ساقی کی یاد میں


انتظار حسین، ساقی اور راشد اشرف

عزیز دوستو

میں نہیں جانتا کہ آپ میں سے کتنے خواتین و حضرات ڈاکٹر خالد حن قادری صاحب کو جانتے تھے یا ان کا نام سن رکھاہے۔ وہ گوشہ نشین عالم تھے۔ اردو اور فارسی ادب پر قادر تھے۔ عربی بھی جانتے تھے اور انگریزی تو خیر روز مرہ کی زبان تھی ہی۔

اس لئے یاد آگئے کہ، خالد حسن قادری ساقی کے اور میرے پیر مرشد تھے۔ ہم کو اگر کسی لفظ، کسی اصطلاح، کسی محاورے، کسی فقرے کے بارے میں کوئی دشواری ہوتی توقادری صاحب سے رجوع کرتے اور کبھی مایوسی نہیں ہوتی تھی۔
قادری صاحب کا انتقال ہوگیا تو ہم دونوں کے منہ سے ایک جملہ نکلا۔ ’’اب کیا ہوگا‘‘
یہ ایک جملہ اس بات کا شاہد ہے کہ عالِم جب تک جیتا رہتا ہے دنیا اس کی مرہون منت رہتی ہے۔ وہ کسی نہ کسی طور صرف اپنی موجودگی سے ہمیں ڈھارس دیتا ہے ہمارا سہارا ہوتا ہے
ساقی بہت سی باتوں میں میرا سہارا تھا، مجھے ڈھارس دیتا تھا
وہ مجھ سے عمر میں کوئی تین سال چھوٹا تھا، عقل، علم اور ذہانت میں ہزار برس بڑاتھا۔

مجھ سے کوئی تین سال پہلے لندن آگیا تھا، بی بی سی میں آنے جانے لگا تھا۔ باون سال پہلے میں پہنچا تو وہ بی بی سی کے تجربے کاروں میں تھا۔ ہم دونوں میں معلوم نہیں کیوں دوستی ہوگئی۔ میرے سپرد ایک پروگرام کیا گیا۔ نام تھا ’’ہم سے پوچھئے‘‘ جس میں سامعین سوال پوچھتے اور ہم ان کے جواب نشر کرتے۔ سوال اس طرح کے ہوتے کہ دنیا میں سب سے لمبا دریا کونسا ہے، ہمالہ کے بعد دوسرا اونچا پہاڑ کونسا ہے، مچھر اور مکھی جب صحت کو اتنا نقصان پہنچاتی ہیں تو قدرت نے انہیں کیوں پیدا کیا ہے۔ مشکل یہ تھی کہ اسی طرح کے معمولی سے سوال بار بار پوچھے جاتے تھے ان کے جواب دیتے دیتے طبیعت عاجز آگئی تھی اور کسی طرح اس چکر سے باہر نکلنے کا کوئی طریقہ نظر نہیں آتا تھا۔
ساقی نے کہا ایک ترکیب ہے۔

کیا ہے؟
پہلے جواب لکھ لو، پھر سوال بنا لو۔
کیا مطلب؟
مطلب یہ ہے کہ سوال بھی خود لکھو اور جواب بھی
اس سے فائدہ؟
فائدہ یہ کہ شاید کچھ ذہین لوگ سوال لکھ کے بھیجنے لگیں۔
ہم دونوں نے مل کے یہی کیا۔

سوالوں کے معیار پر اس نشریاتی بد دیانتی کا کوئی اثر ہوا یا نہیں اس کے بارے مورخ خاموش ہیں۔ چند ہفتوں کے بعد وہ پروگرام کسی اور پروڈیوسر کو دے دیا گیا۔ بعد میں بند ہوگیا۔
ساقی کا بہت سا وقت بی بی سی اردو سروس میں گزارتا تھا۔ زیادہ تر پروگرام میں شرکت کے بہانے۔ ساقی اردو بہت اچھی لکھتا تھا اور جس وقت بلاؤ آنے کے لئے تیار تھا۔
پچاس باون سال پہلے لندن میں یہ خوبیاں کسی ایک شخص میں مشکل سے ملتی تھیں

یاد آیا۔ دوستی کی ایک وجہ تھی۔ تاش۔

پروگرام کے خاتمے کے بعد میرے کمرے میں تاش کا دور شروع ہوجاتا تھا۔ ہم سب، یونس واسطی، راشد الغفور، محمد علی شاہ، ہندی سروس کے گوری شنکر جوشی، ڈ اکٹر گیان کوشک وغیرہ بیٹھ جاتے اور رات آٹھ نو بجے تک سگریٹ اور تاش سے فضا بوجھل رہتی۔ ایک شام ارودو سروس کے سربراہ نے ہمارے کمرے کا دروازہ کھولا۔ سگریٹ کے دھوئیں سے بھرے ہوئے کمرے کو دیکھا۔ am sorry کہا اور دروازہ بند کرکے چلے گئے۔

پھر دفتر کے علاوہ ہفتے اتوار کو بھی گھر پہ محفل جمنے لگی۔ اور یہ سلسلہ کئی سال جاری رہا۔
گھنٹوں کی محفلوں کے باوجود کبھی شاعری کا ذکر پیچ میں نہیں آتا تھا۔

معلوم تھا کہ ساقی شاعر ہیں۔ لیکن میں لاہور میں پاک ٹی ہاؤس سے اٹھ کے آیا تھا۔ ناصر کاظمی، شہزاد احمد، شہرت بخاری، سجاد باقر رضوی، منیر نیازی اور ایسے ہی دوسرے شاعر، دوست نہ سہی انہی میزوں پر اٹھنے بیٹھنے والے، شعر کہنے والے لوگ تھے جہاں ہم چودہ پندرہ سال بیٹھ چکے تھے۔
تو اب کوئی شعر کہہ کے رعب نہیں ڈال سکتاتھا۔

آپ کو کہیں یہ خیال تو نہیں ہورہا کہ میں اپنی کوئی بڑائی ظاہر کرنا چاہ رہا ہوں؟
دیکھئے ہم آپ زمانے کی آنکھیں اور زبانیں ہیں۔ زمانہ اپنی حکایت ہماری زبانوں سے بیان کرتا ہے۔
تویہ پچا س پچپن سال پہلے ایک گزرے زمانے کی حکایت ہے۔ کوئی بڑائی نہیں ہے۔

خیر توساقی شاعری میں اپنا مقام بناتے رہے، اپنے وقت سے داد وصول کرتے رہے، شعلے کی طرح لپکتے رہے۔ ان کے ہم عصر اس شعلے کی تندی اور تیز ی کے سامنے دیواروں پر سائے کی طرح چلتے پھرتے نظر آتے تھے۔ انہیں اب بی بی سی کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ آنا جانا کم ہوگیا۔ لیکن ربط ضبط قائم رہا۔
شہرت اور جذبات کی رو میں ان سے کیا کچھ سرزد نہیں ہوا یہ لکھا جارہا اور لکھا جاتا رہے گا۔

میں ساقی سے بہت آگے جاکے مرعوب ہوا۔ شاعری سے نہیں اس کی نثر سے۔
غالباً 1995 میں ساقی نے اپنی کتاب ’’ ہدایت نامہ شاعر‘‘ مجھے بھیجی۔ اس وقت تک میں یہ بات بھول چکا تھا کہ وہ جب بی بی سی اردو سروس کے لئے لکھتا تھا تو تحریر موثر ہوتی تھی۔
اب جو یہ کتاب دیکھی تو آنکھیں کھل گئیں۔

ایسی شستہ زبان۔ پیچیدہ سے پیچدہ خیال اور احساس کو اس طرح الفاظ سے جامہ زیب کرنا کہ کہیں ابہام پیدا نہ ہو۔ یہ بات بہت کم ملے گی آپ کو۔
ایک مثال دیکھئے۔

زہرہ نگاہ کی ایک غزل پر مختصر سے تبصرے کا آخری پیرا ہے یہ۔ زہرہ کی بہت مشہور غزل ہے ’’اپنا ہر انداز آنکھوں کو ترو تاز ہ لگا‘‘۔ وہ والی غزل۔ سا قی لکھتا ہے۔
’’یہ غزل پہلے مصرع سے آخری مصرع تک ایک ہندوستانی ؍ پاکستانی ’’عورت ‘‘ کی سرشاری ہے۔ عورت میں نے اس لئے کہا ہے کہ اس میں لڑکی کا الہڑپن نہیں جو مثال کے طور پر پروین شاکر کی ایک خوبصورت غزل ’’ شوقِ رقص سے جب تک انگلیاں نہیں کھلتیں‘‘ میں ہے۔ پروین کی غزل میں کنوار پن کی کچی خوشبو ہے۔ آپ کی غزل میں سہاگن کا انبساط ہے۔ محبت سے لبریز اس غزل میں اندر کی اتھاہ سرخوشی کا بھاری بھرکم پن ہے۔ اس غزل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ پہلے ہی لفظ کے ’’گھماؤ‘‘ نے یکا یک محسوس ہونے والی خوشی کواپنی گرفت میں لے لیا ہے اوربحر کی موسیقی کو جنم دیا ہے جو ذات کی امنگ سے ہم آہنگ ہوگئی ہے‘‘۔

اس صدی کے شروع میں مجھے دھن سوار ہوئی کہ صحافیوں کے لئے ایک ڈکشنری مرتب کردوں۔ میں سمجھا تھا کہ آسان کام ہوگا۔ کرنے بیٹھا تو دانتوں تلے پسینہ آگیا۔
بی بی سی کے اپنے ایک بزرگ ساتھی وقار احمدکو، دو بہت عزیز دوستوں حسن ذکی کاظمی کو جو دینی اور سائنسی موضوعات پر قادر تھے ا ور سجاد ناظم زیدی کو جو اقوام متحدہ کے شعبہ اشاعت میں وقت گزار چکے تھے (دونوں مرحوم ہوچکے ہیں) کام میں شریک کیا اور ساقی سے کہا کہ وہ شعر و ادب کی اصطلاحوں میں میری مدد کرے۔
میں اصطلاح اور اس کا مفہوم لکھ کے بھیجتا یا ٹیلیفون پر پڑھ دیتا۔

مجھے یاد ہے کہ ایک اصطلاح New critism کا صحیح مفہوم لکھنے پر ہم دونوں نے کئی دن صرف کیے تھے کیونکہ میری لکھی ہوئی عبارت سے ساقی متفق نہیں ہورہا تھا۔ ویسے اس کے حافظہ اورشعر پر عبور نے بڑا ساتھ دیا۔ اور اس نے بہت موزوں اشعار بطور حوالہ لکھ کر میری مدد کردی۔
دو مثالیں دینا چاہوں گا۔

ایک اصطلاح ہے Concrete Poetry مفہوم میں نے بتا دیا کہ رومانی فضا سے خالی ایسی شاعری جس میں بات ایسے الفاظ کے انتخاب سے کی گئی ہوجو منظر کو نگاہوں کے سامنے لاکے کھڑا کردیں۔
ساقی نے برجستہ دو مثالیں مجھے لکھوا دیں۔ میر کا ایک شعر:
میرے سنگِ مزار پر فرہاد رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد

اور ایک شعر غالب کا:
باغ پاکر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے سایہ شاخ گل افعی نظر آتا ہے مجھے۔
یعنی وہی گل جسے محبوب کا درجہ حاصل ہے اس کا سایہ سانپ بن سکتا ہے۔
میں نے ساقی سے کہا اصطلاح یہیں ختم نہیں ہوتی۔ مزید یہ کہ انگریزی شاعر ی میں الفاظ کو اس طرح تحریر کیا جاتا ہے کہ وہ خود معنی کا سانچہ بن جائیں۔ ساقی نے کہا ہاں میری دو نظمیں ہیں جن میں الفاظ کو یہی شکل دی گئی ہے :
وقت واماندہ پرندے کی طرح لٹکا ہوا چیختا ہے:

اس مصرعے میں لفظ لٹکا اس طرح لکھا گیا ہے کہ ل اس کے نیچے ٹے اس کے نیچے ک اور آخر میں الف
ل
ٹ
ک
ا
دوسری مثال
پٹ سن کی مضبوط سلاخیں دل میں گڑی ہیں
سلاخوں کی سین کے تین شوشے اس طرح لکھے گئے ہیں کہ سلاخ کی شکل اختیار کرجاتے ہیں۔

اس ڈکشنری میں، جس کے پاکستا ن اور ہندوستان میں تین ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، جگہ جگہ ساقی کے علم اور اس کی سمجھ بوجھ کی چھاپ ہے۔
ایک اور اصطلاح کا ذکر کردوں Hatchet Job or Work۔ مفہوم ہے کسی پر تنقیدی مضمون لکھتے ہوئے اس پر بلا کی ضرب لگانا۔ اس کو خوار کرکے رکھ دینا۔
میں نے ساقی سے اس کی مثالیں نہیں پوچھیں۔ خود ہی دو تحریروں کا ذکر کردیا:
ساقی فاروقی کا مضمون ’’ نابالغ شاعری کی ایک مثال‘‘ جو انہوں نے وزیر آغا کے بارے میں لکھا تھا۔
اور اپنے پیر و مرشد ڈاکٹر خالد حسن قادری کی کتاب ؍ خطوط قادری ؍ جس میں نظیر صدیقی پر شدید اعتراض کیے گئے ہیں۔
مجھے معلوم نہیں کہ ان دونوں نے یہ حوالے دیکھے تھے یا نہیں۔

نثر تحریر کرتے ہوئے وہ جنون کی حد تک صحت الفاظ کا خیال رکھتا تھا اور انگریزی punctuation۔ کاما، فل سٹاپ یعنی اعراب کا بہت قائل تھا۔
پاپ بیتی آپ بیتی کے کچھ باب میں نے اس کے ساتھ بیٹھ کے لکھے۔ میں بات بات میں اس سے جھگڑا کرتا تھا کہ اگر تم نے اتنے زیادہ کامے، کولن اورسیمی کولن ڈلوائے تو تمہارا قاری گھبرا جائے گا۔ اردو پڑھنے والاعادی ہوتا ہے سیدھی سپاٹ عبارت پڑھنے کا۔ قاری کو کلیاں پھندنے لگی تحریر پڑھنے کی عادت نہیں ہے۔ اس نے میری ایک نہیں سنی۔ اور کامے ڈلوا کے رہتا۔
اسی طرح کے ایک کامے نے اسے تین سال پہلے مرنے سے بچا لیا تھا۔

جس سے بات کرو وہ ساقی کو خونخوار، خود پرست کہتا ہے۔ اتنے لوگ کہہ رہے ہیں تو میں مانے لیتا ہوں۔ لیکن ایک واقعہ جو ساقی کے مرنے کے بعد ہوا اس کا ذکر کرنے کا جی چاہ رہا ہے۔
کوئی دس دن پہلے صبح صبح ٹلیفون آیا، نوشابہ تھیں، خالد حسن قادری مرحوم کی اہلیہ۔ میں نے ان سے بہت معافی مانگی کہ ساقی کی تجہیز و تکفین سے انہیں مطلع نہیں کرسکا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ساقی سے ٹیلیفون پر ان کی بات اس دن ہوئی تھی جس دن گنڈی کی آخری رسوم ادا کی گئی تھیں۔ اوریہ بھی کہ ساقی نے منع کردیا تھا کہ اس سے ملنے نہ جائیں۔ اس کے بعد کہنے لگیں کہ میں ساقی بھائی کا احسان کبھی نہیں بھولونگی۔

جو انہوں نے کہا وہ بہت ہی مختصر چند الفاظ میں یہ تھا کہ :
قادری صاحب ایک رات اتنے شدید بیمار ہوئے کہ وہ نہ اٹھ سکتے تھے نہ بول سکتے تھے۔ صبح کو میں نے سنا کہ وہ دیوار پر کوئی چیز مار رہے تھے تاکہ میں دھمک سن کے ان کے پاس چلی جاؤں۔ ان کے کمرے میں گئی تو ایک پرچے پر لکھ رکھا تھا کہ ساقی کو ٹیلفون کرکے بلالو۔ میں بھاگی بھاگی گئی۔ ٹلیفون کیا۔ ساقی آناً فاناً پہنچ گئے۔ ایمبولنس بلائی ساتھ بیٹھ کے اسپتال گئے اور اس طرح قادری صاحب کی جان بچائی۔
ایک خونخوار، خود پرست شخصیت کا یہ دوسرا رخ تھا۔

میں نے گنڈی کا ذکر دانستہ طورپر نہیں کیاہے۔ صدیوں پہلے جب میں دہلی میں رہتا تھا تو وہاں نیک عورت کے لئے ایک اصطلاح بولی جاتی تھی کُل ونتی۔ وفا شعار۔ اور ایک اور بڑا پیارا سا لفظ ہندی بھاشا میں ہے پتی ورتا۔ عام طور سے لوگ پتی ورتا کے معنی سمجھتے ہیں شوہر کی خدمت کرنے والی۔ نہیں۔ شوہر سے عشق کرنے والی۔
میرے خیال میں گنڈی کے لئے ہمیں اسی طرح کی ایک یادگار تقریب کرنی ہوگی۔

مرنے کی دعائیں مانگ مانگ کے بالاخرساقی چلا ہی گیا اور اپنے ساتھ وہ سارا علم، وہ ساری ذہانت، وہ خونخواری، خود پرستی اورمحبت بھر ا دل بھی لے گیا۔
چپکے سے میری زندگی کا ایک ٹکڑا بھی اپنے ساتھ لے گیا ہے۔
تنہا گئے اب رہو تنہا کوئی دن اور۔

6 فروری 2018 کو اردو مرکز لندن اور تھرڈ ورلڈسَو لی ڈَیرٹی کے زیر انتظا م ساقی فاروقی کی یاد میں ہاؤس آف کامنز میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں پڑھا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).