جمہوریت اور جامعات: وہی حیلے ہیں سلطانی


\"rafiaجب سے انسان نے اس دنیا میں قدم رکھا، طاقتور نے کمزور پر اپنا حق سمجھتے ہوئے حکومت کی۔ کمزوروں کو غلام بنا کر ان پر ظلم و ستم کیا- ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی خواہش اور کوشش کی وجہ سے دنیا میں دنگا فساد شروع ہوا۔ دنیا کی تاریخ بڑی بڑی جنگوں سے بھری پڑی ہے۔ جوں جوں وقت کا پہیہ گھومتا رہا انسان شعور اور آگہی حاصل کرتا گیا اور انسان کو دنیا کی بہتری کا خیال آیا- انسان کے بنیادی حقوق کی ترجمان قوموں نے جمہوری نظام حکومت کو فروغ دیا جہاں ہر آدمی کو حقِ رائے دہی حاصل ہوتا ہے۔ لوگ اپنے نمائندے  منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجتے ہیں جو ان کے حقوق کی حفاظت کے لیے قانون سازی کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ اقوام جمہوریت کے اسی اصول پر عمل پیرا ہیں۔ وہ اپنے ان اداروں میں مشاورت کرتے ہیں اور اپنے عوام کی بہبود کے لیے قوانین مرتب کرتے ہیں۔ جن کی روشنی میں عوام کی فلاح بہبود اور معاشرے میں نظم و ضبط  کے معیار مقرر کیے جاتے ہیں تا کہ شہریوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں اور انہیں بنیادی آزادیوں کے ساتھ ساتھ مناسب سماجی، قانونی اور معاشی تحفظ فراہم ہو۔ ان ملکوں کے تھنک ٹینک، جن میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے متعلقہ ماہرین اور دانشور شامل ہوتے ہیں، انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہمہ وقت آزادانہ مکالمے میں مصروف رہتے ہیں تا کہ حقوق و فرائض اور قوانین کے نفاذ میں فریقین کے مابین انصاف کے تقاضوں سے متصادم صورتِ حال پیدا نہ ہو، کوئی ایسا قانون نہ بن جائے جو انسان کی شخصی آزادی اور انسانیت کی قدر و منزلت کے منافی ہو۔ لہٰذا ایسے ممالک میں تو بہترین جمہوری نظام حکومت ہے اور وہاں کے شہریوں کو صحت و صفائی، تعلیم، انصاف اور دیگر بنیادی سہولتوں کے ساتھ ساتھ بڑی حد تک سماجی اور معاشی تحفظ بھی حاصل ہے۔

دنیا میں بڑے بڑے بادشاہی سلاسِل گزرے ہیں جو تاریخ کے صفحات میں قصہ پارینہ بن گئے۔ کہیں کہیں محلات اور قلعوں کے کھنڈرات اب بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جن کو دیکھ کر سیاح شہنشاہوں، مہندسین اور ماہرین تعمیرات کو داد دیتے ہیں لیکن میرے ذہن میں تو ان ادوار کے انسانوں کی بےچارگی آتی ہے جو ان تعمیرات میں حصہ لیتے تھے۔ جب تعمیر کی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں تو ان میگا پراجیکٹس پر کام کرنے والوں کا کیا حال ہوتا ہو گا- کئی بیچارے تو اس بھاری بھرکم جبریہ مشقت کے دوران ہی اس دنیا سے سدھار جاتے ہوں گے۔ کتنوں کے سر قلم ہوتے ہوں گے۔ تو ان بڑی بڑی کہنہ نشانیوں کی بنیادوں میں مجھے ہزاروں مزدوروں کا خون نظر آتا ہے۔ کال کوٹھڑیوں کے کھنڈرات سے غلاموں اور قیدیوں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں- اس لیے مجھے تو وہ محلات کم اور راز محل زیادہ لگتے ہیں جن میں نہ جانے کتنی کہانیاں چھپی ہیں، جن کو تاریخ کے اوراق نے احاطہ اس لیے نہیں کیا کہ تاریخ بھی تو بادشاہوں کی لکھوائی ہوئی ہوتی ہے۔ اب بھی کہیں کہیں بادشاہت موجود ہے لیکن زیادہ تر ممالک نے جمہوری نطامِ حکومت کو اپنا لیا ہے۔ کیوںکہ آج کا انسان جان چکا ہے کہ صرف ایک آدمی یعنی بادشاہ عقلِ کُل نہیں ہو سکتا۔

ہمارے ہاں بھی جمہوری نظام حکومت کی بنیاد ڈالی گئی، کتنے سال اس نظام کو ملے یہ ایک الگ داستان ہے۔ ہم ٹھہرے ایک غیر ترقی یافتہ قوم جس نے تعلیم تو کچھ کچھ حاصل کی ہے لیکن ابھی یافتہ نہیں ہوئی۔ ایسے میں ایک شور ہے ہر طرف، پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک، کوئی سیاسی جلسہ ہو یا سیمینار، ہر طرف ایک ہی آواز ہے، جمہوریت، جمہوریت۔ کچھ سیاسی لیڈر تو شہید جمہوریت بھی کہلاتے ہیں ہر چند کہ مزاج آمرانہ رکھتے ہیں۔ اگر پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو کس جماعت اور اس کے سربراہ میں جمہوریت نظر آتی ہے؟ دادا، باپ اور پھر بیٹا، اور اب حقوقِ نسواں کی دوڑ کے ساتھ ایک اور فائدہ یہ بھی ہو گیا کہ اگر گھر میں آدمی نہیں تو عورتوں کے حقوق کے علمبردار بن کر بیٹی، بہن یا بیوی کو اسمبلی یا سینٹ میں لے آوؑ، سیٹ تو بچے گی۔ ایسے میں اسمبلی یا سینٹ میں کہاں جمہوریت نظر آ سکتی ہے۔ بیشتر ممبران کی موجودگی صرف انگوٹھا لگانے کے لیے ہوتی ہے، فیصلہ تو پہلے سے ہی طے ہوتا ہے۔

یہ ناچیز ملکی سینٹ تو نہیں لیکن یونیورسٹی سینٹ کی ممبر رہی،اس لیے تھوڑا بہت ان کے طریقِ کار کے بارے میں جانتی ہوں۔ ملکی سینٹ اور یونورسٹی سینٹ میں بڑی گہری مماثلت نظر آتی ہے۔ سیاسی اپوزیشن کے پاس اپنی کوتاہیوں کا آسان حل ہے کہ کسی بل پر بحث چل پڑے تو واک آوؑٹ کر جاؤ، اپنی نالائقی کو چھپانے کا یہ آسان حل ہے یا پھر حکومت کو فیور دینے کا طریقہ بھی ہو سکتا ہے کہ معصوم عوام کے سامنے تو ایک ددوسرے کو خوب سناتے ہیں لیکن اندر خانے سب کچھ طے کر لیتے ہیں۔ بظاہر بحث مباحثے، اختلافات، واک آؤٹ، تقریروں وغیرہ کے دکھاوے کے بعد اسمبلی سے منظوری اور پھر سینٹ کی مہر ثبت کر دی جاتی ہے۔ پھر جمہوریت کہاں رہ گئی؟  مجھے تو یہ بادشاہت کا ہی ایک دوسرا رخ نظر آتا ہے جو اصلی بادشاہت سے کہیں زیادہ خراب اور بگڑا ہوا ہے اور یہ ادارے عوام کی جیبوں پر بہت بڑا بوجھ ہیں۔ ملک کے آئینی سربراہ صدرصاحب فیصلوں پہ اثرانداز ہوسکتے ہیں، اگر وہ د رآمد شدہ نہ ہوں یا پھر اپنی رائے میں خود مختاری رکھتے ہوں۔ یہاں تو صدور بھی چن کر ایسے لگائے جاتے ہیں جن کی زبان بندی پہلے سے طے ہو اور حکومت کے ہر فیصلے پر خامشی کی مہر ثبت کرتے چلے جائیں۔ ایسے میں ایوان صدر کا بھاری بھرکم بجٹ بھی عوام کی جیب ہی برداشت کرتی ہے۔ ٹیکسوں کی بھرمار ہے جو بیچاری عوام برداشت کر رہی ہے۔ لگتا ہے کہ سانس لینے کے لیے ہوا پر بھی جلد ٹیکس نافذ ہو جائے گا۔ لیکن ان جیب کتروں کا کیا جو ان ایوانوں میں براجمان ہیں، ان کے اللے تللے ہی پورے نہیں ہوتے عوام کی فلاح و بہبود پہ کیا خرچ کریں گے۔ بادشاہت میں جو عشر یا لگان وصول کیا جاتا تھا گو اس کا زیادہ حصہ شاہی محل پہ خرچ ہوتا لیکن کچھ نہ کچھ عوام کی فلاح پر بھی خرچ کیا جاتا تھا ۔ ناچیز جمہوری نظام کے خلاف نہیں یقیناؑ تعلیم یافتہ اور تعلیمی طور پر خواندہ ممالک میں یہ اپنی حقیقی روح کے ساتھ نافذ ہے۔ کیونکہ تعلیم انسان کو اچھی سوچ دیتی ہے اور  یہ تعلیمی ادارے ہی ہیں جو زندگی گزارنے کے لیے ایک وژن بناتے اور لائحہ عمل دیتے ہیں۔

راقمہ نے تقریبا پینتیس برس دو جامعات میں گزارے۔ ڈین اور ڈائریکٹر کوالٹی جیسے عہدوں پر رہی۔ دونوں جامعات کی تمام دستور ساز اور مقتدر باڈیز کی ممبر بھی رہی۔ سینئر ایجوکیشنسٹ کی حیثیت سے سرچ کمیٹی کی ممبر بننے کا اعزاز بھی حصے میں آیا ۔جس میں شامل ہو کر وائس چانسلرز کی سیلیکشن کا طریقہ کار بھی دیکھا۔ پہلی بار جب سنڈیکیٹ کی میٹنگ میں شرکت کرنے گئی تو ایک احساسِ تفاخر سا تھا ۔لیکن جوں جوں ایجنڈا زیر بحث آتا گیا، سارا تفاخر ہوا ہوتا گیا۔ سوچ میں پڑ گئی کہ اگر جامعات کا یہ حال ہے تو دوسرے کسی ادارے کو دوش کس لیے۔ یہاں بھی وہی، ملکی اسمبلی اور سینٹ کی طرح، سب کچھ پہلے سے طے، ممبران تو بس اپنی موجودگی کی مہر لگانے اور دستخط کرنے کے لیے بیٹھے تھے۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد ایک بہت سینئر عہدیدار نے پوچھا کہ میڈم آج آپ کا پہلا تجربہ تھا، کیسا لگا؟ میں نے پوچھا سچ کہوں۔ کہنے لگے، ہاں۔ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ \”اندھا بانٹے ریوڑیاں ہِر پِھر کے اپنوں ہی کو دے۔\” اس سے بہتر تبصرہ شاید ممکن نہیں تھا۔ افسوس ہوتا ہے کہ جامعات کا نطامِ کار، جہاں قوموں کی سو چ بنتی ہے، شاہی دربار سے مماثل نظر آتا ہے۔ وہاں بھی وائس چانسلرز بادشاہوں سے کم نہیں ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments