مدرسہ اور بدفعلی کا الزام


ہوسکتا ہے کسی کو عنوان پڑھ کر ہی غصہ آنا شروع ہوگیا ہو لیکن غصہ اسی کو آئے گا جو درپیش حالات سے باخبر نہیں، یا موصوف نے کبھی اس بارے میں لبرل یا سیکیولر طبقے کو کسی دین دار پر طعنہ زنی و ٹھٹھہ کرتے نہیں سنا ہوگا، چلئے آج آپ کو ہم اس موضوع پر کچھ حقائق سے اشنائی کراتے ہیں۔

سب سے پہلے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ دین اسلام کی نظر میں اس فعل کو کیسا دیکھا گیا ہے۔
پہلے قرآن پاک سے:
قرآن پا ک میں لوط علیہ السلام کی قوم کے بارے میں ہے کہ وہ ہم جنس پرستی کے گناہ میں مبتلاء تھے، اس گندے کام سے تو توبہ نہ کی مگر حضرت لوط علیہ السلام کی نافرمانی و بے ادبی کرلی، بالاخر یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ صبح سویرے جب سورج نکل رہا تھا تو اللہ کا عذاب آگیا۔ جبرئیل علیہ السلام نے قومِ لوط کی پوری زمین جو چھ لاکھ کی آبادی والی تھی اور اس میں چھ شہر تھے اور ہر شہر میں ایک ایک لاکھ کی آبادی تھی، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پوری چھ لاکھ کی بستی کو ایک بازو سے اُٹھایا جبکہ جبرئیل علیہ السلام کے چھ سو بازو ہیں، ان کے ایک بازو میں اللہ تعالیٰ نے اتنی طاقت رکھی ہے کہ ایک بازو کو زمین میں گھسایا اور زمین کو اُٹھا کر آسمان کے قریب لے گئے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اتنا قریب لے گئے کہ آسمان کے فرشتوں نے اس بستی کے مرغوں، گدھوں اورکتّوں کی آوازیں سنیں، آسمان کے اتنا قریب لے جا کر وہاں سے زمین اُلٹ دی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہم نے زمین کا اوپر والا حصہ نیچے اور نیچے والا حصہ اوپر کردیا۔

دیکھیں! جہاز گرتا ہے تو مسافروں کی ہڈی پسلی نہیں بچتی، اس کے باوجود کہ اتنے اوپر سے گرنے کے بعد یہ سب ہلاک ہوگئے تھے پھر بھی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”میں نے ان پر پتھر بھی برسائے“، ایک اور جگہ ارشاد ہے ”ہر پتھر پر ان کا نام بھی لکھا ہوا تھا“ یعنی ان مجرموں کے نام پتھروں کے جو وارنٹ آئے تھے تو ہر پتھر پر مجرم کا نام لکھا ہوا تھا اور ہر پتھر اپنے اپنے مسمّٰی کو تلاش کرتا تھا، ہر پتھر اپنے اسم کے ساتھ گرتا اور اپنے مسمّٰی کو لگتا اور ان کو ایسا کردیا جیسے ابابیلوں نے ہاتھیوں پر کنکریاں برسا کر ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا تھا۔ (از:فضیلۃ الشیخ علامہ حکیم محمداختر رح)

حدیث شریف سے:
ترجمہ:
وہ شخص ملعون ہے جو کسی جانور پر جا پڑے اور وہ شخص بھی ملعون ہے جو قوم لوط والا عمل کرے اور یہ آخری جملہ نبی ﷺ نے تین مرتبہ دہرایا۔

سب سے زیادہ خوف جو میں اپنی امت پر کرتا ہوں وہ قومِ لوط کا عمل ہے۔ (جامع الترمذی:270/1، باب ماجاء فی حد اللوطی)

ترجمہ:(اے میرے صحابہ)اگر تم کسی کو قوم ِلوط علیہ السلام والا کام(باہمی رضامندی سے) کرتے دیکھو (تو میں اجازت دیتا ہوں) ان دونوں کو قتل کردو! ( سنن ابی داؤد )

نوٹ: اس زمانے میں اگر دو انسان یہ عمل کرتے پائے جائیں تو انہیں قانون کے حوالے کرنا ہے، کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ حضور ﷺ نےڈائیریکٹ قتل کرڈالنے کا حکم فرمایا ہے، اسلامی حکومت میں حاکم اعلی یہ اجازت عامہ دے دیں تو بات اور ہے وگرنہ اس دور میں مصلحتاً حکومت کے حوالے کرکے مقدمہ دائر کرادینا کافی ہے۔ نیز زنا کی طرح اس معاملے میں ثبوت و گواہان لازم ہیں۔ البتہ اس حدیث مبارکہ سے یہ صاف ہوگیا کہ باہم رضامندی والوں کی سزا معاشرے میں وبا پھیلانیں کی پاداش میں اسلامی حکومت میں موت کی بھی تجویز کی گئی ہے تو کسی مظلوم سے یہ کام جبراً لینے والے کی سزا کیا ہوگی سمجھنا مشکل نہیں۔

فقہ حنفیہ سے:
تحقیق یہ ہے کہ احادیث فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کرنے کے متعلق موجود ہیں اور دیگر احکام کی بھی روایات موجود ہیں لیکن حضور ﷺ کے دور میں ایسے کسی مقدمہ کا ثبوت نہیں ملتا تو اس میں مختلف اقوال منقول ہیں صحابہ کرام سے بھی کہ اس عمل کی سزا کیسے ہو۔ اب تمام دیگر مسالک و اقوال ماثورہ کے بعد حضرت امام اعظم سے منقول ہے کہ حد نہیں لگائی جائے گی تعزیر کی جائے گی۔ (باقی تقابلی مطالعہ کے شوقین حضرات مجھ سے مواد لے سکتے ہیں۔ مختلف روایات و تمام صحابہ و ائمہ کے اقوال مسالک و دلائل واختلافات وغیرہ جاننے کے لئے)

میڈیکل سے:
http://www.massresistance.org/…/homosex…/paperback-here.html

اس کتاب کا مطالعہ انگریزی دانوں کے لئے کافی رہے گا۔
جس میں ہم جنس پرستی سے ہونے والی ذہنی اور جسمانی بیماریوں پر مفصل گفتگو کی گئی ہے۔
اس گندی عادت کی وجہ سے
ذہنی امراض
ایچ آئی وی۔ ایڈز
کینسر
و
دیگر خطرناک بیماریوں کے ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے۔

اس گندی عادت سے توبہ اور جان چھڑانے کے لئے:
کتاب: روح کی بیماریاں اور ان کا علاج
اور
شیخ العرب و العجم مولانا شاہ حکیم محمد اختر رح کی دیگر کتب کا مطالعہ فرمائیں۔
کتب کے لئے ہم سے رابطہ کیا جاسکتا۔

مدرسے اور بدفعلی کا الزام:
اکثر ملحد، سیکیولر و لبرل دین داروں کو مدرسے میں لڑکوں سے بدفعلی کا طعنہ اس انداز میں دیتے ہیں کہ یہ کوئی روز مرہ کی بات ہو یا اُس مقدس ماحول میں میں ایسے مقدمے ہونا کوئی معمولی بات گردانی جاتی ہے۔

حالانکہ ایسی بات بلکل بھی نہیں، مدارس پر وہ الزام لگائیں جن کی 3 راتیں بھی مدرسے میں نہ گزری ہوں؟
تو اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا؟ پھر بھی دین دار حضرات سے بھی کہتا ہوں اور مخالفین سے بھی کہ آپ کسی بھی (مستند) بڑے یا چھوٹے مدرسے میں اچانک چھاپہ پڑوا سکتے ہیں تحدی/چیلینج کے ساتھ کہتے ہیں کہ نہ آپ کو دہشت گردی کہیں دکھے گی نا کوئی گناہ۔

آگے چل کر ہم آپ کو بتائیں گے عقلی و منطقی دلائل و شواہد و ثبوتوں کے ساتھ کہ یہ سازشیں ہیں مدرسوں سے دور رکھنے کی کہ کہیں کوئی دین دار نہ بن جائے، کوئی اللہ پاک و حضرت محمد مصطفی ﷺ سے محبت کرنے والا اور ان کے فرمائے پر عمل کرنے والا نہ بن جائے۔

عقلی و منطقی دلائل:
1۔ اگر مخالفین کے نزدیک یہ کام مدرسوں میں بہت ہی عام ہے تو ایسی خبر پر آخر جھپٹتے کیونکر ہیں؟ اس کو لے کر اتنا شور کیوں مچاتے ہیں؟ اس بات کو ذرا اک مثال سے سمجھئے کہ آفتاب/سورج روز طلوع ہوتا ہے کبھی کسی نے شور مچایا کہ آفتاب/سورج طلوع ہوگیا بڑی بات ہوگئی! یہ دلیل ہے اس بات کی کہ خود بغض سے جلنے والوں کے دماغ میں یہ بات ہے کہ مدرسے میں سے ایسی خبر آنا شاذ و نادر اور بہت بڑی بات ہے۔ بہت کم ایسی خبر آتی ہے تبھی تو جھپٹتے ہیں ان خبروں پر ورنہ کیا ضرورت تھی اس کو لے کر حشر بپا کرنے کی؟
نوٹ:
مدرسوں میں بھی اگر کوئی اس مرض کا مریض پایا جائے تو وہ ہمارے نزدیک قابل معافی نہیں، قابل اخراج ہے۔

2۔ نیز مدرسوں سے زیادہ دنیادارانہ نظام کے تحت چلنے والے اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، ہاسٹلیں جنسی برائیوں کے اڈے ہیں اور خیر سے وہاں تو اب سیکس ایجوکیشن کی ترقی بھی ہوگئی۔ تو جب تھیوری سکھائی جائے گی تو پریکٹیکل پریکٹس تو ہوگی ہی۔ تو کبھی ان کے لئے یہ پروپیگنڈہ کیا؟

3۔ نیز آج تک کسی ایک مدرسے کے بارے مین مخالف ثابت نہیں کر سکے کہ فلاں بدنام مدرسے میں روز کا معمول ہے۔

4۔ بالفرض والمحال اگر کوئی واقعہ خبر کی صورت اختیار کرلے تو بھی دین اور مدرسے کی تعلیم پر زد نہیں آتی۔ کیونکہ ادارے کی تعلیم یہ نہیں ہوتی۔ ادارے میں پڑھنے والے یا کسی شاذ و نادر پڑھانے والے کو ایسے کسی کام میں پکڑے جانے پر فوراً فارغ کیا جاتا ہے۔

5۔ مدرسوں میں پڑھنے اور پڑھانے والوں کےساتھ بھی نفس لگا ہوا ہے۔ ایسا نہیں کے فرشتے ہوتے ہیں مدرسوں میں پڑھنے پڑھانے والے نیز مزید اک بات ذرا تجربے کی ہے کہ مدارس میں پڑھنے والوں کی اکثریت بڑی برائیوں میں مبتلاء نہیں ہوتی اور بہت ہی زیادہ متقی پرہیز گار 5 سے 15 فیصد تک پائے جاتے ہیں۔

6۔ ایک طرف بے بنیاد الزامات ہیں، تو دوسری طرف قابل دید مدرسوں کے انتظامات ہیں، ہم نے خود آنکھوں سے دیکھا ہے کہ:

1۔ اساتذہ حدیث شریف پر عمل کرتے ہیں کہ (لاتنظروا الی المردان ان فیھم لمعۃ من الحور) امرد/بے ریش لڑکوں کی طرف نہ دیکھو ان میں حوروں کی کشش پاتا ہے نفس۔
2۔ کم از کم بھی اساتذہ خود کسی بے ریش یا خوبصورت لڑکے سے ادنٰی ترین خدمت نہیں لیتے۔
3۔ کبھی تنہائی نہیں ہونے دیتے ایسے لڑکے کے ساتھ۔
4۔ کسی طالب علم کو طالب علم سے دوستی بڑھانے، بڑے لڑکوں کو چھوٹے لڑکوں میں یا چھوٹے لڑکوں کو بڑے لڑکوں میں گھلنے ملنے تو کجا بات کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی بلا اجازت۔
5۔ مدرسوں میں امرد یعنی وہ لڑکے جن کی قدرتی داڑھی مونچھ ابھی نہیں آئی ان سے احتیاط و نظر کی حفاظت کی تعلیم دی جاتی ہے جب کہ بر عکس عصری اداروں میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔

سرگودھا،اسکول ٹیچر طالب علم کے ساتھ زیادتی کے الزام میں گرفتار۔۔۔
لنک:
https://www.arynews.tv/…/teacher-arrest-in-students-rape-c…/

سرگودہا کے نجی اسکول میں بچوں کا زبردستی جنسی استحصال۔۔۔
لنک:
http://www.dunyapakistan.com/101877/#.WZaa0vig_ow

اوستہ محمد کے گنجان آباد جان کالونی میں واقع ایک معروف نجی اسکول میں 8 سالہ معصوم بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ۔۔۔
لنک:
http://haalhawal.com/Story/5606

MUZAFFARGARH: The schoolteacher who was suspected of kidnapping, raping and murdering an 11-year-old child was killed by Khanewal district police on Tuesday.
LINK:
https://www.dawn.com/news/1100187

Peshawar school principal booked for sexual abuse of schoolchildren
LINK:
https://www.samaa.tv/…/peshawar-school-principal-booked-fo…/

سرچ انجنز پر خود سرچ کیجئے آپ حیران ہونگے مدرسے میں چھپی کالی بھیڑوں سے زیادہ مقدمے آپکو عصری اداروں کے ملیں گے۔۔۔

اللہ پاک ہم سب کے بچوں چاھے وہ مدرسوں کے ہوں یا اسکولوں کے انکی غیب سے حفاظت فرمائیں اور ہم سب کو متحد ہوکر اس لعنتی کام کے خلاف جہاد کی توفیق عطا فرمائیں۔۔۔

وماعلینا الا البلاغ۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).