مائے نی میں کنوں آکھاں….


\"qamar

زرق برق سرخ لباس پہنے وہ دلہن بنی بابل کا آنگن چھوڑ کر اپنے ماموں کے بیٹے کے ساتھ ایک خوشحال زندگی گزارنے کا خواب لیے پیا گھر سدھار گئی۔

17 سالہ خانزادی بنت لعل محمد لاشاری کو کیا خبر تھی کہ یہ دن اس کی زندگی کا آخری دن ہو گا اور وہ آج کی خوشیوں کے ساتھ ساتھ اس دنیا کے تمام غموں کے احساسات سے عاری ہو کر اپنے خاندان کے تمام لوگوں کو شادی کی خوشیاں بھلا کر ماتم پر مجبور کر دے گی۔ اسے کیا خبر تھی کہ اس کا ہاتھ تھامنے والا اس کا شوہر جو اب اس کے مستقبل میں اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہے اس کے لیے ہر برے وقت میں ایک ڈھال ہے خود ہی اسے شادی کی پہلی ہی رات اسے سانسوں سے آزاد کر دے گا۔ دونوں کی شادی ان کی مرضی سے ہوئی تھی۔ ماں باپ نے بڑے ارمانوں کے ساتھ دعاو¿ں کی گھنی چھاو¿ں میں بیٹی کو اس کے سہاگ قلندر بخش کھوکھر کے ساتھ رخصت کیا۔ لیکن سہاگ رات اس کی زندگی کی آخری رات ثابت ہوئی۔ اس کے اپنے شوہر نے، جو رضا مندی سے پسند کر کے اس کے ساتھ زندگی گزارنے پر آمادہ ہوا تھا، شادی کی پہلی ہی رات اسے کاری قرار دے کر ازار بند سے گلہ گھونٹ کر مار دیا۔ اور خود فرار ہو گیا۔قتل کی وجہ انتہائی مضحکہ خیز ۔ عقل سے عاری قاتل نے بیوی کی پاکدامنی پر شک کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔وہ پردہ جسے قلندر بخش اپنی نئی نویلی دلہن کی پاکدامنی کا ثبوت سمجھتا تھا اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے لیے بیوی کی پاکدامنی کا ثبوت اس کے بستر کی چادر کا رنگین ہو جانا تھا شاید ۔ وہ اس کی پاکدامنی کا ضامن اس پردے کو سمجھتا رہا جس سے بچیاں کھیل کود یا کوئی بھی مشقت والا کام کرنے سے محروم ہو سکتی ہیں۔ لیکن ایسی جہالت کا علاج نہیں۔میڈیکل سائنس جس بات کو ایک فضول سوچ گردانتی ہے وہ قلندر بخش کے نزدیک بھی معتبرٹھہری۔ علم اور شعور سے عاری قلندر بخش اس بات کو تسلیم نہ کر سکا اور نام نہاد غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خانزادی کو زندگی سے محروم کر دیا۔

\"Honorkilling\"خانزادی کے بھائی علی شیر لاشاری نے گو کہ قلندربخش اور اس کے چار بھائیوں کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا ہے لیکن خانزادی کی روح پھر بھی سوال کر رہی ہے۔ وہ چیخ چیخ کر سب سے پوچھ رہی ہے کہ کیا اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں تھا کہ سترہ سال میں ہی اسے زندگی کی قید سے آزاد کر دیا گیا۔ کیا اس کا یہ جرم اتنا بھیانک تھا کہ اس کی سزا موت کے علاوہ کوئی ہو ہی نہیں سکتی تھی ؟ کیا غیرت صرف لڑکی کے معاملے میں ہی جاگ سکتی ہے مرد کے لیے غیرت کا کوئی معیار نہیں ہے کیا معاشرے میں ؟ کیا کوئی ایسا بھی اٹھے گا جو اسی غیرت کے نام پر مردوں کے چہرے بھی تیزاب سے جھلسا سکے گا ؟ کیا کوئی ایسا ذی روح بھی ہو گا جو اس غیرت کے نام پر مردوں کی سانسیں بھی چھین سکے گا ؟ کیا کوئی ایسا قانون بھی معرض وجود میں آئے گا جو غیرت کے معاملے میں مرد اور عورت کو برابری کی سطح پر لا کھڑا کرے ؟

خانزادی کی روح کی چیخ و پکار جاری ہے لیکن افسوس بے حس اور سوچ سے عاری معاشرے پر یہ چیخ و پکار کی ضربیں خراش بھی نہیں ڈال سکیں گی۔ خانزادی سے اگر جذبات کی رو میں گناہ بھی سرزد ہو گیا تھا اور وہ باوسیلہ اور عقلمند ہوتی تو آپریشن کروا لیتی اور کچھ پیسوں کے عوض اپنی پاکدامنی کا ثبوت پا لیتی ۔ شاید اس کی منافقت سے اس معاشرے کی منافقت کا پردہ رہ جاتا ۔ اور وہ بھی ان خوابوں کی تعبیر پا لیتی جو اس نے شادی سے پہلے ہر لمحہ کھلی اور بند آنکھوں سے دیکھے۔ اس کے سہانے سپنے شرمندہ تعبیر ہو جاتے اگر وہ بھی جیکب آباد کی بجائے کسی بڑے شہر میں ہوتی اور اس کو بھی اس طرز کے آپریشن کا علم ہوتا۔ ہاں پھر وہ پاکدامن بھی کہلاتی اور آج زندہ بھی ہوتی۔ شاید اسے نہیں پتہ تھا کہ ہمارا معاشرہ منافقت اور جہالت قبول کر لیتا ہے لیکن عقل شعور اور سچائی سے دور بھاگتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں کوئی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ اگر بیوی کے علاوہ میاں بھی زندگی میں پہلی بار اس تجربے سے گزر رہا ہے تو اسے نام نہاد دوشیزگی کے بارے میں ایسا وثوق کیسے حاصل ہوا؟ اور غالب امکان تو یہ بھی ہے تو قلندربخش نے اپنی ناکامی کی خفت کا بدلہ معصوم خانزادی کے خون سے لیا ہو۔ تا کہ سوال کی تمام انگلیاں معصوم بچی کی طرف اٹھیں اور وہ اپنی مردانگی کا لاشہ صحیح سلامت اٹھائے پھرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
10 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments