عقیدہ اور رواداری


میرے والد مرحوم اچھے خاصے وہابی تھے اور صوم و صلات کے بھی سخت پابند۔ ان کی اپنی کوئی سگی بہن نہ تھی۔ ہمارے گھرانے کے مراسم محلے بھر کی ہر دلعزیز بزرگ خاتون ”بجو“ کے گھرانے سے بہت گہرے تھے جو نجیب الطرفین سیدہ اور اہل تشعیع تھے۔ بجو سب سے پیار کرنے والی اور پرخلوص خاتون تھیں انہوں نے لکھنؤ کے رشتے سے ابا کو منھ بولا بھائی بنالیا۔ وہی نہیں ان کے تمام گھرانے نے اس منھ بولے رشتے کی وہ لاج رکھی کہ بھولے نہیں بھولتی۔ بجو نے اتنا پیار دیا اور یہ رشتہ ایسا نبھایا کہ ہم بچوں کو پھوپھی اور اماں کو نند نہ ہونے کا احساس کبھی نہیں ہونے دیا۔

میری والدہ اور بہنیں ان کے گھر اور محلے کے دوسرے شیعہ گھرانوں میں مجالس میں بھی جاتیں اور نذر و نیاز بھی چکھتیں۔ اماں مرحومہ پہلی محرم سے دس محرم تک نوحے اور مرثیے سنتیں اور خود بھی پڑھتیں بھی اور خوب روتیں۔ ہم بھی تعزیے اور جلوس میں شرکت کرتے۔ اور تو اور میری چھوٹی بہن جو ان دنوں سات آٹھ برس کی رہی ہوں گی خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ اکثر ماتم بھی کرلیتیں جب اماں کو معلوم ہوا تو ہنس کے ٹال گئیں۔

نویں محرم کی رات چھوٹے چچا مرحوم ہم لڑکوں کو تعزیے دکھانے لے جاتے اور رات گئے واپسی ہوتی۔ دسویں محرم کو وہ جلوس کے ساتھ نیٹی جیٹی کے پل تک لیجاتے اور ہم سب تعزیوں کو ٹھنڈا ہوتے دیکھتے۔ محرم کی حلیم اور بریانی کھاتے اور خوب شربت پیتے۔

دسویں محرم کی“ شام غریباں“ ابا اور والدہ مرحومہ تو گھر ہی پر ریڈیو پر ہی سنتے اور بعد میں ٹی وی پر دیکھتے جبکہ ہم بھائی بہن امام باڑے جاکر مجلس میں سنتے۔ لیکن کبھی کسی نے نہیں ٹوکا۔ ان دنوں امام باڑے کو ” امام بارگاہ ” کہنے کا رواج نہیں تھا۔

شب برات کی ٹکیاں بجو یعنی ہماری منھ بولی پھوپھی خاص طور پر الگ سے ابا کے لئے بنواتیں اور اپنی بہو سے کہتیں۔ ” بٹیا ہمارے بھیا کی ٹکیاں الگ کردو اس پر نیاز نہ دلوانا ورنہ بھیا نہیں کھائینگے ” کیسے اچھے لوگ تھے اور کیسے رواداری تھی۔

میری شادی کے موقع پر بجو  نے پھوپھی کے رشتہ سے ٹوکرا بھر پینڈیاں بھیجیں، میرے بازو پر امام ضامن بھی باندھا اور ہاتھوں پر گوٹے میں لپٹا ہوا کنگنا بھی باندھا گیا۔ جس پر ابا سمیت کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ پھوپھی کے رشتہ سے یہ ان کا حق تھا جو تسلیم کیا گیا اور اماں نے جو خود بہت رسم و رواج کی پابند تھیں انکو“ نیگ“ بھی دیا۔ ۔ بؑجو اماں کو جب ” اے بھاوج ” کہتیں تو ان کے لہجے کا پیار اور اپنا پن ہوتا آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔

وقت بدلا۔ ہم بڑے ہوگئے لوگ ادھر ادھر ہوئے۔ ہم لوگ دوسرے محلے جاکر آباد ہوئے۔ بجو کے گھرانے سے آنا جانا کم ہوا۔ ابا نے رحلت فرمائی اور کچھہ عرصے بعد معلوم ہوا کہ بجو بھی نہ رہیں۔ اللہ مرحومہ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ “ پیدا کہاں ایسے پراگندہ طبع لوگ ”

شادی کے کچھ عرصے بعد مجھ پر ایک کڑا امتحان آن پڑا۔ ایسے مواقع پر اکثر ” اپنوں ” کا جو رویہ ہوتا ہے اس کا مجھے بھی خوب تجربہ ہوا۔ ”بہت قریبی“ اور بہت عزیز ایسے میں کہیں دور دور نظر نہیں آرہے تھے کہ کہیں میں ان سے کوئی سوال نہ کر بیٹھوں۔ ایسے میں بھی ایک شیعہ فیملی ہی میری دلجوئی اور غمگساری میں دامے، درمے سخنے ساتھ رہی۔ انہوں نے اپنے عقیدے اور مسلک کے مطابق کیا کیا نہ کیا۔ ساتویں محرم کو من بھر کی شیرمال بنواکر تقسیم اہل جلوس میں تقسیم کی گئیں۔ آٹھ بدھ تک متواترایک مخصوص امام باڑے میں منتیں مانی گئیں جو صحتیابی پر پوری بھی کی گئیں۔ محبت اور خلوص کے ایسے مظاہرے کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ اللہ تعالی کی دنیا کبھی اچھے لوگوں سے خالی نہیں رہی۔

نفرت اور تعصب کی جو فضا اب نظر آتی ہے اس کا چند سالوں پہلے تک کوئی وجود بھی نہ تھا اور میرا تو ماننا ہے کہ اب بھی پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اسی پیار و محبت سے ملتے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہیں۔ برا ہو ان مٹھی بھر لوگوں کا جنہوں نے امن و بھائی چارے کی اس فضا میں زہر گھولنے کی کوشش کی اور کررہے ہیں لیکن ایسا ممکن نہیں ہم سب آج بھی شیر و شکر ہیں اور انشا اللہ محبت اور خلوص کا یہ سفر جاری و ساری رہیگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).