف اکنامک سروے آف پاکستان کے سال 17۔ 2016کی رپورٹ کے مطابق ملک میں مجموعی طور پر سالانہ فی کس آمدنی 171656ہے اس حساب سے ایک گائیڈ کو 65917روپے کا سالانہ خسارہ ہوتا ہے۔ ان تمام تر خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ان دور افتادہ پہاڑی علاقوں کے لوگوں کے لئے گائیڈنگ اور پورٹر ی کا شعبہ شوق سے زیادہ واحد ذریعہ معاش کا درجہ رکھتا ہے۔

شمالی علاقوں میں گائیڈنگ کے شعبے سے منسلک افراد کی تعداد کے بارے معلوم کرنا تو مشکل ہے کیونکہ کھورپا کیئر کے صدر کے زاہد راجپوت کے مطابق بہت سے گائیڈ اپنے لئے لائسنس بنواتے ہی نہیں ہیں یا وہ ان کی باقاعدگی سے تجدید (رنیو) نہیں کراتے لہذا ان کے اندازے کے مطابق 350 سے 400 کے درمیاں لوگ باقاعدہ اس شعبے سے منسلک ہیں۔ یہ افراد نہ صرف گائیڈنگ کا کام کرتے ہیں بلکہ یہ لوگ ان گروپوں کے لئے ہماری ثقافت اور مہم جوئی کے حوالے سے حقیقی سفیر کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ اس لئے ماؤنٹین گائیڈز کو اس شعبے سے متعلق تما م امور پر مہارت ہونی چاہے جس میں کوہ پیمائی، ریسکو، قیام و طعام کا بندوبست کرنے کا فن، تاریخ و ثقافت اور جغرافیہ کے بارے میں معلومات شامل ہیں۔ تاہم اتنی قلیل آمدنی کے ساتھ وہ اپنے لئے اس قسم کی ٹریننگ حاصل نہیں کر سکتے جو اس شعبے سے منسلک افراد کے لئے ضروری ہے۔ اس لئے حکومت کو چاہیے کہ ان کو کوہ پیمائی کی سیاحت کے حوالے سے ترقی یافتہ ممالک میں ٹریننگ کے لئے بھیجنا چاہیے۔ مثال کے طور پر ایران اور نیپال جو ہمارے ہمسایہ ممالک ہیں جہاں پر ان کے گائیڈز ایسوی ایشنز انٹرنیشنل فیڈریشن آف ماؤنٹین گائیڈز ایسوی ایشن سے منسلک ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی میعار کے مطابق ٹریننگ دینے والے افراد مل سکتے ہیں۔ پاکستان میں گائیڈنگ کے لئے کوئی نظم و ضبط نہ ہونے کی وجہ سے یہ شعبہ خطرے سے زیادہ مذاق بنتا جا رہا ہے۔ جس کا اندازہ ہمیں وادی ہوپر میں چند بچے دن بھر ہمارے ساتھ پھر تے رہنے سے ہوا جو کہ ہمارے لئے گائیڈ کا کام کر رہے تھے جب شام ہوئے تو انہوں نے ہم سے (محض ) سو سو روپے کا تقاضا اجرت کے طور پر کرنے لگے۔

گائیڈز کے لئے جان لیوا خطرات سے محفوظ رہنے کے لئے ماؤنٹین پلینٹ نامی ادارے کی طرف سے متعین کردہ یہ دس اصول اس سخت اور پر خطر شعبے سے منسلک فراد کے لئے دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ (ان نکات میں سے ) ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ تکبر یا غرور انتہائی بدترین پالیسی ہوگی جوکہ آپ کا گاہک ہرگز پسند نہیں کرئے گا (اور )اس سے آپ کو بھی سخت رویے کا سامنا ہو گا۔ اپنے آپ کو ہر چیز کا ماہر ظاہر کرنے کے بجائے گاہک سے اس کی رائے ضرور لینی چاہیے۔ اس طریقے پر پر عمل کرنا پاکستان جیسے کوہ پیمائی کے بے شمار مواقع والے ملک کے لئے بہت حد ضروری ہے (کیونکہ ) یہاں پرایسی چوٹیاں بھی ہیں جن کو ابھی تک کسی نے کوئی نام بھی دیا ہے۔ اس طریقے سے گاہک اور گائیڈ دونوں ایک دوسرے کے عزت کرنے کے ساتھ بھائی چارئے طور پررہ سکتے ہیں جس پر عمل پیرا ہو نا ان پہاڑی علاقوں میں سفر کرنے والے دونوں فریق کے سفر کوخوشگوار اور محفوظ بنانے کے لئے ضروری ہے۔ تاہم بدقسمتی سے کوہ پیمائی کی جو صورتحال اس وقت ہمارے ملک میں رائج ہے اس میں ہم اس قسم کے ماحول پیدا کرنے کی لمحات کی طرف نہیں جا رہے ہیں۔
بشکریہ: فرائی ڈے ٹائمز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).