ہم ایماندار بنیں یا بے ایمان؟


میں کل حسبِ معمول اپنی گاڑی پر دفتر جا رہا تھا۔ گھروالی گلی سے نکلتے ہی ذرا سا دور ایک ٹریفک سگنل آتا ہے۔ میرے پہنچتے پہنچتے وہ سگنل بند ہو چکا تھا۔ میں نے حسب عادت زیبرا کراسنگ سے پیچھے اپنی گاڑی روک دی۔ وہ گاڑی والا جو میرے پیچھے آ رہا تھا لگاتار ہارن بجا رہا تھا۔ وہ مجھے سے اس بات پر ناراض تھا کہ ایک تو میں نے تیزی سے گاڑی چلا کر سگنل توڑ کیوں نہیں دیا دوسرا یہ کہ میں اتنا پیچھے کیوں کھڑا تھا۔ اتنی دیر میں ایک گاڑی والا پیچھے سے آیا اور میرے آگے گاڑی ٹیڑھی کر کے زیبرا کراسنگ پر کھڑی کر دی۔ ابھی اس کو حیران ہو کر دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک اور صاحب نہایت تیز رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے آئے اور میری رانگ سائیڈ سے گزرتے ہوئےسگنل توڑتے ہوئے یہ جا وہ جا ہوئے۔ حیرانگی کی بات یہ تھی کہ ذرا سا ہی دور ایک ٹریفک پولیس والے صاحب کھڑے تھے۔ نا معلوم ان کی ڈیوٹی کیا تھی۔ بہر حال اشارہ کھلا اور مجھ سے ناراض تمام گاڑیوں والے زن زن کرتے ہوئے دائیں بائیں سے مجھ سے آگے نکلتے گئے۔ وہ مجھ سے ناراض اس لئے تھے کہ میں قانون کے مطابق گاڑی چلانے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ بجا طور پر یہ سمجھتے تھے کہ یہاں قانون کی پابندی کی کوشش کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔

کم و بیش اسی صورت حال کا سامنا ہمیں زندگی کے ہر میدان میں کرنا پڑتا ہے۔ آپ اگر قانون کی پیروی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو آپ بے وقوف اور کودن ہیں اور اگر آپ کو قانون کو چکما دینے کا فن آتا ہے تو آپ ذہین اور ہوشیار سمجھے جاتے ہیں۔ اگر آپ قانون کے رکھوالوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تو آپ بزدل اور کم ہمت ہیں اور اگر آپ ان کو دو گالیاں دے کر ان کو دباؤ میں لانے کی صلاحیت یا طاقت رکھتے ہیں تو آب دبنگ اور ٹہکے والے ہیں۔ اگر آپ کسی ٹیندر یا ٹھیکے کی کٹیشن اصولوں کے مطابق جمع کرانے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ بھولے بادشاہ ہیں مگر اگر آپ کے تعلقات اندر ہیں اور آپ کوٹیشین جمع کروانے سے پہلے ہی اندر مک مکا کر چکے ہیں تو آپ سیانے اور معاملہ فہم کہلاتے ہیں۔ اگر آپ کارگردگی کی بنیاد پر آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہیں تو آپ فنِ نوکری سے نا بلد ہیں مگر آپ خوشامد اور دوسروں کی ٹانگیں کھنچنے کے فن میں طاق ہیں تو افسروں اور ساتھیوں کی آنکھوں کے تارے ہیں۔

جب آپ دیکھتے ہیں کہ آپ سگنل پر کھڑے ہیں اور پیچھے سے کوئی آتا ہے جو پولیس والے کی نگاہوں کے سامنے سگنل توڑتا ہے اور آگے نکل جاتا ہے اور آپ وہیں کھڑے رہ جاتے ہیں تو آپ کیا سوچتے ہیں۔ جب ایک طالب علم بہت محنت کرتا ہے مگر سمسٹر کے اختتام پر کوئی اور، جس نے اپنا وقت پروفیسر کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں لگایا تھا، آ گے نکل جاتا ہے تو اس کے نفسیات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب آپ دیکھتے ہیں کہ وہ سارے لوگ جن کی اصل مہارت کام کرنے میں نہیں بلکہ قانون کو دھوکہ دے کر کام نکالنے میں ہے، آپ سے آگے بلکہ بہت آگے نکل چکے ہیں تو کیا آپ خود کو کوستے ہیں یا شاباش دیتے ہیں کہ اس معاشرے میں آپ سچائی اور ایمانداری کے مینارہ نور ہیں۔ اور سب اہم بات یہ کہ کیا آپ کے اپنے اور قریب ترین رشتے دار آپ کی معاشرے کے ساتھ نہ چلنے کی نا اہلیت پر آپ سے مطمئن ہیں یا پھر دل ہی دل میں اور کبھی کبھی آپ کے سامنے آپ کو ناکام شخص کا لقب دیتے ہیں۔

میں بہت عرصہ پہلے اس سراب سے نکل آیا تھا کہ میں شاید کوئی اچھائی اور سچائی کا علم برادر ہوں کیونکہ میں جانتا تھا کہ میں کوئی ہیرو نہیں۔ اور مجھے یہ بھی سمجھ آ گئی تھی کہ جن مہارتوں کو میں بیچنے کی کوشش کر رہا ہوں ان کے خریدار بہت کم ہیں۔ مگر افسوس اس بات کا ہے جب تک مجھے اس بات کی سمجھ آئی میں بڈھا طوطا ہو گیا تھا۔ اب میں چاہنے اور کوشش کرنے کے باوجود ان مہارتوں اور رویوں پر عبور حاصل کرنہیں پا رہا جن کی یہاں ضرورت ہے۔ میں خوشامد کرنے کی کوشش تو بہت کرتا ہوں مگر سامنے والے کو کسی طرح احساس ہو جاتا ہے کہ میں دل سے اسے خدا نہیں سمجھتا اور وہ میری اس دو نمبر خوشامد کو دوخورِاعتنا نہیں سمجھتا۔ میں نے بار ہا لوگوں کو یہ اشارے دینے کی کوشش کی کہ میں ان سے مک مکا کرنے کو تیار ہوں اور بہتر ریٹ پر کرنے کو تیار ہوں مگر افسوس میری پرانی شہرت میرے آڑے آ گئی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یار یہ تو ناک کی سیدھ میں چلنے والا آ دمی ہے کہیں پھنسوا نہ دے اور وہ کم ریٹ پر اپنے پرانے ساتھیوں سے معاملہ طے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

میں اس صورت حال میں اکیلا نہیں۔ یہاں میرے جیسے بہت ہیں جنہیں ان کے والدین نے جس قسم کی اقدار اور رویوں کے ساتھ پروان چڑھایا تھا وہ آج کے معاشرے میں بالکل بے معنی نظر آتے ہیں اور جب انہوں نے اس بات کا احساس ہونے پر ان نئی اقدار اور اطوار کو اپنانے کی کوشش کی جو کہ آج کے معاشرے کا سکہ رائج الوقت ہیں تو ان کی حالت یورپ میں رہتے ہوئے پاکستانیوں کی سی ہو گئی جو اپنی روایات سے بھی چپکے رہنا چاہتے ہیں اور اس زور آور مقامی کلچر کو بھی اپنانا چاہتے ہیں جس کو ابھی تک انہوں قبول نہیں کیا مگر جانتے ہیں کہ قبولکیے بغیر چارہ بھی نہیں۔ وہ آدھے تیتر اور آدھے بٹیر ہیں۔ اور جن کی حالت اس عاشق کی سی ہے جسے نہ ہی خدا ملتا ہے اور نہ وصالِ صنم۔

مجھے یہ بتانے کی کوشش نہ کریں کہ اگر میں اپنے ازکار رفتہ قسم کے پرانے اصولوں سے چپکا رہوں گا تو مجھے یقیناً یہاں نہیں تو وہاں اس کا صلہ ملے گا کیونکہ یہاں کو تومیں نے دیکھ لیا کہ یہاں جیت ان نئی اقدار والوں کی ہے۔ اور جہاں تک وہاں کا تعلق ہے تو میں دیکھتا ہوں کہ جتنے بھی مجھے وہاں کی بشارتیں سناتے ہیں وہ خود یہاں کی کامیابیوں کے پیچھے ہلکان ہیں۔ خود انہوں نے دنیا داروں سے کہیں آ گے بڑھ کر ان نئی اقدار کو گلے سے لگایا ہے۔ تو پھر میں کیسے ان کی بات کا یقین کر لوں۔ جسے خود کسی بات کا یقین نہیں وہ مجھے کیسے اس کا یقیں دلا سکتا ہے۔

اب بتائیں کہ ہم جیسے بڈھے طوطے کیا کریں۔ کیا ہم واپس اپنے پرانے اصولوں کی طرف لوٹ جائیں اور یہ توقع کریں کہ چلو مرنے کے بعد ہمارا کچھ بن جائے گا۔ یا پھر نئے اصولوں کو کو پوری طرح اپنا لیں۔ اور اگر اپنائیں تو کس طرح اپنائیں۔ پرانے سبق کیسے بھلائیں اور ہارڈ ڈسک پر نیا پروگرام کیوں کر اس طرح لکھیں کہ پرانے پروگرام کے وائرس نئے پروگرام کی کارکردگی کو متاثر نہ کریں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).