ہائے میری کام والی۔۔۔۔


ایک دن امی نے مجھ سے دفتر جاتے ہوئے پوچھا کہ میں نے ان کی دراز سے کوئی پیسے لئے ہیں ؟ میں نے نفی میں جواب دیا اور نکل گئی۔ میری امی ماشااللہ اسی برس کی ہیں مگر چاک و چوبند ہیں، ہاں کبھی کبھی پیسوں کے معاملہ میں تھوڑی بھلکڑ ہیں۔ کچھ دن بعد امی نے پھر یہی شکایت کی تو میں نے او ر باقی گھر والوں نے اسے نظر انداز کر دیا۔ مگر ذہن کے کسی کونے میں یہ بات بیٹھ گئی کہ کہیں امی ٹھیک تو نہیں کہہ رہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے گھر میں ایک اور خاتون بھی بھی کام کرتی ہے مگر وہ اعتباری تھی اور کافی عرصہ سے ہمارے پاس ہے سو شک اس نئی لڑکی پر ہوا مگر سوچا کہ چابی تو ہر وقت امی کے پاس ہوتی ہے۔ دل پریشان تھا کہ کیا کیا جائے؟ بالآخر ایک دو روز بعد ہی سب صاف ہو کر سامنے آگیا۔

اسے میرے پاس آئے تین ہفتے گزر چکے تھے کہ اس نے ایک دن کے لئے چھٹی لے کر شیخوپورہ اپنےگھر جانے کی فرمائش کر دی۔ میں نے بھی حامی بھر لی یہ سوچ کر اسے بھی آرام چاھئیے اور گھر والوں سے بھی مل آئے گی۔ تو میں نے اسے بھیج دیا۔ بس یہیں غلطی کر بیٹھی میں۔ کاش میں جاتے ہوئے اس کی تلاشی لے لیتی۔ جس دن وہ گئی اس دن بھی امی نے اپنے پیسوں کی بات چھیڑی اور بولیں کہ ان کی دراز سے کم از کم بھی ایک ڈیڑھ لاکھ روپے کم ہیں۔ ہم سب بھی سوچ میں تھے کہ کیا امی کو غلط فہمی ہو رہی ہے؟

خیر وہ اگلے روز صبح سویرے واپس آگئی۔ اندر داخل ہوئی تو اس کے ہاتھ میں ایک چمکتا دمکتا برینڈ نیو موبائل فون تھا۔ آتے ہی مجھے قصہ سنانے لگی، “باجی راستے میں ہمیں ڈاکو پڑ گئے، وہ میرا فون چھین کر لے گئے تو میرے بھائی نے مجھے اپنا نیا فون دے دیا کہ میں یہ کچھ دن یہ استعمال کر لوں۔” میں چپ رہی ذہن میں سوالوں کا ایک انبار لگ گیا۔ اپنے شوہر سے بات کی تو انہوں نے یہ کہہ کر تسلی دی کہ اچھا چلو ہم کوئی اور بچی ڈھونڈتے ہیں۔ میں تھوڑی سکون میں آگئی۔ اسی شام جب میں گھر واپس آئی تو گاڑی پورچ میں کھڑی کرتے میری نظر امی کے کمرے میں پڑی، کھڑکی کا پردہ ہٹا ہوا تھا اور وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ میں اس دیکھ سکتی ہوں۔

وہ امی کی الماری کی چابی واپس الماری میں رکھ رہی تھی۔ میں دوڑ کر اندر آئی تو وہ اسی کمرے میں موجود تھی۔ مجھے سر پر کھڑا دیکھ کر بوکھلا گئی، بولی بچے کا ڈائپر تبدیل کرنا تھا اس لئے ادھر آئی ہوں۔ دل تو کیا کہ اسے زناٹے دار تھپڑ لگا دوں مگر اپنا غصہ کنٹرول کیا۔ اسے باہر لائی اور پوچھا کہ الماری سے کتنے پیسے نکالے۔ پہلے تو وہ الماری کھولنے سے ہی مکر گئی مگر پھر مان گئی کہ الماری کھولی تھی مگر پیسے نہیں لئے اور اس پر اس نے قرآن کی قسم کھانے سے لے کر اپنے ماں باپ، بہن بھائی اور خود اپنے فوری مرنے کی قسم کھانے سے بھی گریز نہ کیا۔

میں نے اسے لاؤنج کے ایک کونے میں بٹھا دیا اور اپنے شوہر کو فون کر کے فوری گھر واپس بلایا۔۔ امی بیچاری کہنے لگیں، “تم لوگ میری بات نہیں سن رہے تھے میں تو کتنے دن سے بتا رہی تھی کہ یہ لڑکی ٹھیک نہیں ہے۔” خیر میرے شوہر بھی گھر آگئے اور میرے بھائی بھی۔ وہ ان کے سامنے زارو قطار روتی رہی، کھانا بھی نہ کھایا اور قسمیں کھاتی رہی کہ میں اس پر جھوٹا الزام لگا رہی ہوں۔ صبح ہوئی تو میں نے اسے زبردستی ناشتہ کروایا کہ کہیں بے ہوش نہ ہوجائے اور الزام ہمارے سر آجائے۔ دل میں یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں خود کو زخمی کر کے ہمارے اوپر الزام نہ لگا دے ( ایسا ہمارے خاندان میں پہلے کسی کے ساتھ ہو چکا ہے)۔

سو ہم نے یہ سوچا کہ جلد از جلد پولیس کو کال کی جائے۔ میں نے اسے کچھ وقت دیا کہ وہ سوچ لے،اگر مان گئی تو میں اسے کچھ بھی کہے بغیر جانے دوں گی ورنہ پولیس اسے یہاں سے لے کر جائے گی۔ پھر وہ جانے اس کے گھر والے اور تھانے والے۔ مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ بالآخر دوپہر کے وقت ہم نے پولیس بلا لی۔

ان کے آنے کے بعد، ٹوٹل سات منٹ کے اندر اس نے سب اگل دیا۔ اور جس صوفے کے پاس وہ سارا دن بیٹھ کر آنسو بہاتی رہی اسی صوفے کے اندر سے پندرہ ہزار نکال کر اس نے پولیس والوں کے ہاتھ میں تھما دیے اور باقی اس نے قبول کیا کہ دس ہزار وہ گھر اپنی ماں کو دے کر آئی ہے۔ مجھے پھر بھی یقین نہیں تھا کیونکہ دراز سے جانے والی رقم کہیں زیادہ تھی۔ خیر پولیس والوں سے ہم نے ایف آئی آر نہ کاٹنے کی درخواست کی یہ سوچ کر کہ بچی ہے اور تھانوں میں جو حال ہوتا ہے وہ شاید برداشت نہیں کر پائے گی۔ رات گئے میرے شوہر اسے وہیں چھوڑ آئے جہاں سے وہ آئی تھی۔

اخباروں ٹی وی چینلوں میں آئے دن ملازماؤں پر تشدد کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں کچھ میں تو سپریم کورٹ تک نے از خود نوٹس لے لیا۔ میں یہ نہیں کہتی کہ ایسا ہوا نہیں ہوگا یا ایسا ہوتا نہیں کہ کم عمر بچیوں کو ملازمتوں پر رکھ کر ان کے ساتھ ظلم نہیں کیا جاتا مگر کیا سب ہی ایسا کرتے ہیں؟ کیا آپ اپنی اجیر پر تشدد کرتے ہیں؟ یا کیا آپ جب باہر کھانا کھانے جاتے ہیں تو آپ کے ساتھ آنے والی بچی یا خاتون جسے آُ نے مدد گار کے طور پر رکھا ہے اسے اپنا منہ دیکھنے کے لئے سائڈ پر کھڑا کر دیتے ہیں؟ ہم ایک ایسی تصویر جس میں ملازمہ بچہ پکڑے کھڑی ہے اور سب کھانا کھا رہے ہیں کو اس طرح وائرل کرتے ہیں جیسے ہم نے وہ تصویر خود لی ہو اور جیسے ہم اس فیملی کے ریستوران میں داخل ہونے سے واپسی تک وہیں بیٹھے رہے ہوں صرف یہ دیکھنے کہ اس نے کھانا کھلایا کہ نہیں۔

ارے بھائی یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ گھر سے کھا کر آئی ہو، فاسٹ فوڈ کھانے کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے اس کا ٹیسٹ ڈویلپ نہ ہوا ہو اور اسے وہ کھانا اچھا نہ لگتا ہو۔ یا اس کا پیٹ خراب ہو جاتا ہو اور اس نے خود باجی سے کہا ہو کہ وہ نہیں کھائے گی۔ ایسا میرے ساتھ ہو چکا ہے۔ میرے پاس پہلے ایک بچی تھی جسے باہر کا کھانا سوٹ نہیں کرتا تھا وہ بیچاری پریشان ہو جاتی تھی تو ہم بجائے ہوٹل میں بیٹھ کر کھانے کے کھانا گھر لے آتے تھے صرف اس ڈر سے کہ کہیں ہم بے گناہ سوشل میڈیا کی زینت نہ بن جائیں۔

گھریلو ملازمین پر تشدد، زیادتی اس کے حقوق پورے نہ کرنے کے قصے تو بہت رپورٹ ہوئے۔ ایکشن بھی ہوئے، آجران کی سوشل کے ساتھ ساتھ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر خوب تذلیل بھی کی گئی۔مگر کیا ایسا کوئی ریکارڈ موجود ہے کہ کتنے ملازمین نے ملازمت کے دوران گھر میں چوری کی؟ بچوں کو جسمانی و جنسی اذیت کا شکار بنایا، کتنے ملازمین نے کام میں ڈنڈی مار کر جھوٹ بولا، کتنوں نے گھر والوں کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھایا، کتنوں نے کوئی الزام لگنے کی صورت میں خود کو زخمی کیا اور الزام آجر پر لگایا، کتنی خواتین گھریلو ملازمین کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا شکار ہو چکی ہیں؟ ایسی صورتحال میں سب کی ہمدردیاں کام کرنے والی کے ساتھ ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ مبینہ طور پر کمزور ہے۔

ارے جناب، اگر آپ اپنی کام والی کے ساتھ برا سلوک نہیں کر رہے تو ہو سکتا ہے کہ دوسرا بھی نہ کر رہا ہو اور اسے صرف پھنسایا جا رہا ہو۔ گھریلو ملازمین کے حقوق کے تحفط کے لئے سنا ہے کہ ایک بل 2017 میں سینٹ نے منظور کیا جو ابھی قومی اسمبلی کی ایک متعلقہ کمیٹی میں زیر بحث ہے۔ اور شاید ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے یہ بل جلد قانون کی شکل اختیار کر جائے۔ اچھی بات ہے۔ پر،کاش، میری جیسی باجیوں کے ذہنی سکون کو برقرار رکھنے کے بارے میں بھی کوئی سوچے اس پر بھی قانون سازی کا کسی کو خیال کسی کو آجائے۔ تو شاید گھروں کا سکون برقرار رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2