کیا گائناکالوجسٹ پیسے کی خاطر نارمل کیس کو آپریشن میں بدلتی ہیں؟ (2)


حمل کے آغاز میں پہلے دو الٹرا ساؤنڈ دو ہفتے کے فرق سے کیے جاتے ہیں تاکہ بچے کی نارمل گروتھ کا ریکارڈ رکھا جا سکے۔ عموماً پہلا الٹرا ساؤنڈ 6 سے 7 ہفتے کی عمر پراور دوسرا 8 سے 9 ہفتے کی عمر پر کیا جاتا ہے۔ اس الٹرا ساؤنڈ کا مقصد حمل کی تشخیص کو کنفرم کرنا، حمل ٹھہرنے کی جگہ، ایک یا جڑواں یا زیادہ حمل کی تشخیص کرنا ہے۔ دوسرا سکین بچے کی گروتھ اور جڑواں بچے ہونے کی صورت میں ان دونوں کی گروتھ کے ایک دوسرے پر اثر کی تشخیص بھی کرتا ہے۔ کسی خاص صورتحال یعنی دو سے زیادہ بچے یا حمل کے قیمتی نہ ہونے کی صورت میں اگلے الٹرا ساؤنڈ کم از کم ایک ماہ کے وقفے سے کرانے چاہئیں۔ بہتر ہے کہ مریضہ اپنے اگلے وزٹ کی تاریخ اپنی ڈاکٹر سے طے کرکے ڈاکٹر چیمبر سے باہر نکلے تاکہ آپ کے ساتھ آپ کی ڈاکٹر بھی پابند ہو جائے۔ کوشش کیجیے کہ ڈاکٹر کا فون نمبر آپ کے پاس ہو اور ڈاکٹر کی فون میموری میں بھی آپ کا رابطہ نمبر آپکے نام سے محفوظ ہو۔ مریضہ پر چند ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں کہ ہر چھوٹے موٹے کام کے لیے ڈاکٹر کو فون نہ کریں، فون نمبر صرف ایمرجنسی میں استعمال کیلیے دیا جاتا ہے، رات تین بجے آپکو بھوک لگ جائے تو ڈاکٹر کو فون کرکے کھانے کی اجازت طلب مت کریں۔ ڈاکٹر کا فون آپ کے پاس امانت ہے، اسے اپنے تک محدود رکھیے اور اپنے فون ہی سے ڈاکٹر کو فون ملایے۔ آپ کا نمبر ڈاکٹر کے پاس آپکے نام سے محفوظ ہوگا، وہ آپ کو پہچان کر فون اٹھائیں گی نظرانداز نہیں کریں گی۔ ظاہر ہے کہ اجنبی نمبر ہر کوئی نہیں اٹھاتا۔ مریضہ اپنے شوہر، بھائی یا دیور کے فون سے ڈاکٹر کا نمبر ملائے گی تو اس کال کے بعد ڈاکٹر کا وہ نمبر ڈیلیٹ کر دے گی۔

بعض خواتین کو کنفرم نہیں ہوتا کہ ان کی ڈلیوری سسرال میں ہو گی یا دوسرے شہر میں مقیم میکے میں۔ ایسی صورت میں دونوں شہروں میں ایک ایک ڈاکٹر سے رابطہ رکھیے اور اپنی ڈاکٹرز کو بھی اس بارے میں واضح بتایے۔ ایسی باتیں چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں، ڈاکٹر کو اتفاقاً پتا چلنے کی صورت میں بلاوجہ موڈ خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ آپ اپنے عمل میں درست ہیں، اس لئے ڈریے مت! حمل کے ابتدائی تین ماہ میں سخت جسمانی مشقت، ازدواجی تعلقات، قبض اور غیرضروری سفر سے ہر ممکن پرہیز رکھیے۔ ہوائی سفر مکمل منع ہے۔ آپ فعال ضرور رہیں، چہل قدمی کریں لیکن گیلے کپڑوں سے بھری وزنی ٹوکری اٹھا کر چھت پر کپڑے پھیلانے مت جائیں۔ اس کیلئے گھر کے کسی فرد کو مدد کیلیے پکاریے یا وزن کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کر لیجیے۔

پانچویں ماہ میں 18 سے 22 ہفتے کے دوران ایک اسپیشلسٹ الٹرا ساؤنڈ کروایے۔ یہ فیٹل اناملی سکین (foetal anomaly scan ) کہلاتا ہے اور بچے کی صحت، گروتھ کے ساتھ ساتھ بچے میں کسی ابنارمیلٹی کی تشخیص کرتا ہے۔ تھیلیسیمیا کیرئیر والدین کے بچے کا بھی یہاں اندازہ ہو جاتا ہے کہ بچہ یہ موروثی بیماری لے کر پیدا ہوگا یا صحت مند۔ اسی اثنا میں ڈاکٹر آپ کے خون کے ٹیسٹس بھی کروا چکی ہوگی جس کے مطابق فولاد یا ملٹی وٹامنز تجویز کرے گی۔ بعض سنٹرز میں اس مرحلے پر شوگر چیلنج ٹیسٹ پہلی بار یا دوبارہ کیا جاتا ہے۔ دوران حمل ہونے والی شوگر کی میعاد وضع حمل ہے، اس لئے یہ مستقل بیماری نہیں۔ دورانِ حمل شوگر کا بہترین کنٹرول انسولین سے ہوتا ہے لیکن تازہ ترین ریسرچ نے ’میٹ فارمین‘ نامی دوا بھی محفوظ قرار دی ہے، اس لئے انسولین کے ٹیکے سے خوفزدہ مریض سکھ کا سانس لیں۔ ماہانہ چیک اپ میں ڈاکٹر بلڈ پریشر اور وزن چیک کرتی ہیں۔ وزن ضرورت سے زیادہ بڑھ رہا ہو تو ڈاکٹر سے بات کیجیے تاکہ اسے کنٹرول کیا جا سکے۔

نارمل حمل، عورت کو 12 سے 24 کلو تک وزن کا تحفہ دیتا ہے۔ دوران حمل ہائی بلڈپریشر انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے، یہ زچہ اور بچہ دونوں کے لیے برا ہے۔ حاملہ کا بلڈ پریشر بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ حمل سے ہے۔ بچے کی آنول میں موجود خون کی نالیوں میں خون کے بہاؤ کو ملنے والی رکاوٹ اور حمل کے ہارمونز اس کی بنیادی وجوہات ہیں۔ اس کیلیے نمک،انڈے، گوشت اور چکنائی سے مکمل پرہیز کے ساتھ دوا کا پابندی سے استعمال دونوں قیمتی جانوں کی حفاظت کا ضامن ہے۔ اپنی روٹین میں سیر کو بھی ضرورشامل رکھیے۔ بلڈ پریشر کو 135/85 تک یا اس سے نیچے رہنا چاہیے۔ اس سے زیادہ ہونے کی صورت میں پرہیز اور دوا میں سستی مت کیجیے۔ بلڈ پریشر کی زیادتی، پاؤں، چہرے یا تمام جسم پر سوجن کا آنا، وزن بڑھنا اور پیشاب میں ایلبیومن نامی پروٹین کا اخراج انتہائی خطرناک علامات ہیں۔ ایسی صورت میں خاتون کو اسپتال میں جلد داخل ہونا چاہیے تاکہ محفوظ ماحول میں بلڈ پریشر کنٹرول کیا جاسکے۔ اگر حاملہ بی پی کے بڑھنے سے غنودگی یا بیہوشی میں چلی گئی ہے یا اسے جھٹکے/ دورے کی کیفیت آ گئی ہے تو یہ شدید ایمرجنسی ہے جو ایک یا دونوں کی جان لے سکتی ہے۔ اگر وقت قریب ہو تو بچے کی پیدائش بھی کرائی جا سکتی ہے لیکن حمل کی مدت کم ہونے کی صورت میں ڈاکٹر انجکشنز کے ذریعے بی پی کنٹرول کریںگی، ساتھ ہی ساتھ بچے کے پھیپھڑوں کی میچورٹی کے انجکشن بھی دیے جائیں گے تاکہ شدید حالات میں وقت سے پہلے بچے کی پیدائش کرانا پڑ ہی جائے تو بھی بچے کے بچنے کے امکانات زیادہ ہوں۔ شوگر کی صورت میں بھی یہی اینابولک اسٹیرائیڈ انجکشن ماں کو دیا جاتا ہے تاکہ بچے کی جان کو محفوظ بنایا جا سکے۔

ٹیٹنس یعنی تشنج سے بچاؤ کے کم از کم دو ٹیکے جو چار ہفتے کے فرق سے لگائے جاتے ہیں انہیں ہر صورت میں لگوائیں۔ یہ ٹیکے حکومتی ٹیمیں گھر گھر جا کر بالکل مفت بھی لگاتی ہیں۔ بہت مناسب ہے کہ ساتویں ماہ میں ڈاکٹر مریضہ کو وٹامن ڈی کا اوورل انجکشن بھی پلا دیں۔ یہ ماں اور بچے کی ہڈیوں کے لیے مفید ہے۔

مریضہ کا بلڈ گروپ اگر پازیٹو یا ماں اور باپ دونوں کا گروپ نیگیٹو ہے تو بہترین ہے لیکن نیگیٹو گروپ والی ماں جس کے شوہر کا بلڈ گروپ پازیٹو ہو، اس کیلیے چند احتیاطی تدابیر ضروری ہیں۔ اگر پہلا حمل ہے اور 9 ماہ کے دوران حمل کے حوالے سے کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیاتو ڈلیوری کے فوراً بعد بچے کا بلڈ گروپ چیک کروایا جاتا ہے۔ اگر بچے کا گروپ باپ پر ہے یعنی پازیٹو، ایسی صورت میں زچہ کو اینٹی ڈی ٹیکے کی ضرورت پڑتی پے جس کی قیمت چند ہزار روپے ہے۔ یہ اسی والد سے پیدا ہونے والے اگلے پازیٹو گروپ کے بچے کی زندگی کو محفوظ بناتا ہے۔ یہ ٹیکہ زچگی کے بعد پہلے 72 گھنٹوں کے اندر اندر دیا جانا چاہیے۔ بچہ ضائع ہونے یا دوران حمل پیش آنے والے چند حادثات کی صورت میں یہ ٹیکے دوران حمل بھی دیے جاتے ہیں اور زچگی کے بعد بچے کا پازیٹو گروپ کنفرم کرکے دوبارہ بھی لگائے جاتے ہیں۔ اگر ایک ماں نے کسی وجہ سے ٹیکہ نہیں لگوایا اور وقت گزر گیا تو اگلے حمل میں تین سے چار دفعہ یہی ٹیکے لگانے پڑ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر سے بات کر لیجیے۔ یہ ٹیکے نہ صرف بچے کی زندگی بچاتے ہیں بلکہ اسے مختلف بلڈ گروپس کی وجہ سے پیدا ہونے والے پیدائشی نقائص سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ پیدائش کے فوراً بعد بچے کی شوگر چیک کی جاتی ہے جو ماں کو دی جانے والی شوگر کی ادویات کے زیر اثر کم ہوسکتی ہے، اسے فوراً گلوکوز سے کنٹرول کر لیا جاتا ہے۔ یہ ابتدائی شوگر ٹیسٹ بچے کی جان بچانے کے لیے انتہائی اہم ہے، جب تک ماں کی ادویات کا اثر نومولود کے خون میں رہے گا (عموماً 48 سے 72 گھنٹے) بچے کی شوگر کم ہوتی ہے۔ ایسے بچے کا وزن بھی زیادہ ہوتا ہے، اس لئے یہ بچہ دوسرے بچوں کی نسبت جلد بھوکا ہوجاتا ہے، اسے چھوٹے وقفوں کے بعد فیڈ کرایا جاناچاہیے۔

ہائی بلڈ پریشر والی خاتون کا بچہ کم وزنی اور نازک ہوتا ہے۔ عموماً 9 ماہ کا بچہ ایک سے ڈیڑھ کلو وزن کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اس قدر نازک بچہ زچگی کی تکلیف، درد اور گھٹن برداشت نہیں کرسکتا۔ نیز نارمل ڈلیوری میں دردیں سہنے کی صورت میں زچہ کا بی پی مزید بڑھ سکتا ہے جو دورے، بے ہوشی سے بڑھ کر دماغ یا جگر میں خون بہنے تک کا باعث بن سکتا ہے۔ شدید صورتحال میں ’ہیلپ(HELLP) سینڈروم‘بھی ہو سکتی ہے جس میں ہائیپرٹینشن( H) لیور انزائمز کی زیادتی (EL ) اور خون جمانے والے خلیوں کی تعداد میں کمی (L P )شامل ہے۔ یہ جان لیوا کیفیت ہے، شدید حالت میں جسم کی ہر شریان سے خون بہنے لگتا ہے اور جان بچانا ناممکن تو نہیں لیکن انتہائی زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر کی مریضہ کا بچہ فوراً کم وقت میں، بنا درد کے پیدا کرایا جانا چاہیے اس کے لیے بھی سیزیرین بہترین آپشن ہے۔ہاں! بلڈ پریشر کی معمولی زیادتی جو دوا اور پرہیز سے کنٹرول ہو، اس صورت میں ایمرجنسی سیزیرین کی اجازت اور تیاری کے ساتھ نارمل ڈلیوری کی کوشش کی جانی چاہیے۔ یہی حکمت عملی نارمل شوگر کنٹرول والی ایسی خاتون جن کا بچہ زیادہ وزنی نہ ہو اس کے لیے بھی اپنائی جانی چاہیے۔

یاد رکھیے! پہلے بچے کی پیدائش سے پہلے آپ کا جسم اس مرحلے سے کبھی نہیں گزرا۔ پہلے بچے کی دفعہ بڑے آپریشن کی کوئی واضح انڈیکیشن نہ ہونے کے باوجود نارمل ڈلیوری کے امکانات 50 فیصد ہوتے ہیں، کیونکہ 8 سے 12 گھنٹے کا زچگی کا یہ سخت مرحلہ کوئی بھی رخ اختیار کرسکتا ہے۔ ماں کی درد سہنے کی ہمت ختم ہو سکتی ہے، بچہ آکسیجن کی کمی کا شکار ہوسکتا ہے یا رحم زچگی کی ادویات پر مطلوبہ رسپانڈ نہیں کرتی، ایسی صورت میں درد شروع نہیں ہوتا یا درد کے باوجود بچے کی پیدائش کا راستہ نہیں بنتا۔ ایسے میں بھی نارمل ڈلیوری کی کوشش کے باوجود آخری حل آپریشن ہی رہ جاتا ہے۔ وہ خواتین جن کا پہلا آپریشن کسی اتفاقیہ، غیر مستقل وجہ سے ہوا، مثلاً بچہ الٹا تھا یا آکسیجن کی کمی کا شکار ہوگیا تھا، ایسی صورت میں پہلے آپریشن کے باوجود اگر پہلی اور دوسری زچگی میں وقفہ کم از کم دو سال کا ہے اور پہلے آپریشن کے نشان میں کوئی تکلیف درد یا کھنچاؤ نہیں، بچہ بھی سیدھا ہے، باقی تمام معاملات بھی درست ہیں تو نارمل ڈلیوری کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے کیس میں بھی نارمل ڈلیوری کے چانسز پہلی ڈلیوری کی طرح 50 فیصد ہی ہیں لیکن اگر پہلا آپریشن کسی مستقل وجہ سے ہوا،مثلاً کولہے کی ہڈی تنگ ہے، ایسی صورت میں نارمل ڈلیوری کی کوشش غلط ہوگی۔ تنگ ہڈی کا مطلب چار بچے چار سیزیرین اور بس! اگرکسی کے چار سیزیرین ہوگئے لیکن کوئی بچہ نہیں بچا یا بیٹیاں ہیں بیٹا نہیں، ایسی کسی خصوصی صورتحال میں خاتون کی جسمانی کیفیت، صحت، پرانے آپریشنز، کمزوری وغیرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اُنہیں پانچویں سیزیرین کا چانس دیا جاتا ہے۔ میڈیکل اصول کے مطابق چار سے زیادہ آپریشن منع ہیں۔

اگر دو، تین بچے ہیں تو بھی مزید آپریشن سے بچیں لیکن ایسی کسی خصوصی صورتحال میں پانچواں آپریشن کرانا پڑے تو کوشش کیجیے کہ ٹریٹری کئیر اسپتال یا سینئر گائناکالوجسٹ جو مشکل کیسز میں مہارت رکھتی ہو، ہی سے کیس کرائیں۔ گائناکالوجسٹ کو بھی چاہیے کہ اقربا کو اس کیس سے وابستہ خطرات سے بھی کماحقہ آگاہ کر دے۔ ایک ڈاکٹر جس نے آپ کی مریضہ کے پہلے چار کیس کیے ہیں، پانچویں کے لیے بھی وہی ڈاکٹر اچھا انتخاب ہیں۔

٭سیزیرین سے بچنے کی خواہش مند خواتین دورانِ حمل گھر کے کام کاج خصوصا پوچا لگانے اور چہل قدمی کی پابندی کریں، جب تک ممکن ہو مکمل درست طریقے سے پانچ وقت کی نماز کا اہتمام کریں،اپنی ڈاکٹر سے رہنمائی لیتی رہیں اور نویں ماہ میں پیڑو کی ورزشیں کریں۔

٭آپ کو جس معالج کی نیت میں کھوٹ محسوس ہو، اسکے پاس مت جائیں۔

٭ڈاکٹر کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں اور پھر اسے اپنا مخلص ترین دوست مان لیں۔ یقین رکھیں کہ ایک ڈاکٹر کبھی اپنے مریض کا نقصان نہیں چاہتا۔

٭اگر آپ افورڈ نہیں کرسکتے تو پرائیویٹ کلینک یا ہسپتال مت جائیں۔ اب سرکاری ہسپتالوں میں بھی بہترین کام ہو رہا ہے، وہاں ڈلیوری کا طریقہ کار طے کرنے کا پیمانہ ’’پیسہ‘‘ نہیں ہوتا۔

٭اگر آپ نے پرائیویٹ ڈاکٹر ہی سے ڈلیوری کرانے کا فیصلہ کیا ہے تب 9 ماہ اسی ڈاکٹر سے متعلق رہیں، اسکی ہدایات پر نہ صرف عمل کریں بلکہ ڈاکٹر کو واضح طور پر اپنے ارادے سے آگاہ کریں کہ میں آپ پر اعتماد کرتی ہوں اور آپ ہی سے ڈلیوری کروانے کا ارادہ رکھتی ہوں۔

٭گائناکالوجسٹ سے دوستانہ بہن یا بیٹی جیسا رشتہ استوار کریں۔ ایسا کرنے سے ڈاکٹر آپ کے ساتھ ایک جذباتی بندھن میں قید ہو جائے گی اور آپ کی بہتری اُس کے پیش نظر ہو گی نہ کہ پیسہ۔

٭اپنی ڈاکٹر سے کیس کی نوعیت، ڈلیوری کی تاریخ، نارمل اور آپریشن پر آنے والے اخراجات پر بات کر لیں۔ بعد کی بدمزگی سے بچاؤ کیلیے ہر دو صورتوں کی فیس طے کرلیں۔ میری چند ساتھی ڈاکٹروں نے ایک نیا طریقہ وضع کیا ہے، وہ نارمل ڈلیوری کیس اور آپریشن کی فیس برابر لیتی ہیں۔ اس طرح ان پر یہ الزام کوئی نہیں لگا سکتاکہ وہ پیسوں کیلیے بڑا آپریشن کرتی ہیں۔

 

حاملہ عورت کی خوراک اس کے بچے کی خوراک کا بنیادی ذریعہ ہے۔ اس لیے ماہرین خوراک حاملہ عورت کو مختلف اقسام کی غذائیں استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ بچے کی بڑھوتری کے لیے ضروری غذائی اجزا بہم پہنچائی جاسکیں۔ دوران حمل بنیادی غذائیت امریکن کالج آف گائنی اینڈ آبس (ACOG )کے مطابق ایک حاملہ عورت کو کیلشیم، فولک ایسڈ، فولاد اور لحمیات کی ضرورت ایک عام عورت سے زیادہ ہوتی ہے۔ ان چار بنیادی غذائی اجزاء کی اہمیت مندرجہ ذیل ہے:

٭فولک ایسڈ: غذا میں موجود فولک ایسڈ کو فولیٹ کہا جاتا ہے۔ یہ وٹامن بی کی ایک قسم ہے، یہ دوران حمل بچے کے اعصابی نظام جس میں دماغ اور حرام مغز شامل ہیں کی نشوونما میں مددگار ہوتا ہے اور اعصابی نظام کو کسی پیدائشی نقص سے محفوظ رکھتا ہے۔ عام گھریلو خوراک سے فولک ایسڈ کی مطلوبہ مقدار حاصل نہیں ہوتی، اس لیے حمل کی خواہشمند خاتون کو حاملہ ہونے سے ایک ماہ پہلے سے 400 مائیکرو گرام فولک ایسڈ روزانہ لینا چاہیے۔ دوران حمل اس مقدار کو 600 مائیکروگرام تک بڑھا دینا چاہیے۔ یہ مقدار حمل میں دی جانے والے طاقت بخش ادویات (ملٹی وٹامن گولیوں) میں عام طور پر پائی جاتی ہے۔ فولک ایسڈ ہرے پتوں والی سبزیوں، اضافی طاقت والے دلیہ، ڈبل روٹی، روٹی اور پاستا میں پایا جاتا ہے۔

٭کیلشیم: معدنیات کی ایک قسم جو بچے کی ہڈیوں اور دانتوں کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک ماں مناسب مقدار میںکیلشیم استعمال نہیں کرتی تو قدرتی نظام اس کی ہڈیوں میں سے کیلشیم حاصل کر کے بچے کی ہڈیاں بنا دیتا ہے، اس طرح ماں کی ہڈیاں کمزور اور بھربھری ہونے لگتی ہیں۔ اچھے معیار کی ڈیری مصنوعات میں وٹامن ڈی شامل کیا جاتا ہے، یہ ایک اہم غذائی جزو ہے جو کیلشیم میں جذب ہوکر جزو بدن بننے کے عمل میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ بچے کے ڈھانچے کی تشکیل میں کیلشیم اور وٹامن ڈی شانہ بشانہ کام کرتے ہیں۔ امریکن کالج آف گائنی اینڈ آبس کے مطابق 19 سال یا اس سے بڑی عمرکی حاملہ خواتین کو روزانہ 1000 ملی گرام کیلشیم درکار ہوتا ہے جبکہ 14سے 18 سال کی ماؤں کے لیے 1300 ملی گرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیلشیم دودھ دہی پنیر فورٹی فائیڈ مشروبات، مچھلی (دو اقسام سارڈین اور سارڈین) اور چند ہرے پتوں والی سبزیوں مثلا بند گوبھی یا چائنا گوبھی میں پایا جاتا ہے۔

 ٭فولاد: ایک حاملہ عورت کو 27 ملی گرام فولاد روزانہ کی بنیاد پر چاہیے۔ یہ مقدار ایک عام عورت کی روزانہ ضرورت سے دوگنا ہے۔ بچے کو زیادہ آکسیجن بہم پہنچانے کیلیے زیادہ خون درکار ہوتا ہے اور اس خون کی تیاری کیلیے معدنیات کی اضافی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوران حمل فولاد کی کم مقدار، خون کی شدید کمی یعنی اینیمیا کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں خاتون تھکاوٹ اور متعدی امراض کا آسان شکار ثابت ہوتی ہے۔ معدنیات خصوصاً فولاد کے بہترین انجذاب کیلیے فولاد سے بھرپور خوراک کے ساتھ وٹامن سی استعمال کیا جانا چاہیے مثلاً شامی کباب یا روسٹ کے ساتھ مالٹے کا تازہ جوس پئیں۔ فولاد کے حصول کیلیے گوشت (بیف،مٹن ) پولٹری(مرغ گوشت اور انڈہ) مچھلی دالیں اور چنے اور فورٹی فائیڈ سیریلز استعمال کیجیے۔ ہرے پتوں والی سبزیاں سیب اور کلیجی بھی فولاد کا اچھا ذریعہ ہیں۔ فولاد کے ساتھ وٹامن سی اور کیلشیم کے ساتھ وٹامن ڈی کا استعمال بہترین نتائج کا ضامن ہے۔ اسی طرح فولاد اور کیلشیم کو ایک ہی وقت میں لینے سے دونوں ضائع ہو جاتے ہیں یعنی فولاد کی گولی کو دودھ کے ساتھ لینا غلط ہے۔

٭لحمیات (پروٹین): اسکی اہمیت انسانی جسم میں ایسے ہی ہے جیسے کسی عمارت کی تعمیر میں اینٹوں کی۔ عموماً ہمارے ہاں خواتین کو اس بنیادی جزو کی غذائی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیونکہ گوشت نہ بھی مہیا ہو تب بھی دالوں میں لحمیات کی مناسب مقدار موجود ہوتی ہے۔خوراک کا یہ بنیادی جزو بچے کے اعضائے رئیسہ مثلاً دل اور دماغ کے بننے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پروٹین گوشت، مچھلی، مرغی، خشک دالوں /بینز انڈوں اور ڈرائی فروٹس سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ دوران حمل ماں کی خوراک ایسی ہونی چاہیے جو ماں اور بچے ہر دو کی جسمانی ضرورت کو پورا کر سکے۔ زچگی سے پہلے کی غذائی ضروریات پوری کرنے کیلیے خوراک میں مندرجہ ذیل پانچ غذائی گروہ شامل ہونے چاہییں: 1۔ پھل،2۔سبزیاں،3۔چربی کے بغیرگوشت، 4۔اجناس، 5۔دودھ یا دودھ سے بنی مصنوعات حاملہ کے لیے کھانے کی پلیٹ کو اس انداز میں بھرنا چاہیے کہ اس کی نصف پلیٹ میں پھل اور سبزیاں ہوں، ایک چوتھائی میں گوشت اور ایک چوتھائی میں اجناس (دالیں) ہوں۔ہر کھانے میں دودھ، دہی یا پنیر کا استعمال ضرور کرے۔

  • کیا گائناکالوجسٹ پیسے کی خاطر نارمل کیس کو آپریشن میں بدلتی ہیں؟ (2)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).