براہِ کرم سوات اور اہل سوات کو اب تو معاف کر دیں!


ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصہ ہونے کو آ رہا ہے کہ سوات اور اہل سوات ایک نہ ختم ہونے والی تکلیف دہ صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ سوات سے ’’طالبان‘‘ کا خاتمہ تو کر دیا گیا ہے لیکن اہل سوات کے مصائب اور آزمائشیں ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آ رہی ہیں۔ 2005ء میں سواتی طالبان کیسے وجود میں آگئے تھے اور انھیں خاص مقاصد کے لیے کیسے پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کر دئیے گئے تھے، یہ اب کوئی سربستہ راز نہیں رہا۔ جن ریاستی قوتوں کی پشت پناہی سے یہ سب کچھ وقوع پزیر ہوا تھا، انھوں نے اپنے بیشتر مقاصد حاصل کر لیے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں سوات کے لوگ ایک عذابِ مسلسل سے دوچار ہیں۔ کبھی انھیں سکیورٹی چیک پوسٹوں پر ذلیل کیا جاتا ہے اور کبھی ان کے گھروں کی تلاشی لے کر چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا جاتا ہے۔ ان پر مزید ظلم یہ ڈھایا جاتا ہے کہ سوات میں مقیم سکیورٹی اہل کاروں کی غفلت اور کوتاہی سے جب کوئی بم دھماکہ ہوتا ہے تو پورے علاقے میں غیرعلانیہ کرفیو نافذ کر کے عوامی زندگی کو مفلوج کر دیا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سکیورٹی چیک پوسٹوں پر اتنی سخت چیکنگ کے باوجود بم یا خود کش دھماکہ ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذلت آمیز سخت چیکنگ محض عوام کو بے توقیر کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ اس کا بظاہر کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔

جب سوات میں طالبانائزیشن کا ڈرامہ جاری تھا (جس کی اقساط اب بھی جاری ہیں) تو اس وقت تو سکیورٹی چیک پوسٹوں پر سخت چیکنگ سمجھ میں آتی تھی اور کرفیو کے دوران ہسپتال لے جانے والے مریضوں کو جب سکیورٹی چیک پوسٹوں پر روکا جاتا تھا تو سکیورٹی اہل کاروں کے پاس ’’معقول‘‘ بہانہ موجود تھا کہ ’’وحشی طالبان‘‘ کی وجہ سے کرفیو نافذ کردیا گیا ہے اور کرفیو کے دوران مریضوں کو ہسپتال لے جانے کی اجازت نہیں۔ اُس وقت بھی بہت سے مریض بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے چیک پوسٹوں پر تڑپ تڑپ کر مرتے رہے تھے لیکن اب جب کہ حکومت اور فوجی حکام فخر سے بار بار اعلان کرتے رہتے ہیں کہ سوات میں دہشت گردوں کا قلع قمع کر دیا گیا ہے اور وادی کے طول و عرض میں سبز ہلالی پرچم لہرا دیا گیا ہے تو اس وقت سوات کے بعض علاقوں میں غیرعلانیہ کرفیو، چیک پوسٹوں پر پُرامن لوگوں کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اور غیر ضروری سختی کیا معنی رکھتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ دہشت گردوں کی تلاش کے بہانے بعض علاقوں میں گھر گھر سرچ آپریشن بھی کیا جاتا ہے جو چادر اور چاردیوار کے تحفظ کی پامالی کے مترادف ہے۔

سوات میں موجودہ صورتِ حال اس وقت خراب ہوئی جب 3 فروری کو تحصیل کبل میں مبینہ طور پر ایک خود کش حملہ میں 11 سکیورٹی اہل کار جاں بحق اور 13 زخمی ہوگئے تھے۔ خود کش دھماکہ اس وقت ہوا تھا جب سکیورٹی اہل کار ایک آرمی یونٹ کے کھیل کے میدان میں کھیل رہے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سخت سکیورٹی چیکنگ اور اہم مقامات پر سی سی ٹی وی کیمروں کی موجودگی کے باجود ایک خود کش حملہ آور اس مقام میں کیسے داخل ہوا؟ اس کوتاہی کی سزا متعلقہ سکیورٹی اہل کاروں کو ملنی چاہئے یا معصوم عوام کو۔ اس دھماکہ کے بعد اہلِ سوات کی شامت آئی ہوئی ہے۔ تمام سکیورٹی چیک پوسٹوں پر گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں لگنا شروع ہوگئی ہیں۔ پرامن لوگوں کو نہایت نامناسب انداز میں تلاشی کے مراحل سے گزارا جانے لگا ہے جس کی وجہ سے عوامی زندگی معطل ہوکر رہ گئی ہے۔ چیک پوسٹوں پر ہسپتال لے جانے والے مریض رُلنے لگے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہسپتال لے جانے والا ایک بیمار بچہ خوازہ خیلہ چیک پوسٹ پر جاں بحق ہوگیا جس کی وجہ سے سوات بھر میں سکیورٹی اداروں کی اس زیادتی کے خلاف سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ہمارے سکیورٹی اہل کاروں کے دل میں رتی بھر رحم یا انسانیت موجود نہیں ہے۔ انھیں جب پتا چلتا ہے کہ گاڑی میں کوئی مریض ہے جسے فوری طبی امداد کی ضرورت ہے، تو مریض کے رشتہ داروں کی درخواست کے باوجود اسے معمول کی سکیورٹی چیکنگ کے بغیر آگے جانے نہیں دیا جاتا۔ ایسا ظلم اور ناروا سلوک تو شاید کسی بھی انسانی معاشرے میں نہیں ہوتا ہوگا۔ کیا ہمارے مقتدر لوگوں کے رویے اس قدر غیر انسانی ہوچکے ہیں؟ کیا انھیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ ایمبولینس یا کسی مریض کو لے جانے والی گاڑی کو روکنا انسانیت کے خلاف جرم تصور کیا جاتا ہے۔ ایسا اگر کسی مہذب اور متمدن ملک میں ہوجائے تو کسی امتیاز کے بغیر ایسی رکاوٹ ڈالنے والی بڑی سے بڑی قوت کو نشانِ عبرت بنایا جاتا ہے لیکن افسوس ہمارے ملک میں کوئی قانون نہیں، کوئی اخلاقی اقدار باقی نہیں رہی ہیں، جس کے ہاتھ میں جتنا اختیار ہوتا ہے، قانون اور آئین اس کے لیے اتنے ہی موم کی ناک بن جاتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سکیورٹی اہل کار ملک بچا رہے ہیں یا عوام کے دلوں میں نفرت کے بیچ بو رہے ہیں۔ وطن عزیز میں بلوچیوں اور پختونوں کے ساتھ ایک طویل عرصہ سے امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل کراچی میں نقیب اللہ محسود کی ماورائے عدالت قتل کی وجہ سے پختونوں میں غم و غصہ کی ایک لہر چل نکلی ہے۔ اس حوالے سے اسلام آباد میں دس دنوں پر مشتمل دھرنے میں مقررین نے اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کیا تھا۔ ریاست اور سکیورٹی اداروں سے خاصے گلے شکوے کیے گیے تھے۔ پختون علاقوں میں فوجی آپریشنوں کے دوران بے گناہ پختونوں پر ظلم و زیادتی کے قصے بیان کیے گیے تھے لیکن معلوم نہیں ہمارے سکیورٹی ادارے پختونوں کے ان جذبات اور احساسات کو کیوں نظر انداز کر رہے ہیں۔ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ پختون عوام ریاست کے خلاف بغاوت پر اتر آئیں۔ کیا انھیں معلوم نہیں کہ بلوچستان میں ظلم و زیادتی کے کیا نتائج نکل رہے ہیں؟

پاکستان مختلف قومیتوں کا ایک خوب صورت گل دستہ ہے۔ آئین پاکستان کے تحت تمام قومیتوں کو ایک جیسے حقوق حاصل ہیں۔ ان میں نہ کوئی برتر ہے اور نہ کم تر۔ قانون سب کے لیے ایک جیسا ہونا چاہئے۔ اب اگر بد قسمتی سے پختونوں کو ماضی میں مذہب کے نام پرسوویت یونین کے خلاف لڑانے کے لیے تیار کرایا گیا تھا اور ان کی برین واشنگ کرکے انھیں جہاد کے نام پر امریکا کے مذموم مقاصد کے لیے لڑایا گیا تھا تو اس میں پختونوں کا قصور کم اور ان ریاستی اداروں کا قصور زیادہ ہے جنھوں نے انھیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا تھا اور اب بھی کر رہے ہیں۔ پختون علاقوں میں دوسرے ممالک سے آئے ہوئے جہادیوں کو کن مقاصد کے تحت کن ریاستی اداروں نے رہنے کی اجازت دی تھی اور اب بھی بعض جہادی گروہوں کی پشت پناہی کیوں کی جا رہی ہے، اس کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہئے ورنہ یہ قوم اور ملک کے لیے مزید تباہیوں کا باعث ہوگا۔

سوات اور اہل سوات کے ساتھ بہت کھلواڑ کی گئی ہے۔ ان کے گھر اور تجارتی مراکز تباہ کر دئیے گیے۔ دو ملین پر مشتمل سواتیوں کو آئی ڈی پیز بننے پر مجبور کردیا گیا۔ ان کی غیر موجودگی میں ان کے گھروں کو لوٹ لیا گیا، انھیں پوری دنیا میں دہشت گردوں اور مذہبی جنونیوں کی حیثیت سے بدنام کردیا گیا، فوجی چھاؤنی کے نام پر ان سے زمینیں زبردستی مٹی کے مول پر ہتھیا لی گئیں، اب کیا انھیں سوات سے مستقل طور پر بے دخل کرنا مقصود ہے؟ براہ کرم اب انھیں معاف کردیں۔ ان کی سادگی اور مذہب سے وابستگی کو بہت استعمال کیا گیا، وہ اب مزید مشکلات اور مصائب کا سامنا نہیں کرسکتے۔ آپ نے سوات میں طالبانائزیشن کے نام پر جو کچھ حاصل کرنا تھا، حاصل کرلیا ہے۔ اب آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ عوامی مقامات سے اپنے مخصوص بیرکوں میں تشریف لے جائیں۔ سوات میں تمام سول معاملات مقامی انتظامیہ کے سپرد کردیں اور ملک کو بیرونی دشمنوں سے بچانے کی فکر کریں۔ اگر اہل سوات کے ساتھ ظلم و زیادتی کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو یقین کریں وہ دن دور نہیں جب عوام اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر سڑکوں پر نکل آئیں گے اور آپ کو نہ صرف سوات سے نکلنا پڑے گا بلکہ اب تک سوات میں جتنی بھی ماورائے عدالت جانیں لی گئی ہیں، جتنے بھی بے گناہ لوگوں کو غائب کرا دیا گیا ہے اور جتنے بھی لوگوں کو ابھی تک اذیت خانوں میں قید رکھا گیا ہے، ان سب کا بھی آپ کو حساب دینا پڑے گا۔

مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے

ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).