تسلیم کیا جائے کہ پارلیمنٹ ہی قانون ساز ادارہ ہے


سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے اپنی سیاسی زندگی کے حوالے سے بنیادی نوعیت کے دو مقدمات میں فریق بننے سے گریز کیا ہے۔ ان میں سے ایک مقدمہ میں انتخابی اصلاحات کے ترمیمی قانون کا جائزہ لیا جا رہا ہے جسے متعدد اپوزیشن پارٹیوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ اور دوسرے مقد مہ میں آئین کی شق 62 کے تحت کسی رکن اسمبلی کی نااہلی کی مدت کے تعین کے بارے میں غور کیا جائے گا۔ نواز شریف نے ان دونوں معاملات میں فریق بننے سے انکار کیا ہے۔ انتخابات کے ترمیمی قانون کے بارے میں سماعت کرنے والے سہ رکنی بنچ کی سربراہی چیف جسٹس ثاقب نثار کررہے ہیں ۔ اس بنچ نے نواز شریف کو فریق بننے کی دعوت دی تھی تاہم ان کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف نے یہ د عوت قبول کرنے سے گریز کیا ہے۔ کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ قانون پارلیمنٹ نے منظور کیا ہے اور مسلم لیگ (ن) نے انہیں پارٹی کا صدر بنایا ہے۔ اس لئے اس میں اصل فریق پارلیمنٹ اور پی ایم ایل این ہیں ۔ دوسرے مقدمہ کے حوالے سے نواز شریف کا مؤقف تھا کہ اس معاملہ میں دوسری جماعتوں نے بھی درخواستیں دائر کی ہیں ، اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی شرکت ان درخوستوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے ۔ اس لئے وہ اس معاملہ میں بھی فریق بننا نہیں چاہتے۔ البتہ عدالت کے نام خط میں انہوں نے واضح کیا کہ اگر وہ فریق بننے کا فیصلہ کرتے تو اس مقدمہ کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بنچ میں شامل ان دو ججوں سے ضرور یہ درخواست کرتے کہ اس مقدمہ کی سماعت سے معذرت کرلیں کیوں کہ وہ پاناما کیس میں ان کے خلاف فیصلہ اور اس کے بعد متعدد مواقع پر ان کی ذات کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرچکے ہیں۔

آئین کی شق 62 کے تحت نااہلی کا فیصلہ ہونے کے بعد متعلقہ رکن اسمبلی کی نااہلی کے عرصہ کے بارے میں صورت حال غیر واضح ہے۔ اس شق میں رکن اسمبلی کے لئے صادق اور امین ہونے کی شرط رکھی گئی ہے۔ لیکن یہ طے نہیں کیا گیا کہ ایسے رکن کو اگر نااہل قرار دیا جائے تو یہ نااہلی کتنی مدت تک مؤثر ہوگی۔ موجودہ غیر واضح صورت حال میں اگر عدالتی فیصلہ میں مدت کا تعین نہ ہو تو اسے تاحیات نااہلی سمجھا جاتا ہے۔ جولائی میں پاناما کیس کے فیصلہ میں اسی شق کے تحت نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے لیڈر جہانگیر ترین کو بھی اسی شق کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے ۔ اس لئے اب سپریم کورٹ سے اس معاملہ کی وضاحت کرنے اور ایک مدت مقرر کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ یہ معاملہ اس لحاظ سے بھی نہایت اہم ہے کہ شقات 62 اور 63 کو سابق فوجی آمر جنرل (ر) ضیا الحق کے دور میں آئین کا حصہ بنایا گیا تھا۔ یہ دراصل ملک میں ایک خاص طرح کی اخلاقیات نافذ کرنے اور ضیا مرغوب اسلام کی ترویج کا حصہ تھا۔ لیکن اس دور کے خاتمہ کے بعد بھی چونکہ ملک میں سیاسی حکومتیں کمزور اور انتشار کا شکار رہی ہیں ، اور اس دوران نو برس تک ایک نیا فوجی جنرل پرویز مشرف بھی ملک پر حکمران رہا ہے ، اس لئے ان شقات پر نظر ثانی کے حوالے سے سیاسی کام نہیں کیا جاسکا۔

اب یہ غیر ضروری اور بے مقصد شقات اور ان میں صادق اور امین کے بارے میں عائد شرط بہت سے سیاست دانوں کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے۔ نواز شریف کو وزارت عظمی سے معزول کرکے اور کسی پبلک عہدہ سے نااہل قرار دے کر سپریم کورٹ نے ایک ایسا پنڈورا بکس کھولا ہے جس کے اثرات ملکی سیاست میں کافی عرصہ تک محسوس کئے جاتے رہیں گے۔ تاہم اب سپریم کورٹ اس بات کا تعین کرسکتی ہے کہ اس شق کے تحت کئے گئے فیصلہ کو ایک انتخابی مدت تک مؤثر قرار دے۔ لیکن سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے، جب تک یہ شقات آئین کا حصہ ہیں اور پارلیمانی اکثریت انہیں تبدیل کرنے پر اتفاق رائے نہیں کرتی، اس وقت تک ملک کی عدالتیں سیاسی امور میں غیر ضروری مداخلت کا سبب بنتی رہیں گی۔ اس صورت حال کی ایک وجہ تو سپریم کورٹ کی طرف سے خود کو ‘سیاسی سپر مین‘ کی پوزیشن پر فائز کرنے کا رویہ بھی ہے۔ عدالت عظمیٰ کو ان شقات کو استعمال میں لانے اور ان پر منتخب نمائیندوں کو نااہل قرار دینے کی بجائے یہ طے کرنا چاہئے تھا کہ اگر الیکشن کمیشن کی طرف سے کاغذات نامزدگی کی پڑتال کے دوران ان شقات کے تحت کسی امید وار کو امین اور صادق کی سطح سے کم تر نہیں سمجھا جاتا تو سپریم کورٹ بھی اس معاملہ میں سویپنگ بیان جاری کرنے اور حکم دینے سے گریز کرے۔ سپریم کورٹ اگر سوجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے اس معاملہ میں اپنا اختیار پھیلانے اور خود کو پاکیزگی اور اخلاص و دیانت کے اعلیٰ منصب پر فائز کرتے ہوئے دوسروں کی عیب جوئی سے گریز کرتی تو ملک کو ایک افسوسناک صورت حال اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک مباحث سے محفوظ رکھا جا سکتا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے بوجوہ ایسا نہیں کیا۔

اب بھی ان شقات کے اثرات پر غور کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے ججوں پر لازم ہے کہ وہ ان کی پیچیدگی، ان پر پائے جانے والے اختلافات اور متنازعہ آرا کی روشنی میں نااہلی کی مدت کو کم از کم سطح پر مقرر کرتے ہوئے پارلیمنٹ سے درخواست کرے کہ ان شقات پر نظر ثانی کی جائے۔ اور آئین کے عوامی نمائیندگی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے اصولوں کے مطابق ان میں مناسب تبدیلیاں لائی جائیں تاکہ آئیندہ عدالتیں اس بارے میں کسی غیر ضروری بحث کا نشانہ نہ بنیں۔ اس کے علاوہ اس فیصلہ میں یہ طے کرنے کی بھی ضرورت ہوگی کہ اعلیٰ عدالتیں آئین کی مشکوک اور زیادہ واضح شقات سے متصادم شق کے تحت فیصلہ کرتے ہوئے تحمل سے کام لیں اور جارحانہ رویہ اختیار نہ کریں ۔ اس طرح پاناما کیس میں قانون کو ‘سیاسی ہتھکنڈا‘ بنانے کا جو عدالتی رویہ سامنے آیا ہے ، اس کی تصحیح ہو سکے گی۔

اس طرح یہ اصول بھی واضح ہو سکے گا کہ قانون سازی اور آئین میں ترمیم یا متنازعہ اور غیر واضح امور کا تعین کرنا دراصل پارلیمنٹ کا استحقاق ہے۔ اس طرح سپریم کورٹ آئین اور قانون کی عملداری کے اعلیٰ ترین ادارے کے طور پر مملکت میں اداروں کی حدود کا تعین کرنے کا قابل قدر کارنامہ سرانجام دے سکے گی۔ اور پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتوں کو بھی یہ احساس دلوایا جاسکے گا کہ انہیں ہر سیاسی تنازعہ میں عدالتوں کو گھسیٹنے کی بجائے قوانین میں ترمیم اور تبدیلی کے حوالے سے ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔ موجودہ صورت حال میں یہ دیکھا گیا ہے کہ پارلیمنٹ میں اکثریت کی حمایت نہ رکھنے والی جماعتیں اپنے سیاسی مقاصد کے لئے سپریم کورٹ کو آلہ کار بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ پاناما کیس کا معاملہ اس کی روشن مثال کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ اسی طرح پارلیمنٹ کا کردار واضح ہو سکے گا اور اسی طرح سپریم کورٹ سیاسی معاملات میں الجھنے کی بجائے ملک میں نظام عدل کو مؤثر بنانے اور انصاف فراہم کرنے کے دیگر پہلوؤں کی طرف توجہ مبذول کرسکے گی۔

اسی حوالے سے دوسرا مقدمہ بھی سپریم کورٹ کو قانون کی تشریح کے حوالے سے اپنے کردار کو واضح کرنے کا موقع فراہم کررہا ہے۔ معتدد اپوزیشن پارٹیوں نے انتخابی ترمیم کے بل میں اپنی منشا کے مطابق تبدیلی میں ناکام ہونے اور نواز شریف کو دوبارہ پارٹی صدر بنانے کی شق کی وجہ سے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔ اب یہ پارٹیاں اور ان کے وکیل یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ ترمیم آئین کی روح کے برعکس ہے۔ یہ رویہ اپوزیشن پارٹیوں کے اس مزاج کا اظہار ہے کہ جب پارلیمانی مفاہمت کے ذریعے مقاصد حاصل نہیں ہو پاتے تو عدالت کو معاون بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی لئے اس ترمیم پر اصل شکوہ نواز شریف کے سیاسی منظرنامہ میں واپسی ہے جو ان جماعتوں کو اپنے سیاسی مستقبل کے لئے خطرہ لگتا ہے۔ سپریم کورٹ کو بھی اس معاملہ کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور پارلیمنٹ میں کئی راؤنڈز میں منظور ہونے والی ترمیم کو مسترد کرنے کا عاقبت نا اندیشانہ فیصلہ کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ کیوں کہ سپریم کورٹ نے قانون کی صراحت کے نام پر قانون سازی کا حق حاصل کرنے کی کوشش کی تو جو پارٹیاں آج ان سے مدد مانگ رہی ہیں ، وہی کل سیاسی پارلیمانی صورت حال تبدیل ہونے پر اس قسم کے رویہ پر نکتہ چینی کریں گی۔ سپریم کورٹ کا وقار بھی اسی میں ہے کہ وہ سب سے پہلے خود کو قانون کے دائرہ میں محدود کرے اور اس کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق کو تسلیم کرے۔

آج مقدمہ کی سماعت کے دوران بنچ میں شامل اعجاز الحسن نے جو ریمارکس دیئے ہیں ، اگر ان کی روشنی میں سپریم کورٹ کی منشا کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو کوئی خوش آئیند تصویر سامنے نہیں آتی۔ جسٹس اعجاز الحسن پاناما کیس کا فیصلہ کرنے والے ججوں میں شامل تھے۔ آج سماعت کے دوران ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر نواز شریف کو ’بے ایمان‘ قرار دیا تھا۔ کیا ایک بے ایمان شخص ایماندار لوگوں کی قیادت کرسکتا ہے ۔ کیا ایسے شخص کوپارٹی کا سربراہ بننے کا حق دیا جاسکتا ہے۔ اگر سپریم کورٹ کے جج اسی طرزعمل کا مظاہرہ کرکے پارلیمنٹ کے اختیار میں مداخلت کا سبب بنیں گے تو اس ملک میں جمہوریت سے زیادہ عدالتی اختیار اور وقار کو دھچکہ پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ججوں کو فیصلہ کرنے کے بعد آگے بڑھنا چاہئے۔ انہیں یہ ظاہر کرنا زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی معاملہ کا جائزہ اصولوں کی بجائے کسی شخص کے بارے میں ذاتی رائے کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ اسی لئے نواز شریف کی یہ رائے مناسب ہے کہ پاناما کیس میں فیصلہ کرنے والے ججوں کو ان بنچوں میں شرکت سے معذرت کرلینی چاہئے تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2765 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali