صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے سے بلوچستان کی محرومیاں ختم ہو جائیں گی؟


پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے شدید اختلافات کے باوجود بلوچستان سے ایک نامعلوم سیاستدان اور عسکری حلقوں کی حمایت رکھنے والے وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کے امید وار صادق سنجرانی کی حمایت کرکے دراصل مسلم لیگ(ن) کو سیاسی شکست سے دوچار کیا ہے۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ دونوں اہم پارٹیاں اپنے اس اعلان شدہ مقصد میں بھی کامیاب ہو گئی ہیں کہ اس بارسینیٹ چیئرمین کے اہم عہدہ پر ملک کے سب سے چھوٹے اور سب سے محروم صوبے کا حق ہے تاکہ وہاں کے عوام کا احساس محرومی کم ہو سکے۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جب آزاد سینیٹرز کا پینل لے کر اسلام آباد وارد ہوئے تھے تو ان کا مقصد اس مشن کو کامیاب کرنا تھا جس کے تحت جنوری میں بلوچستان مسلم لیگ (ن) میں بغاوت کرواکے ، صوبے کی حکومت ان کے حوالے کی گئی تھی۔ اب یہ ضروری تھا کہ مسلم لیگ(ن) کو ہر صورت سینیٹ کے چیئرمین کا عہدہ لینے سے روکا جائے۔ اپوزیشن اس مقصد میں ضرور کامیاب ہوگئی ہے۔

نو منتخب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو تینوں چھوٹے صوبوں کی حمایت حاصل تھی۔ خیبر پختون کی اکثریتی جماعت تحریک انصاف اور اس کے بعد سندھ میں اکثریت رکھنے والی پیپلز پارٹی نے بھی نواز شریف سے سیاسی انتقام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے بلوچستان سے آزاد پینل کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کرکے انہیں ناقابل شکست بنا دیا تھا۔ بحران اور انتشار کا شکار متحدہ قومی موومنٹ کے دونوں گروپ اپنے بقا کی جنگ میں مصروف ہیں ، اس لئے ان کے لئے ایک ایسے امید وار کی حمایت کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا جس کے بارے میں یہ تاثر قائم تھا کہ وہ ملک کے بادشاہ گر حلقوں کے حمایت یافتہ ہیں۔ فاٹا کے ارکان نے اس مقابلہ میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ۔ اگرچہ فاٹا کے ارکان روائیتی طور پر حکمران پارٹی کا ساتھ دیتے ہیں لیکن اس بار مسلم لیگ(ن) کے مدمقابل کو ووٹ دے کر انہوں نے بھی یہ واضح کیا کہ اگر کوئی حکمران جماعت بھی ملک میں طاقت کے توازن میں کردار ادا کرنے والی قوتوں کے دوبدو ہوگی تو اس مقابلہ میں ان کا جھکاؤ اصل طاقت رکھنے والے گروہ ہی کی جانب ہوگا۔

سینیٹ کے انتخاب کو چھوٹے صوبوں کی پنجاب کے استحصال کے خلاف اتحاد اور کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ سینیٹ چیئرمین کا انتخاب ان قوتوں کے خلاف ’بغاوت‘ کا اظہار ہے جن کی زیادتیوں اور پالیسیوں کو پنجابی حکمرانوں کا چہرہ دے کر چھوٹے صوبوں میں پنجاب کے خلاف ایک خاص فاصلہ اور نفرت کی فضا پیدا کی جاتی رہی ہے۔ پنجاب کے لوگ بھی اسی طرح محرومیوں اور استبداد کا شکار ہیں جیسے دوسرے صوبوں میں عوام کو مختلف قسم کے مسائل درپیش ہیں۔ ملک کے ایک چھوٹے صوبے سے تعلق کی بنا پر کسی کو سینیٹ کا چیئرمین بنوانے سے نہ ان محرویوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے جو اس صوبے کے عوام برداشت کرتے رہے ہیں اور نہ ہی ان کے مصائب و مشکلات میں کمی واقع ہوگی۔ یہ کامیابی علامتی فتح قرار دی جاسکتی تھی لیکن جب بادشاہ گری کے ذریعے نتائج حاصل کرنے اور ایک خاص ایجنڈے کے لئے بلوچستان کے ایک فرد کو چیئرمین سینیٹ بنوانے کی راہ ہموار کی گئی ہو تو دیگر مقاصد پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔

ستم ظریفی ہے کہ بلوچستان یا دیگر چھوٹے صوبوں میں جن قوتوں کے ظلم و استحصال کی وجہ سے بے چینی اور محرومی کا احساس پایا جاتا ہے، بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور نو منتخب چیئر مین سینیٹ ، انہی قوتوں کے ہرکارے ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ میر عبدالقدوس بزنجو عام انتخاب میں پانچ سو ووٹ لے کر بلوچستان اسمبلی کے رکن بنے تھے اور ان کا تعلق بلوچستان اسمبلی میں کم ترین نمائیندگی رکھنے والی مسلم (ق) سے ہے۔ اس کے باوجود جنوری میں انہیں مسلم لیگ (ن) اور خیبر پختون خوا ملی پارٹی کی اکثریت کے باوجود صوبے کا وزیر اعلیٰ بنوا دیا گیا تھا۔ اسی طرح صادق سنجرانی جیسے غیر معروف اور ناتجربہ کار شخص کو ایوان بالا کا چیئرمین بنوا کر بلوچستان کے کاز کو کوئی فائدہ پہنچانے کی بجائے قومی سیاسی کھیل میں نواز شریف کا راستہ روکنے اور ان کی سیاسی حیثیت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اسی طرح بلوچستان کے سینیٹر کو چیئر مین سینیٹ بنواکر پاکستان تحریک انصاف کے عمران خان چھوٹے صوبوں کی محرومی کم کرنے میں کوئی کردار تو ادا نہیں کرسکے لیکن انہوں نے نواز شریف سے اپنی دشمنی نبھانے کا مقصد ضرور پورا کرلیا ہے۔ وہ پہلے یہ اعلان کرتے رہے تھے کہ وہ کسی قیمت پر پیپلز پارٹی کےساتھ تعاون نہیں کریں گے اور اس پارٹی کے امید وار کو ہرگز ووٹ نہیں دیں گے۔ لیکن بلوچستان کے امیدوار کی حمایت کے جوش میں بالآخر انہیں آصف زرداری کے پسندیدہ سلیم مانڈی والا کو ڈپٹی چیئرمین کے طور پر قبول کرکے ایک کڑوی سیاسی گولی بھی نگلنا پڑی۔ حالانکہ پیپلز پارٹی سے براہ راست تعاون کی صورت میں تحریک انصاف کو سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین کے عہدہ کی پیشکش کی گئی تھی لیکن یہ عمران خان کو قبول نہیں تھا۔ اسی طرح آصف زرداری کو نواز شریف سے سیاسی انتقام پورا کرنے اور اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے بدستور قومی سیاست میں اہمیت حاصل کرنے کی تگ و دو میں پیپلز پارٹی کوسینیٹ کے چیئرمین کے عہدے سے محروم کرنا پڑا۔ نواز شریف پیپلز پارٹی کے رضا ربانی کو امید وار بنانے کی صورت میں ان کی حمایت کرنے پر آمادہ تھے۔ لیکن اس طرح آصف زرداری کا انتقام بھی پورا نہ ہوتا اور وہ جس مفاہمانہ طرز عمل کے ذریعے سیاسی مفادات حاصل کرنے کی جو کوشش کررہے ہیں ، ان کی راہ میں بھی رکاوٹ حائل ہوتی۔ موجودہ حالات میں عمران خان کا یہ مؤقف کمزور ہؤا ہے کہ وہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے ایسی کسی پارٹی سے تعاون نہیں کریں گے ، جسے وہ ملک کے موجودہ مسائل میں حصہ دار سمجھتے ہیں۔ اس سے بہتر ہوتا کہ وہ پیپلز پارٹی کی بالواسطہ حمایت کرکے اس کا ڈپٹی چیئرمین منتخب کروانے کی بجائے دونوں عہدوں کے لئے اپنے امید وار کھڑے کرکے باوقار سیاسی رویہ اور حکمت عملی کا اظہار کرتے۔

مسلم لیگ (ن) سینیٹ کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود اپنا چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین بنوانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اسے پارٹی اور نواز شریف کی سیاسی حکمت عملی کی ناکامی کہا جائے گا۔ حالانکہ انہوں نے راجہ ظفر الحق جیسے طاقتور حلقوں کے پسندیدہ شخص کو امیدوار بنا کر خود بھی مفاہمانہ سیاست کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن یہ ہتھکنڈا بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس سے پہلے اپوزیشن کی طرف سے بلوچستان کا امید وار سامنے لانے اور چھوٹے صوبوں کے کارڈ کا توڑ کرنے کے لئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے میر حاصل بزنجو کو امید وار بنانے پر غور کیا گیا تھا کیوں کہ جنوری میں ہونے والی بغاوت کے سبب مسلم لیگ (ن) کے پاس بلوچستان سے اپنا کوئی سینیٹر موجود نہیں تھا۔ لیکن جب یہ اندازہ کرلیا گیا کہ اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود ایک چھوٹی پارٹی کا امید وار لانے سے بھی کامیابی ملنا ممکن نہیں تو مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ ظفر الحق کو امیدوار بنا دیا گیا۔ اور ڈپٹی چیئر مین کے عہدہ کے لئے بلوچستان سے امید وار چنا گیا۔

سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں کے انتخاب میں ملک کی سیاسی قیادت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگرچہ ہر پارٹی اور لیڈر اسے اپنی کامیابی تصور کرے گا لیکن جس بنیاد پر منتخب امیدواروں کی حمایت کی گئی ہے، اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ اس سے سیاسی مفاہمت یا مقاصد کی تکمیل نہیں ہوئی بلکہ ملکی سیاست میں درپردہ بازی گروں کے ہتھکنڈے کامیاب ہوئے ہیں۔ ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود البتہ مسلم لیگ(ن) پر نواز شریف کی گرفت کمزور کرنے اور فیصلوں میں انہیں غیر اہم کرنے کا مقصد حاصل نہیں ہو سکا۔ نواز شریف اور مسلم لیگ(ن) کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ بلوچستان میں بغاوت اور سینیٹ انتخاب میں پارٹی کے امیدواروں کو آزاد حیثیت سے شریک ہونے پر مجبور کرنے کے باوجود ابھی تک مسلم لیگ میں انتشار کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali