گلگت بلتستان کی عورتیں اور آزادی کے نام پر زنجیریں


جب ہم عورت کی حق کی بات کرتے ہیں تو سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ ہم کس حق کی بات کر رہے ہیں۔ یہ سوال سب سے زیادہ گلگت بلتستان کے نوجوانوں کی طرف سے آتا ہے جن کا یہ خیال ہے گلگت بلتستان کے ہر گھر میں خواتین کو ہر طرح کی آزادی میسر ہے۔ ایسے فضول کی باتیں کر کے گلگت بلتستان کا نام خراب کررہے ہیں۔ میرا سوال اُن حضرات سے ہے کہ کیا آپ گلگت بلتستان کی ہر عورت اپنے حق کی بات کھل کے کرنے کا حق رکھتی ہے؟ کیا ہر عورت اپنے خیالات کا اظہار بنا کسی خوف کے کر سکتی ہے؟ کیا ہر عورت کو تعلیم حاصل کرنے اور نوکری کا حق حاصل ہے؟ کیا ہر عورت کو معیاری صحت تک رسائی حاصل ہے؟ کیا ہر عورت اپنے لئے جیون ساتھی چننے کا حق رکھتی ہے؟ کیا ہر عورت کو فیصلہ سازی میں شمولیت کا حق ہے؟ کیا ہر عورت کو گھر سے دور نکل کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے؟ ان سب سے بڑھ کر کیا گلگت اور بلتستان کی ہر عورت کو اپنے حقوق کے بارے میں جانکاری کا حق ہے؟

ہر گز نہیں! اگر ہر عورت کو یہ تمام حقوق حاصل ہوتے تو آج گلگت بلتستان کی وہ تمام عورتیں بھی دنیا کے مختلف حصوں میں اپنا مقدر بنا چکی ہوتیں جن کو میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کے بعد تعلیم کے مواقعے حاصل نہ ہونے پر شادی کے بندھن میں جوڑ دیا گیا، نو عمری کی شادی اور حمل و زچگی کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ماؤں کی شرح اموات میں اضافہ نہ ہوتا اگر ہر عورت کو معیاری صحت کے اداروں تک رسائی کا حق ہوتا۔ اور خودکشیوں کا رجحان اتنی تیزی سے نہ بڑھ جاتا اگر ہر عورت کو اپنی زندگی کی بہتری کے لئے فیصلہ سازی کا حق دیا جاتا۔ ایسے بہت سارے مسئلے نہ ہوتے اگر ہر عورت کو یہ تمام حقوق تک با آسانی رسائی حاصل ہوتا۔

یہ کل ہی کی بات ہے گلگت بلتستا ن سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی کے ”عورت مارچ“ (جو کہ 8 مارچ 2018، عورتوں کے عالمی دن کو منعقد کیا گیا ہے) کی حمایت میں کچھ سیکنڈز کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ ہوگئی۔ اس ویڈیو کے اپلوڈ ہوتے ہی ہمارے گلگتی مرد حضرات کی غیرت جاگ گئی اور اپنی غیرت کا اظہار انھوں نے انتہائی غیر مہذبانہ انداز میں کیا۔ الفاظ کا چناؤ اس قدر اخلاقیات سے دور تھا کہ پڑھتے ہوئے شرم سے سر جھک جاتا ہے۔

ان حضرات میں سے اکثر کا یہ خیال تھا کہ اس لڑکی نے جو عورت کی حق کی بات کی ہے وہ تو بلکل ہی بے بنیاد ہے۔ گلگت بلتستان میں خاص کر ہنزہ میں تو ہماری عورتیں آزاد ہیں۔ اُن کو تو وہ سارے حق دیے گیئے ہیں۔ کچھ لوگ تو سوال اٹھا رہے تھے کہ یہ لڑکی کن حقوق کی بات کر رہی ہے؟ گلگت سے کراچی آ کر تعلیم حاصل کر رہی ہے، جینز پہنتی ہے، سر پر دوپٹہ نہیں رکھتی، یہ آزادی نہیں تو کیا ہے؟ بہت سارے لوگ گالی گلوچ تک پہنچ گئے۔ مگر ان سب میں ایک حیران کرنے والی بات یہ تھی کہ جن کے حق کی بات کی جا رہی تھی انہی میں سے کچھ خواتین کو اپنے ہی حقوق پامال ہوتے نظر نہیں آرہاتھا بلکہ وہ خود ہی اپنے حقوق کی پامالی میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی تھیں۔ الغرض عورتوں کا بھی بے حس ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ مسئلہ مرد نہیں بلکہ پدرشاہی نظام ہے۔

اس پورے واقعے کے بعد بھی کیا اب بھی آپ یہ کہیں گے کہ گلگت بلتستان میں عورت کو اس کے حقوق ملے ہیں؟ کیا اب بھی آپ یہ دعویٰ کریں گے کہ گلگت کی عورت پر استحسال نہیں؟ آپ سب نے خود ہی اس بات کا اعتراف کیا کہ گلگت بلتستان کی عورت کو بات کرنے کا کوئی حق نہیں، آپ نے یہ ثابت کر دیا کہ گلگت بلتستان کی عورتوں کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا کوئی حق نہیں۔ وہاں کی عورت اپنے لئے کوئی فیصلہ نہیں لے سکتی۔

کیا ہمیں یہ حق نہیں کہ ہم جس نطریے کی حمایت کرنا چاہتے ہیں بنا کسی خوف کے اس کی حمایت کریں؟ کیا ہمیں یہ حق نہیں کہ ہم اپنے خیالات کا اظہار کریں؟ کیا ہمیں یہ حق نہیں کہ اپنی رائے کا اظہار کر سکیں؟

اس کے بر عکس لوگوں کو یہ حق کس نے دیا کہ کسی کے اظہارِ خیال پر روک ٹوک کریں؟ کسی کے سوچ پر اپنی سوچ مسلط کریں؟ اپنے بنائے ہوئے طور طریقے دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کریں؟

ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے مطابق یہ ہمارا بنیادی حق ہے کہ ہمیں جینے کی آزادی ہو، بات کرنے کی یا اظہارِ خیال کی آزادی ہو، تعلیم حاصل کرنے، نوکری کرنے اور جیون ساتھی چننے کا حق حاصل ہو۔

جب جب عورت کے حقوق کی بات آئی ہے تب تب ہمارے ”غیرتمند“ مرد جاگ اٹھے ہیں اور اصل حقائق سے لوگوں کو محروم رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ اُن تمام سے میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا ایسے حقوق ملے ہیں ہم گلگت کی عورتوں کو کہ ہم کھل کے اپنی محرومی، اپنے مظلوم بہنوں کی محرومیوں کو منظرِ عام میں نہیں لا سکتے۔ یا یوں کہنا ٹھیک رہے گا کہ آپ نے ہمیں آزادی کے نام کی زنجیروں میں قید کر رکھا ہے جس کو زنگ لگ چکا ہے۔ اس زنجیر کا ایک حصہ آپ نے مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے کہ کہیں ہم آپ کی بنائی ہوئی زنجیریں نہ توڑ دیں اور خود کو نکال کر بھاگ نہ نکلیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم میں سے اکثر ان زنجیروں کو اپنا تقدیر سمجھتے ہیں اور آدھی ادھوری آزادی (جو میری نظر میں زنگ لگی زنجیریں ہیں) میں اپنے آپ کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

خدا را اپنی محرومیوں پر سوچنے کی صلاحیت رکھو اور جان لو کہ گھر سے دور آکر تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ بھی ہمارے حقوق ہیں جن سے ہم محروم ہیں۔ میری بہنو! ایک ہو جاؤ اور اپنے حق کی لڑائی لڑو۔ یہ آزادی کے نام کی زنجیریں توڑ دو اور آسماں کی بلندیوں کو چھو لو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).