مولوی صاحب اور پرانی ٹوپی


ڈرو نہیں تم اچھے بچے ہو۔ ساتھ بیٹھے انورنے اسے سہمے ہوئے دیکھ کر اس کے کان میں کہا۔ اس نے چونک کر اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا تووہ مسکراتے ہوئے بولا۔ تم خوش شکل ہو۔ انور اس کا پڑوسی تھا اس سے چھہ ماہ بڑا۔ اس سے ایک ماہ سینیر تھا مولوی صاحب کے ہاں۔ مگر اس کا یہ پہلا دن تھا اسی لیے قدرے ڈرا ہوا تھا۔ دیکھنے میں مولوی صاحب تگڑے جوان تھے۔ ہمیشہ تیز خوشبو والا عطر لگائے رکھتے۔ گٹھا ہوا جسم اگرچہ پیٹ خاصا نکلا ہوا۔ سر پر امامہ باندھے رکھتے کانوں کے پیچھے ان کے لمبے بال دکھائی دیتے۔ چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں تیز چمک۔ اور مسلسل سرمے کے استعمال سے ان میں لال ڈوروں کا جال بنا ہوا۔ بڑی سی ناک کے نیچے باریک ترشی ہوئی مونچھیں۔ موٹے ہونٹ اور ان کے نیچے گھنی سیاہ لمبی گھنگریالی داڑھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ داڑھی میں دائیں ہاتھ کی انگلیاں پھیرتے۔ چونکہ مولوی صاحب نہایت نیک انسان تھے اس لیے صرف بچوں کو پڑھاتے بچیوں کو ان کی اہلیہ پڑھاتی تھی۔

شام ہوتے ہی محلہ بھر کے بچے باوضو ہو کر ان کی گھر پہنچ جاتے اور بیٹھک میں بچھی اک بڑی چٹائی پر دائرے میں براجمان ہو جاتے۔ مولوی صاحب سامنے ایک گدے پر نیم دراز۔ گرم چادر لپیٹے ہوئے بیٹھے رہتے جبکہ بیس بائیس بچے باآواز بلند آگے پیچھے ہل ہل کر اپنا سبق دہرانے میں مصروف رہتے۔ مولوی صاحب کی داہنی جانب پلیٹ میں گڑ، الائچی اور سونف دھرے ہوئے جن سے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد مستفید ہوتے۔ اور ان کے بائیں جانب ایک لمبی سی کوچوان کی چھمک نما پتلی چھڑی جو اتنی لمبی کہ ان کے ہاتھ کی ہلکی سی جنبش سے دور سب سے آخر میں بیٹھے بچے کی پیٹھ پر بھی اس سرعت سے پڑتی کہ وہ بلبلا جاتا۔ اور اچانک زور سے آگے پیچھے ہلنے لگتا۔ چونکہ تمام بچوں کی بلند آوازیں ایک بھنبھناہٹ نما ردھم بناے رکھتیں اس لیے مولوی صاحب محض دیکھ کر سمجھ جاتے کہ جو بچہ ہل نہیں رہا وہ سبق یاد نہیں کر رہا۔ البتہ چھڑی کی سزا سب کے لیے نہیں تھی بلکہ اکثر اچھے بچوں کی غلطی پر وہ پاس بلا کر گال پر زور سے چٹکی کاٹتے کہ سسکی نکل جاتی اور وہ لال گال لیے واپس اپنی جگہ پر جا کر زور سے ہلنے لگتا۔

مولوی صاحب باری باری ایک ایک بچے کا پاس بلا کر سبق سنتے ایسے بلا کے سامع تھے کہ توجہ نہ بھی ہوتی تو درست ہی سنتے کہ بچہ کچھ پڑھ ہی رہا ہے۔ اور وہ تو چند دن میں ہی سمجھ گیا تھا کہ مولوی صاحب اسے شاباش دیتے جو فٹا فٹ اپنا سبق سنا دیتا۔ اسی لیے جب اس کی باری آتی تو وہ ایک لائن چھوڑ کر ایک لائن پڑھتا جس پر اسے کئی بار شاباش ملی۔ جب بھی کوئی بچہ اختتام تک پہنچ جاتا تو آخری پارے کے آغاز میں ہی مولوی صاحب پرانی یادیں سنانے لگتے۔ کہ کس طرح اس موقع پر انہوں نے اپنے استاد کی خدمت میں کئی جوڑے کپڑوں کے ساتھ پانچ کلو مٹھائی، نقدی ہمراہ کئی گز لٹھے کی پگڑی دیے تھے۔ پھر اپنے سابق فارغ التحصیل شاگردوں کی بابت بتاتے۔ کہ کس کس نے کتنا بڑھ چڑھ کر ان کا حق ادا کرنے کی کوشش کی۔ مگر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ بھئی استاد کا حق بھلا کون ادا کر سکتا ہے۔ بھلے اسے سونے چاندی میں تول دیں۔ ان جملوں کی ادائیگی کے وقت ان کی آنکھوں کی چمک تیز ہو جاتی۔ اور وہ اچانک ٹھنڈی آہ بھرتے۔

چونکہ مولوی صاحب نے دینی تعلیم کے بعد کوئی نوکری نہ کی تھی اس لیے درس و تدریس ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ محلے اور گرد و نواح کے مکینوں کی مذہبی عقیدت کے باعث ان کے گھروں سے روزانہ دو وقت کا کھانا آجاتا۔ حصول ثواب کی خاطر روزانہ کئی قسم کے سالن۔ فروٹ اور میٹھا بر وقت پہنچتاکہ ان کی خدمت ہی دین برحق کی خدمت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ کرائے کا گھر ہونے کے باوجود ان کا دسترخوان بہت وسیع تھا۔ ایک وقت کے کھانے میں دس بارہ قسم کے سالن مختلف گھروں اور ہاتھوں کا ذائقہ لیے ہوئے۔ وہ چونکہ کفران نعمت نہ کر سکتے اس لیے سبھی پر ہاتھ صاف کرتے۔ اور طعام کے آخر میں ایک باآواز بلند لمبا سا ڈکار لے کر آہستہ سے کہتے۔ الحمدللہ

مولوی صاحب دن کا کھانا خاموشی سے کھانے کے بعد قیلولہ ضرور کرتے مگر خاموش نہیں باآواز بلند قیلولہ ارد گرد کے گھروں میں بھی سنائی دیتا۔ شروع شروع میں تو محلے دار سمجھے کہ کسی گھر میں کوئی جنگلی جانور گھس آیا جو ایک ہی تسلسل سے دوپہر کو روز غراتا ہے۔ پھر بھلا ہو اس کا اور رمضان کا کہ انہوں نے جنگلی جانور کا کھرا نکال لیا۔ ہوا کچھ یوں کہ دوپہر کو حسب معمول جب غرانے کا تسلسل شروع ہوا تو وہ دونوں آواز کے محرک کی تلاش میں نکل پڑے۔ آواز کا پیچھا کرتے کرتے وہ مولوی صاحب کی بیٹھک تک پہنچ گئے۔ اس دن کھڑکی شاید کھلی رہ گئی تھی اور آواز وہیں سے آ رہی تھی۔ انہوں نے ڈرتے ڈرتے جو جھانکا تو حیران رہ گئے کہ کوئی جنگلی جانور نہیں بلکہ یہ تو مولوی صاحب کے قیلولے کی آواز ہے۔ وہ جب ہوا پھیپھڑوں میں بھرتے تو اس وقت ان کے نتھنے پھڑپھڑاتے ہوئے تھوڑا سکڑتے پھر پھولتے اور عجیب سی آواز پیدا ہوتی اور پیٹ تھرتھراتا ہوا اوپر کو اٹھتا۔ اور جب سانس چھوڑتے تو اس وقت ان کے منہ سے جب ہوا خارج ہوتی تو ہونٹ پھڑپھڑاتے اور غراہٹ پیدا ہوتی۔ اور پیٹ دھم سے واپس اپنی جگہ پر آ جاتا۔ یہ عمل قیلولے کے اختتام تک مسلسل جاری رہتا۔ یوں یہ معمہ حل ہوا۔ محلے کے ایک سیانے نے کہا کہ یہ غراہٹ بھرے خراٹوں کا محرک بیسیوں گھروں کا دان کیا ہوا کھانا ہے مگر چونکہ وہ ایک غیر مذہبی سوچ کا حامل شخص سمجھا جاتا تھا سو کسی نے اس کی بات پر کان نہ دھرے اور کھانوں کی ترسیل جاری رہی۔ اور اس کا سبق بھی۔ مگر آخری پارے پر پہنچ کر اسے خوف شروع ہو گیا کہ اب ختم کے وقت اسے بہت کچھ ہدیہ کرنا پڑے گا سو وہ آخری پارہ پڑھے بغیر ہی وہاں سے بھاگ نکلا۔ کیوں کہ گھر کے حالات ایسے نہ تھے۔ مولوی صاحب نے گھر کئی پیغام بھجوائے لیکن وہ نہ گیا۔

ایک مرتبہ بازار دودھ لینے کو جارہا کہ مولوی صاحب نے دھر لیا۔ وہ میک اپ کی ایک دکان پر خریداری کر رہے تھے۔ او مرزا تو سبق پڑھنے کیوں نہ آتا۔ ختم بھی نہ کیا۔ انہوں نے بازو کو زور سے دبایا تو اس کی سسکی نکل گئی۔ میں آؤں گا مولوی صاحب تھوڑا بیمار ہوں اس نے بہانہ گھڑا۔ پھرمولوی صاحب کے ہاتھوں میں تھامی ہوئی نیل پالش اور لپ سٹک دیکھ کر سوال داغ دیا۔ مولوی صاحب یہ چیزیں حرام نہیں ہیں؟ وہ ایک لمحے کو ٹھٹھکے پھر بولے۔ بچے عورت کو زیبائش حلال ہے اگر خاوند کے لیے کی جائے۔ ان کی باچھیں کھل گئیں تو اسے اچانک یاد آیا کہ ایک مرتبہ اس نے محلے کی عورتوں کی آپس میں سرگوشیاں اتفاق سے سن لی تھیں۔ وہ کہ رہی تھیں کہ مولوی صاحب کی نظر ٹھیک نہیں ہے۔ اس وقت اسے یہ سن کر اسے حیرت ہوئی تھی کیونکہ کہ وہ تو نظر کا چشمہ بھی نہ لگاتے تھے۔ اس کے بعد وہ ان کے ہاتھ نہ آیا دور سے دیکھ کر ہی رستہ بدل لیتا۔ یوں وقت کے ساتھ ساتھ وہ جوان ہوتا گیا۔

جمعے کو وہ خاص طور پر نہا دھو کر تیار ہوتا تن پر کپڑوں کا نیا جوڑا اور پیروں میں پرانی جوتی پہنتا۔ آ نکھوں میں سرما ماتھے پر تھوڑی سی کالی پالش لگا کر ہتھیلی سے رگڑا لگاتا تو چوڑا ماتھا نمازی پرہیز گار سا ہو جاتا۔ ٹوپی سر پر اور وہ چلے کسی نئے محلے کی مسجد کو۔ خطبے کے آغاز سے ذرا بعد ہونٹوں میں کچھ بڑبڑاتا ہوا پچھلی صفوں میں بیٹھ جاتا۔ واپسی پر کبھی کبھی جوتے بھی بدل لیتا۔ یوں مسجد سے اس کا رشتہ جمعہ کے جمعہ مضبوط رہا۔ اور روزے تو اسے چلغوزے سے زیادہ پسند تھے۔ اسی لیے زندگی میں اتنے چلغوزے نہ کھائے ہوں گے جتنے روزے۔ کہتا جوانی کے روزے کا اپنا مزا ہے اگر کھا سکیں۔

ماہ رمضان اسے اپنے لنگوٹیے دوست رمضان سے زیادہ پسند تھا۔ لنگوٹیے نے کبھی اتنا نہ کھلایا پلایا جتنا ماہ رمضان نے۔ سحر و افطار کے مزے اپنی جگہ مگر دن کو چھپ کر کھاتا تو اللہ کی نعمتوں کا پیٹ بھر بھر شکرگزار ہوتا۔ ایک مرتبہ دن کے وقت محلے کے ایک بزرگ نے اسے منہ چلاتے دیکھ لیا تو غصے سے بولے۔ بھری جوانی میں ر وزہ کیوں نہیں رکھتے؟ میاں جی بیمار ہوں۔ وہ جھٹ کندھے جھکا کر کمزور آواز میں منمنایا۔ ارے دیکھنے میں تو بھلے چنگے ہو میاں جی نے اس کو سر تا پا بغور دیکھا۔ میاں جی ذہنی بیماری لاحق ہے۔ اس نے جان چھڑانے کو کہا۔ تمھارے باپ سے بات کروں گا میاں جی نے گویا دھمکی دی۔ ارے یہ ظلم نہ کرنا میاں جی وہ بھی بیمار ہیں ابھی پراٹھا کھا کر سوئے ہیں۔ امی نے سخت گرمی میں بحالت روزہ پکا کر دیا۔ اور میاں جی اپنا سا منہ لے کر چل دیے۔ زندگی کا سفر جاری رہا اور گھر والوں نے اس کی شادی بھی کر دی۔

ایک دن دفتر سے واپسی پر تھکا ہارا گھر پہنچا تو ابو کی ڈانٹ کھا کر امی جی کی جانب سے بیوی کی چار برائیاں سننے کے بعد جب حواس باختہ اپنے کمرے میں داخل ہوا تو بیوی منہ پھلائے بیٹھی تھی۔ اس کے خالی ہاتھ دیکھتے ہی پھٹ پڑی۔ نئی ٹوپی نہیں لائے کہا بھی تھا؟ اور وہ شرمندہ سا ہو گیا۔ پانچ سالہ بیٹے نے بھی اسے شکایت بھری نظر سے دیکھا۔ آج بیٹے کا پہلا دن ہے پرانی ٹوپی پہن کر سبق پڑھنے جائے گا؟ کوئی بات نہیں ٹوپی تو ٹوپی ہوتی ہے سر ڈھانپنے کو نئی ہو یا پرانی وہ نظریں جھکائے آہستگی سے بولا اور اپنے بوٹ کے تسمے کھولنے لگا۔ چل بیٹا وضو کر دیر ہو رہی ہے بیوی نے اسے دیکھ کر دانت پیستے ہوئے بیٹے سے کہا۔ بیٹا وضو کرنے لگا۔

مولوی صاحب کا اب محلے کا سب سے بڑا اپنا ذاتی گھر تھا۔ جو کہ آدھا مدرسے کے لیے وقف تھا۔ محلے کی جامع مسجد کے امام بھی وہی تھے۔ تھوڑی دیر میں بچہ وضو کر کے آ گیا۔ ماں خوشی سے نہال ہو گئی۔ ماتھا چوما ٹوپی پہنائی جا میرا بچہ اللہ ایمان نصیب کرے۔ اور روانہ کر کے ٹیپ ریکارڈ کا بٹن دبا دیا۔ سپیکر سے آواز آئی۔ بھر دے جھولی تو میری۔ بیٹے کے ہاتھ میں پہلا قاعدہ تھا اور سر پر وہی پرانی ٹوپی جسے پہن کو وہ خود بھی سبق پڑھنے پہلی مرتبہ گیا تھا۔ وہ خالی خالی نظروں سے بیٹے کو جاتے دیکھتا رہا۔

خرم بٹ
Latest posts by خرم بٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خرم بٹ

خرم بٹ(سابق سینئر جوائنٹ سیکریٹری نیشنل پریس کلب اسلام آباد)۔ بائیس سال سے فوٹو جرنلسٹ ہیں۔ مزاح نگار۔ کالم نگار۔ بلاگر۔ ون لائنر۔ بٹ گمانیاں کے نام سے طنز ومزاح لکھتے ہیں۔ ان کی غائب دماغی کی وجہ ان کی حاضر دماغی ہے

khurram-butt has 10 posts and counting.See all posts by khurram-butt