مقصد حیات اور شعور سے عاری قوم


جن لوگوں کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا ان کی مثال اُن بھیڑوں کی سی ہے، جن کی زندگی کا مطمع نظر صرف اور صرف چارے اور پانی کا حصول ہوتا ہے۔ دن اور رات کا آنا جانا موسموں کا بدلنا پھر نئی چراگاہ میں آمد، غرض کسی انھیں اور کسی بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ حتٰی کہ چرواہا انھیں ایک ایک کر کے ذبح بھی کردے تو انھیں معلوم نہیں ہوگا کہ چرواہا ہمیں کیوں ذبح کررہا ہے؛ کیوں کہ وہ عقل شعور سے عاری ہوتی ہیں۔ جب کہ آدمی کی مثال جن کی زندگی کا کوئی مقصد ہوتا ہے، اس چرواہے کی سی ہے، جو عقل و دانش کی بنیاد پر بھیڑوں کے ریوڑ کو موسموں کی شدت اور بھیڑیوں کے خطرے سے محفوظ رکھتا ہے اور ان کی رہنمائی ہری بھری چراگاہوں کی طرف کرتا ہے۔ ایک تربیت یافتہ چرواہے کو معلوم ہوتا ہے کہ بھیڑ اور بکریوں کو کیسے منظم رکھنا ہے اور ان کو فطرت کے اصولوں کے مطابق کیسے محفوظ رکھنا ہے۔ اس عمل میں چرواہے کا اعلیٰ نصب العین کار فرما ہوتا ہے اور یہ نصب العین ہی آدم کو دیگر جانوروں سے ممتاز کرتا ہے۔

مقصد کے حصول کی لگن ہی انسان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ اور مشکلات کو جھیلنے کی جرات دیتا ہے۔ یہ مقصد کے حصول کی لگن ہی ہے، جو اسے اس قابل بناتی ہے کہ وہ ہر ناممکن کو ممکن کرتا ہے۔

کامل نظام زندگی کا مقصد ہمیشہ عقل و شعور کی بنیاد پر متعین ہوتا ہے۔ ایسے میں دیکھا جائے تو جب کوئی قوم عقل و شعور سے غافل ہوتی ہے تو اس کی زندگی مقصدیت سے نامعلوم ہوجاتی ہے۔ حالاں کہ زندگی ایک مقصدیت اور اعلیٰ نصب العین کے تحت فطرت الٰہیہ کے تابع ہو کر چلتی ہے اور اللہ تعالٰی نے انسانی زندگی کو بہترین طریقے سے جینے کے لیے، اسے اپنا منشور دیتے ہوئے دنیا میں اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے۔ یہاں منشور سے مراد فطرت الٰہیہ کے اصول و قوانین کو عقل و دانش کی بنیاد پر قائم کرنے کو کہا گیا ہے اور تمام انسانوں کو ایک آزاد فطرتی سوچ پر پیدا کیا گیا ہے، جو انسانوں کی ہر طرح کی غلامی سے انکار کرے گا اور جب عقل و شعور کو چھین کر اسے گم راہی کے گہرے گڑھے میں پھینک دیا جاتا ہے تو اس کے اندرغلامانہ سوچ کا سرایت کر جانا مشکل نہیں ہوتا۔

جب قوموں سے آزاد سوچ کو ختم کر کے عقل و شعور پر پردے ڈال دیے جاتے ہیں تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں معدوم پڑ جاتی ہیں اور ایسی قومیں اجتماعی ترقی کی بجائے انفرادی ترقی کو ترجیح دیتے ہوئے وحدت انسانیت سے ٹوٹ کر تقسیم ہوجایا کرتی ہیں۔ جس میں صرف انفرادی مفادات کو بروئے کار لاتے ہوئے قوم کا استحصال ہونا کارفرما ہوتا ہے۔ جہاں بنی نوع آدم جاہلیت کے ایک نئے دوراہے پر کھڑا ہوتی ہے اور اس کے پاس تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ دنیا میں ہمیشہ جب بھی کسی قوم نے ترقی کی ہے وہ عقل و دانش کی مرہون منت رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو تین چیزیں ودیعت فرمائی ہیں:
(1) رائے کلی: یعنی انسانی اجتماع کی خدمت کا جذبہ، جس کی بنیاد پر وہ اپنے اجتماع میں صالح نظام قائم کر کے انفرادی اور اجتماعی اخلاق کی درستی و اصلاح کرتا ہے اور مرنے کے بعد کی زندگی طرف متوجہ ہوتا ہے۔

(2) حب جمال: جس کی وجہ سے وہ اپنی تخلیقات کو وسیع پیمانے پر اپنے فائدے کے علاوہ اس میں مزید حسن پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاکہ معاشرہ خوبصورتی کا عمدہ نمونہ پیش کرے۔

(3) عقل و درایت: عقل انسان کو کسی بھی چیز کی اشد ضرورت کا احساس دلاتی ہے اور درایت اس مشکل حل کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ یہاں پر اس بات کو سمجھنے کی ضرورت کار فرما ہوگی کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو انسانی سماجی معاشرہ ایسی طرز پر بھی پیدا کرسکتا تھا کہ اس میں ٹکراؤ کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہتی۔ جیسے پوری کائنات ہے لیکن فطرت الٰہیہ نے اس میں حکمت جانی کہ انسان صبر و استقامت پر قائم رہتے ہوئے اپنی عقل، اپنے تدبر اور ہمت سے ایک بہترین نظام قائم کرے، جس سے سب انسانوں کی بھلائی اور خوش حالی ہو۔ اس کے لیے اس نے اسے عقل دی اور پھر عقل کی مزید رہنمائی کے لیے ضرورت پیش آنے پر انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا، انھوں نے اپنے اپنے ادوار میں انسانی جماعتوں کو عقل و دانش کی بنیاد پر تعلیم و تربیت سے روشناس کیا۔ اور سب سے آخر میں خدائے باری تعالیٰ نے حضرت محمد صل اللہ علیہ و الہ وسلم کے ذریعے سے قرآن حکیم کو بین الاقوامی دستور حیات بنا کر نازل فرمایا۔ اس لیے آج اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب انسان وہ ہوگا جو زوال شدہ انسانی معاشرے میں فطرت الٰہیہ کے مطابق عدل پر مبنی سماجی، سیاسی اور معاشی نظام قائم کرنے اور اسے پوری استبداد سے چلانے میں اپنی پوری ہمت و استقلال سے کام لے گا۔

مسلمانوں کے روشن ادوار کی ترقیات ہمیشہ عقل و شعور پر مبنی تعلیم و تربیت کا شاخسانہ رہی ہیں، کہ جہاں ہر طرف ظلم و جبر اور جاہلیت کا گھپ اندھیرا چھایا ہوا ہے اور انسانوں کی تہذیب و تمدن بری طرح سے مفلوج ہے۔ ایسے میں اللہ پاک فطرت ربانیت کے اصولوں کو نافذ العمل کرنے کے لیے اپنے محبوب کو مبعوث فرماتے ہیں اور جب ظلم و جبر کے مقابلے میں عقل و شعور کی بنیاد پر بنی آدم کو دعوت دیتے ہیں کہ انسانی نظام زندگی کن اصولوں پر قائم ہونا چاہیے تو ایسے میں آپ کو کتنی خوفناک اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔

حضور نبی کریم صل اللہ علیہ و الہ و سلم نے اس قدیم نظام کو بنیادی طور پر ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے ایک منظم جماعت تشکیل دی۔ جس میں اکثریت سے عرب کے قابل نوجوان طبقے کو دعوت دی گئی۔ کیوں کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا شاخسانہ اس کے نوجوانوں کے سر ہوتا ہے۔ جن کو باقاعدہ ایک مضبوط نظم و ضبط کے تحت صبرو استقامت پر قائم رہتے ہوئے دار ارقم اور دار الصفٰہ جیسے مقامات کو ایک اسکول آف تھاٹ کے درجے پر قائم کر کے وہاں عقل و شعور پر مبنی تعلیم و تربیت فرمائی جاتی ہے۔ آپ کی پارٹی میں شامل سب لوگ آپ سے تعلیم و تربیت حاصل کرتے ہیں جو عقل و شعور کے ساتھ ہدایت پر مبنی ہوتی ہے اور عالمگیریت کے ساتھ قابل عمل وقوع پذیر ہوتی ہے۔ جہاں ایک بہترین اور کامل سوسائٹی کے قیام کے لیے انفرادی جدوجہد کی بجائے اجتماعی جدوجہد کو فروغ دیا جاتا ہے۔

یہ سب اس نظم و ضبط پر مشتمل اجتماعی عمل اور جدوجہد ہی کا نتیجہ تھا کہ پہلے عرب میں قومی درجے پر انقلاب برپا ہوتا ہے پھر اکہتر (71) سال کے عرصے میں کسریٰ اور قیصر کی حکومتوں کو مکمل طور پر ختم کر کے وہاں بین الاقوامی سطح پر عدل و انصاف پر مبنی ایک شاندار نظام قائم کیا جاتا ہے۔

یہ سب حضور کی تربیت یافتہ جماعت ہی کا نتیجہ تھا کہ حضور کے وصال کے بعد تمام صحابہ کرام نے پوری دنیا میں اسلامی نظام تمدن کو فروغ دیا۔ اور ہر صحابہ نے دین اسلام کی کامیاب اصطلاحات کوپوری دنیا میں غالب کیا جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں امن امان قائم ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت کے حقوق کو روا رکھا گیا۔ جہاں بھی سیاسی سماجی اور معاشی نظام قائم کیا وہاں خوش حالی کے ساتھ ساتھ روحانی اور مادی ترقی پیدا ہوتی گئی۔ ایک جلیل القدر صحابی حضرت عمرؓ بن الخطاب خود فرماتے ہیں کہ عمر کو تو بکریاں چرانا نہیں آتا تھیں اور آج بائیس لاکھ مربع میل پر کامیاب حکومت چلانے کے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ انھیں اسلام کی تاریخ میں سیدنا فاروق اعظم کے لقب سے پکارا گیا۔

اسی طرح ایک بار حضرت سیدنا ابو بکر صدیق فرماتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب بکریاں چرانے کے عوض چند کھجوریں بطور اجرت ملتی تھی اور آج ایک پارٹی کی قیادت بخوبی سر انجام دے رہا ہوں۔ تاریخ گواہ ہے کہ انھیں صدیق اعظم کے لقب سے پکارا گیا۔ اسی طرح صحابہ کرام، سلاطین، اور جری بہادر سپہ سالاران کی ایک طویل قطار نظر آتی ہے جو دین کے غلبہ کے لیے پوری دنیا میں اپنی مثال آپ نظر آتے ہیں۔ انھیں تاریخ رہتی دنیا تک یاد رکھتی ہے، تو یہاں پر یہ کہنا درست ہو گا کہ یہ اسی شعور یافتہ تربیت کا نتیجہ تھا جس کی راہنمائی حضورؐ  نے خود فرمائی تھی۔ کوئی بھی صالح اور کامل جماعت جب بھی انسانوں کی بھلائی کے لیے کمر بستہ ہوتی ہے تو وہ شعوری بنیادوں پر تربیت یافتہ جماعت ہوتی ہے۔ جو صف در صف کھڑی رہتی ہے جس میں ایک شخصیت کے چلے جانے سے اس کے فکر، نظریے اور بصیرت میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنی بہترین حکمت عملی کے تحت آگے بڑھتی ہے۔

دور حاضر میں انسانیت کی پستی کا جو احوال ہے اس کے مسائل کا موازنہ فرعون، نمرود، شداد اور ابوجہل کے نظاموں سے کرنا زیادہ مشکل نہ ہوگا، کہ آج بھی انسانیت تباہی کے دہانے پر کھڑی سسکیاں لے رہی ہے۔ ان مسائل کا حل خواہشات یا جدوجہد کیے بغیر دعا کر لینے سے نہیں ہوگا۔ اب کسی نبی کی بعثت نہیں ہوگی کہ کوئی آئے گا اور انسانی مسائل کا قلع قمع کرے گا۔ آج انبیاء اور صحابہ کرام کے انقلابی پہلوؤں کو سامنے رکھ کر مستقبل کے لیے حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔ قوموں کی ترقی ہمیشہ شعور پر مبنی تربیت یافتہ قیادتوں پر موقوف ہوا کرتی ہے۔ جس کے لیے صبرو استقامت کے ساتھ محنت اور جدوجہد درکار ہوتی ہے۔

سب سے پہلے ہمیں سمجھنا ہو گا کہ دور حاضر میں جو قیادت حکمرانی کر رہی ہے، وہ کتنی باشعور اور تربیت یافتہ ہے۔ ہمیں تاریخ کا صحیح مطالعہ کرنا ہوگا۔ شیخ کامل کی رہنمائی میں دین کی صحیح پہچان کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط پیدا کرتے ہوئے شعوری بنیادوں پر تربیت کے مراحل سے گزر کر جماعت تیار کرنا ہوگی۔ نوجوانوں میں شعور اور قومی سوچ کوبیدار کر کے ان کی قابلیت میں نکھار پیدا کرنا ہوگا،جس سے ایک کامیاب لیڈرشپ پیدا ہو۔ انھی بنیادوں پر عدل و انصاف پر ایک مروج سیاسی، سماجی اور معاشی نظام قائم کیا جا سکتا ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو دینی شعور کوسمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے! آمین۔

ماخذ:
قرآنی شعور انقلاب از مولانا عبیداللہ سندھی
سیرت رسول کریم از مولانا حفظ الرحمٰن سیو ہاروی
سماجی انصاف اور اجتماعیت از مولانا غلام مصطفٰی قاسمی
کیمیا گری از پاؤلو کوئیلھو مترجم عمر الغزالی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).