عاصمہ جہانگیر ۔ مظلوموں کی ماں


معروف قانون دان اور پاکستان کی تاریخ میں انسانی حقوق کی سب سے بڑی علم بردار، عاصمہ جہانگیر کا یوں دنیا سے رخصت ہوجانا کوئی عام واقعہ نہیں بلکہ یہ ملکہ کے مظلوم طبقے کے لئےدراصل یتیم ہونے کی خبر ہے ۔

عام پاکستانی اس سانحے پر دو چار روز افسوس کریں گے، کچھ روایتی پروپیگنڈا کے زیر اثر پلنے والے لوگ یہ بھی کہیں گے کہ اچھا ہوا مر گئی، اس کی میت کو بھارت بھیجدو فلان ڈھمکاں۔۔۔۔  بکواس کی لسٹ لمبی ہے۔۔۔۔ خیر ان کے اس طرح چلے جانے کا سب سے زیادہ نقصان قوم کے اس طبقے کو ہوگا جن کہ آواز میں آواز ملانے میں ان کے سگے بھی پیچھے رہ جاتے ہیں مگر عاصمہ جہانگیر وہ نام ہے جس نے اس قوم کے غریب عوام کی کسی سے بھی بڑھ کر مدد کی۔ یہ ہر مظلوم کی ماں تھی ۔ ‘Mother of the Oppressed’ –

 کہنے میں عجیب لگتا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ غریب اور مظلوم کو خود ڈھونڈ لیتی تھی کہ ‘ آؤ میں بنوں گی تمہاری آواز، میں تمہارے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گی’۔

انتقال سے چند دن قبل بھی پختون لاپتا افراد کے دھرنے میں شرکت اور وہاں کی گئی ان کی بے باک تقریر غیور پختون بھائیوں سے ایک زبردست اظھار یک جہتی کی علامت تھی۔

عاصمہ جہانگیر ایک لبرل خاتون تھیں اور یہ ایک ایسا طبقہ ہے جو کہ ویسے ہی ملک دشمنی کے طعنے سنتا ہے مگر ان کے لئے سب مظلوم ایک جیسے برابر تھے۔

بلوچستان میں لاپتا افراد کا معاملہ ہو یا پختون خوا کا، پنجاب کے غریب بھٹہ مزدور کا معاملہ ہو یا سندھ سمیت ہر صوبے میں معاشرے کی ستائی ہوئی عورت کی بے چارگی کا معاملہ ہو، عاصمہ جہانگیر تو سب کی آواز بنی۔

یہاں تک کہ جب متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین پر پابندی لگی تو ان کا کیس یہ کہہ کر لڑا کہ یہ تاثر نہ جائے کہ ایک پنجابی کسی مہاجر کے لئے آواز نہیں اٹھا رہا۔

نظریاتی اختلاف اپنی جگہ مگر انہوں نے لال مسجد آپریشن کی زد میں آنے والی مدرسے میں موجود طالبات کے لیے بھی آواز اٹھائی حتیٰ کہ زیادتی کی شکار مختاراں مائی کے لئے ایسی آواز بنی کہ جس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی۔

ان پر کافر ہونے کا فتویٰ لگنا ایک عام سی بات تھی کیونکہ یہ کام افسوس کے ساتھ ہمارے ملک میں بڑی جلدی ہو جاتا ہے پر میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ کچھ لوگوں کو کچھ خاص کاموں کے لئے مقرر کرتا ہے اور عاصمہ جہانگیر نے خلق خدا کی خوب خدمت کی اور وہ بھی ثواب کی خاطر نہیں بلکہ صرف اور صرف انصاف کے لیے۔

بہادری اور نڈر پن کی انتہا یہ کہ جن معاملات سے ملک کے بڑے بڑے مرد جان چھڑاتے ہوں ایسے معاشرے میں اس عورت نے وقت کے ظالموں، جابروں اور آمروں کو للکارا۔

آج بھی ٹی وی کی جھلکیاں سامنے آجاتی ہیں کس طرح 2007 کی عدلیہ بحالی تحریک مردوں سے ایک قدم آگے جا کے لڑیں اور بالآخر یہ تحریک آمریت کے خاتمہ کا سبب بنی۔

میڈیا میں موجود بھی ایک خاص گروپ ان کا ناقد رہا پر جب کبھی میڈیا پر قدغن لگانے کی کوشش کی گئی عاصمہ جہانگیر وہاں بھی میڈیا نمائندگان سے ایک قدم آگے نظر آئیں۔

اپنے نام عاصمہ کی طرح اتنی قدآور شخصیت ہونے کے باوجود سیاست سے دور رہنا یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ وہ صرف و صرف غریب و مظلوم کے لیے محنت کرنا جانتی تھیں وگرنہ عاصمہ جہانگیر جیسی بلند و باگ شخصیت کو کون سی سیاسی پارٹی نے شمولیت کی دعوت نہ دی ہوگی؟

ملکی کی آزاد خیال سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی، سب ہی کی طرف سے ان کی موت پر رنج کا اظہار ان کے انسان دوست ہونے کا ثبوت ہے۔

آج عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر جہاں کچھ لوگ خوشیاں منا رہے ہیں اور ان پر غداری کے فتوے لگا رہے ہیں تو یہ بھی کوئی نئی بات نہیں۔ جس ملک میں بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح کو غدار کہا جائے، شہید بینظیر بھٹو کو سیکیورٹی رسک قرار دیا جائے، اس فہرست میں مظلوموں کی ماں عاصمہ جہانگیر کا شمار ہونا تو پھر فخر کی بات ہے۔

جس آزادی راے کے حق کو استمال کر کے آج ایک چھوٹا سا ذہنی بیمار طبقہ ان کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہا ہے کل کو ان میں سے بھی کوئی مدد کو پکارتا تو وہ ان کی آہ پر لبیک کی صدا بلند کرتی۔

اس عظیم خاتون کے ساتھ ان ذہنی بیماروں کا تذکرہ ویسے نہیں کرنا چاہے مگر ان کا مسئلہ یہ ہے کہ کتاب تو کیا، کبھی اخبار کا مطالعہ بھی نہیں کیا ورنہ اپنے مخالفین کے لئے بھی عزت کرنا جانتے۔ کس طرح ان کی دورہ بھارت اور اسرائیل کی تصویر کا منفی پراپیگنڈہ کیا گیا، کاش یہ نادان دوست ان کی کشمیر میں ظلم و جبر کے خلاف مرتب کردہ رپورٹ ہی پڑھ لیتے۔

آج نوجوان نسل کے لئے وقت کا تقاضا یہ ہے کم از کم عاصمہ جہانگیر کی طرح اصول پرست اور مظلوموں کی آواز بن کر زندگی گزاریں۔۔ جو مظلوم ان کے فوت ہوجانے سے یتیم ہو گئے، ان کی آواز بننے کی کوشش کریں تاکہ ان کی آواز کی گونج ہمیشہ قائم رہے کیوںکہ بلاشبہ عاصمہ جہانگیر ہر ظلم کے خلاف اٹھنے والی آواز کی صورت میں زندہ و جاوید رہیں گی ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).