تعصب کیا ہے؟


سماجی رویوں کے تانے بانے میں تعصب غالباً خطرناک ترین ہے۔ دنیا کا کوئی خطہ یا معاشرہ تعصب سے پاک نہیں۔ کبھی نہ کبھی ہر انسان کو تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم میں سے بیشتر افراد اپنی مذہبی‘ نسلی‘ صنفی یا قومیتی شناخت کی بنیاد پر اس کے شکار ہوتے ہیں۔

تعصب برتنے والے بھی نقصان میں رہتے ہیں۔ کسی فرد یا سماجی گروہ کے لئے ہر لمحہ نفرت محسوس کرنے کا تجربہ بہرحال ایک منفی تجربہ ہے۔ یہ زندگی کے امکانات محدود اور زندگی کی توانائیاں اور مسرتیں معدوم کرتا ہے۔

سب سے پہلے مقدم ترین احساس تفاخر کی بات کیجئے۔ یہ جذبہ قوم پرستی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا میں پاکستانیوںکو محبت‘ احترام یا توصیف کی نگاہوں سے نہیں دیکھا جاتا۔ ہم پاکستانی دنیا بھر میں نفرت اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ اصولی طور پر یہ ایک کھلا تعصب ہے۔ مثال کے طور پر عالمی برادری پاکستانیوں کو بنیاد پرست‘ تشدد پسند‘بدعنوان‘ اسلحہ اور منشیات کے سمگلر اور انسانی حقوق کے غاصب کے طور پر دیکھتی ہے۔ ہمیں ایک ایسی قوم سمجھا جاتا ہے جو غیر اخلاقی رویوں کی حامل ہے اور انفرادی اور اجتماعی سطح پر عزت نفس سے محروم ہے۔ قومیت ہماری بہت سی شناختوں میں سے صرف ایک شناخت ہے جسے تضحیک اور تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ مذہبی اور نسلی شناختیں دنیا بھرمیں تعصب کا نشانہ بنائی جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ بھی کچھ شناختیں ہیں جن کی بنا پر تعصب برتا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ہماری رنگت‘ جسمانی ساخت یا جسمانی حالت کے سبب تعصب برتا جا سکتا ہے۔ فربہ اندامی‘ معذوری اور ایڈز جیسی بیماریوں کے سبب بھی لوگ دوسروں کے تعصب‘ طعن وتشنیع اور تضحیک کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ پوری انسانیت کا مسئلہ ہے۔

بڑے پیمانے پر موثر ہونے کے علاوہ تعصب انتہائی خطرناک بھی ہوتا ہے۔ کسی گروہ سے عمومی نفرت ناقابل یقین تشدد کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ اس گروہ کے افراد کو شرف انسانیت سے گرا ہوا تصور کیا جا سکتا ہے‘ قتل و غارت گری اور گروہی زنا بالجبر ہو سکتا ہے۔ منافرت کے مظاہرے اس قدرشدید نہ بھی ہوں تو کم شدت کے ساتھ یہ منافرت روزمرہ کی زندگی میں جاری و ساری رہتی ہے ۔یہ جذبہ دھیرے دھیرے پکتا رہتا ہے‘ کھولتا ر ہتا ہے اور رستا رہتا ہے۔ کبھی کبھار آتش فشاں کی طرح پھٹ بھی پڑتا ہے اور بستیاں بھی جلا ڈالتا ہے۔

تعصب کے سنگین اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ اس کا شکار فرد عزت نفس سے محروم ہو جاتا ہے جو زندگی کی سب سے قیمتی چیز ہوتی ہے۔ عزت نفس سے محروم شخص اپنے ہی باطن میں یہ تسلیم کر لیتا ہے کہ وہ اچھی تعلیم‘ اچھی خوراک‘ مناسب روزگار اور بحیثیت مجموعی زندگی کی مسرتوں کا حقدار نہیں۔ اس طرح وہ موجودمواقع سے بھی دستبردار ہو جاتا ہے۔

تعصب کی مرئی اور غیر مرئی لاتعداد شکلیں ہیں۔ دنیا کے بیشتر حصوں خصوصاً پاکستان میں تعصب کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ ہر ماہ کم از کم ایک واقعہ ایسا ضرور ہو تا ہے جو اخبارات کی شہ سرخیوں میں ظاہر ہوتا ہے اور جس میں بتایا جاتا ہے کہ فلاں مذہبی جماعت یا فرقہ کے افراد کو روزمرہ کے معمولات ادا کرتے ہوئے بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟

گزشتہ نصف صدی کے دوران نفسیات دان اس قابل ہوئے ہیں کہ وہ تعصب کی نفسیاتی وجوہات اور طریقہ کار کی نشاندہی کرسکیں اور اس کا حل تجویز کر سکیں۔ تعصب کیوں برتا جاتا ہے؟ اور اس رویہ کو تبدیل کرنااس قدر مشکل کیوں ہے؟ جب ہم کسی کو متعصب قرار دیتے ہیں تو دراصل ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص ایک خاص رویہ کا حامل ہے جوفلاں چیز یا قوم کے متعلق نفرت پر مبنی ہے اور یہ نفرت مذکورہ شخص کے اندر راسخ ہو چکی ہے۔ معنوی اعتبار سے تعصب کا مطلب ہے کسی کے متعلق فیصلہ صادر کر دینا اور مکالمہ اور تبدیلی کا امکان ختم کر دینا۔ یعنی نتیجہ نکالا جا چکا ہے اور متبادل حقائق اور وضاحتوں کی کوئی ضرورت نہیں۔

تعصب کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں جن میں کچھ نسبتاًمثبت بھی ہوتی ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ نسبتاً کم منفی ہوتی ہیں۔ ہم کسی مظلوم کے حق میں بھی متعصب ہو سکتے ہیں۔ انتہائی سطح کی حب الوطنی اپنے وطن یا قوم کے حق میں ایک طرح کا تعصب ہی ہوتی ہے۔ ”غلط ہے یا درست‘ حق پر ہے یا غلطی پر‘ یہ میرا ملک ہے‘ مجھے اسی کی حمایت کرنی ہے“۔ اس فقرے سے ہم سب کی سماعتیں آشنا ہیں۔ اس رویہ کا حامل شخص اپنے ملک یا اپنی پسندیدہ حکومت کی ہر قیمت پرحمایت کرتا ہے۔

لیکن نفسیات دانوں کی اکثریت متفق ہے کہ تعصب بنیادی طور پر ایک منفی جذبہ ہے۔ یہ کسی گروہ کے لئے ناپسندیدگی‘ منافرت اور دشمنی کا جذبہ ہے‘ محض اس لئے کہ اس گروہ کے ارکان کسی مخصوص شناخت سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہذا انہیں قابل نفرت تصور کر لیا گیا ہے۔ تعصب ایک ذہنی حالت ہے‘ ایک احساس ہے‘ ایک رائے ہے اور ایک فیصلہ ہے۔

معروف سماجی سائنس دان ہربرٹ بلمر 1961)ئ) کاکہنا تھاکہ متعصب اکثریتی گروہ میں چار جذبے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ (الف) وہ اقلیتی گروہ سے فطری طور پر بہتر ہیں (ب) اقلیتی گروہ اپنی خصوصیات میں مختلف اور اجنبی ہے‘ (پ) سہولیات‘ طاقت‘ حیثیت اور وقار پر اکثریتی گروہ کا حق ہے‘ اقلیتی گروہ کا نہیں اور (ت) یہ خوف اور شک کہ اقلیتی گروہ ان کے مفادات کے خلاف سازشیں کر رہا ہے۔ اس حوالے سے تعصب ہمیشہ ایک مجموعی موقف کی نشاندہی کر تا ہے۔

تعصب ہمیشہ شدید جذبات‘ کٹر عقائد اور راسخ رویوں کی صورت میں اظہار پاتا ہے۔ کٹر عقائد کے حوالے سے برتے جانے والے تعصب پر غور کیجئے۔ ہوتا یوں ہے کہ ایک مذہبی شناخت کے متعلق مجموعی طور پر ایک منفی رائے قائم کرلی جاتی ہے اور اس کے ہر فرد کو اس گروہ سے منسوب خصوصیات کا حامل تصور کر لیا جاتا ہے۔ انسانوں کے درمیان پایا جانے والا تنوع بے توقیر قرار پاتا ہے۔ اسی طرز احساس سے امتیازی سلوک جنم لیتا ہے۔ کسی قوم یا گروہ کے ساتھ ہونے والا امتیازی سلوک اس پر منطبق کی جانے والی اجتماعی منفی خصوصیات ہی سے جواز پاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).